میرا پیام کچھ اور ہے

الطاف جمیل ندوی
ابھی ایک ویڈیو دیکھ کر کرب کی ٹھیس اٹھی دل میں جس میں ایک ہی ملت کے دو صاحبان علم آپس میں ہی دست و گریباں تھے ہر کوئی حق پر ہونے کی ضد پر اڑا تھا
وائے ناکامی متاع
اب کیا بس یہی ہماری ترجیحات رہ گئیں ہیں کیا ماسوا اس کے کوئی کام کرنے کا نہیں اس جہل زدہ ماحول میں کیا ہم نے پیغام حق و صداقت کو مکمل تکمیل کی بلندیوں تک پہنچا دیا کیا اب ہر جا کلمہ حق کی صدائیں ہی گونجتی ہیں کیا اب ہر جا رب الکریم کی ربوبیت کے ہی ترانے بلند ہوتے ہیں گر ہاں تو یہ علم کی موت گر نا تو پھر وقل جاء الحق کا کیا مطلب کیوں سناتے ہو برسر ممبر کیا اب روٹی کا پر کال ہے تمہارے نصیب میں جس نصب العین کی آپ دھائی دے رہے ہیں اس کا ماخذ کیا ہے مراجع کیا ہے کیا یہ سنن نبوی ہے تو بتائے نا کب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ عثمان و علی رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں آپسی مباحثہ کیا یاد کیجئے مجھے حاجت ہے جاننے کی گر نہیں تو پھر بتائے نا آپ کس کے ترجمان ہیں بتائے نا کچھ تو
جبکہ اصل حال تو کچھ ایسا ہے کہ امت کی اکثریت قرآن و سنت سے لاتعلقی کا برملا ارتکاب کر رہی ہے جس کا مشاہدہ آئے روز مختلف انداز میں ہر کسی صاحب تدبر و تفکر کو ہوتا ہی رہتا ہے تو وہیں امت کے سر پر الحاد لادینیت جیسے امراض مسلط ہورہے ہیں ایسے میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ محمد عربی صل اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے طریقے کو پروان چڑھانے کے لئے ہم سب متفکر رہتے اس مصیبت سے نجات پانے کے لئے پر ہم الفاظ کے ہیر پھیر میں اس قدر الجھ گئے کہ اصل سے دور جا گرے نتیجہ ہمارے سامنے ہے جو امت کسی زمانے میں اپنی انفرادی ترجیحات پر امت مسلمہ کی بقاء کی ترجیحات کو فوقیت دیتی تھی وہی اب سر بازار تماشہ کر رہی ہے تاریخ کو اٹھائیں تو اپنا سنہرہ باب دیکھ کر مسرت و شادمانی ہوتی ہے جن کے کمال علمیہ کے ہی مرہون منت اب تک تفاسیر تراجم و تفھیم الاحادیث کے ساتھ ساتھ ان کی ایمانی قوت و حمیت دیکھنے کو ملتی ہے پر جب حال کو دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ایک ملت کو عرش کی بلندی سے زمین کی انتہا پر مار دیا گیا ہے
امت کے ماضی و حال میں اتنی تفریق ان کے مستقبل کی بھی نشاندہی کر رہی ہے
تو آئے میری ملت کے بچو میرے جگر کے ٹکڑو
سنئے نا میرے نالے
کیا یہ امت ایسے ہی گلی بازار میں رسوا ہوتی رہے گی
کیا یہ امت اس تباہی و بربادی کی اور ایسے ہی رواں رہے گئی
کیا اس امت کو تفریق در تفریق ہونے سے بچانے کی کوئی سبیل نہیں
کیا اس امت کے لئے بہائے گئے آنسوؤں کی کوئی قیمت نہ رہی
کیا اس امت کے لئے نبوی علیہ السلام والی محنت اب کام کی نہیں
کیا یہ امت پیٹ کے بچاری ملاووں کی شرارتیں سہتی ہی رہے گئی
کیا امت کے کمر میں آئے خم کا کوئی مداوا نہیں
ہائے میرے جگر
یہ امت رسول رحمت صل اللہ علیہ وسلم کے آنسوؤں اور آہون کی مرہون منت ہے
یہ بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی چیخوں کی قرضدار ہے
یہ سید الشھداء رضی اللہ عنہ کی شہادت کی وجہ سے باقی ہے
یہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا ثمر ہے
یہ امام ابو حنیفہ امام احمد بن حنبل امام شافعی امام مالک امام بخاری امام مسلم جیسے جید علماء حدیت کی محنتوں سہر گاہی کی قرضدار ہے
کیا ہماری زمہداری کچھ بھی نہیں
تو نام کیوں لیں
اسلام کی عزت و عظمت کا اس کے روشن ماضی کا
میری اوقات نہیں کہ آپ سے کچھ کہوں
مجھے کسی سے گلہ نہیں یہ میری ہی بدبختی ہے کہ امت محمد عربی صل اللہ علیہ وسلم سے دور جارہی ہے اور مجھے میری دینی وضع قطع پر ناز ہے مجھے اپنی کامیابی میں شک نہیں میری فلاح جیسے میری ہی منتظر ہے میری آخرت جیسے مجھ پے وارے جارہی ہے میری جنت جیسے میرے بنا اداس سی ہے میرا نبی صل اللہ علیہ وسلم جیسے میرا ہی منتظر ہے حوض کوثر پر
مگر حقائق میرا منہ چڑھا رہے ہیں کہ کیا تو ہی اس کارواں حق کا ساتھی ہے جس کا ہر لمحہ فکر امت کے لئے وقف تھا کیا تو اسی ملت کا چشم و چراغ ہے جس کے ہوتے ہوئے کوئی بھوک پیاس سے نہ تڑپتا تھا کبھی
کیا تو اسی صالح معاشرے کا داعی ہے جہان کلیان نہ مسلی جاتی تھیں
آئے داعیان دین مبین
جانتا ہوں آپ علم و ادب کے اعلی مناسب پر فائز ہیں میری اوقات نہیں کہ آپ سے کچھ کہہ سکوں آپ کو رب کی کتاب کی روشنی میسر ہے نبو علیہ السلام کے سنن کا فیض ملا ہے آپ کی تسکین جہاں ہے وہیں سے کچھ الفاظ لے ہیں آپ کے لئے آپ اس امت کی زبوں حالی سے بخوبی واقف ہیں آپ پرنور شعاعوں کے متلاشی ہیں پر کیوں آپس میں آپ ایک نہیں ہو پاتے کیوں آپس میں آپ شیر و شکر نہیں کیوں آپ سر راہ اپنے آپ کو حق پرست کہنے پر مجبور ہیں کیا کوئی راہ نہیں ملتی آئے میری روح کی ٹھنڈک آپ جائے نا اسلاف امت کے دور میں وہاں اپنی راہ تلاش کرے نا منزل آپ کے قدم چومے گئی راہ آپ کا استقبال کرے گئی امت ایک ہی صف میں چلی آئے گئی
مجھے نہیں خبر میری بات کیسی ہے پر میں اداس ہوں امت کی اس طرح آپسی رسہ کشی سے میرا دل کرب و اذیت میں ہے۔
Comments are closed.