ہاں میں ضلع بیگوسراءے ہوں بیگوسراءے کے یوم تاسیس کے حوالے سے خاص مضمون,

ہاں میں ضلع بیگوسراءے ہوں

 

بیگوسراءے کے یوم تاسیس کے حوالے سے خاص مضمون

 

ہاں میں ضلع بیگوسرائے ہوں۔ آج سے اڑتالیس سال قبل 2 اکتوبر 1972 کا دن تھا ، جب میں ایک ضلع کے طور پر وجود پذیر ہوا تھا۔ آج میری عمر 48 سال ہے۔ بہار کی حکومت نے مجھے اپنی والدہ مونگیر ضلع سے علیحدہ کرنے کے بعد سب ڈویژن سے ترقی دے کر ضلع کا درجہ دے دیا۔ اس سے پہلے برطانوی حکومت مجھے 6 جنوری 1870 کو ایک سب ڈویژن کا درجہ حاصل ہوا تھا… تقریباً ایک سو دو سال مجھے ضلع بننے کے لیے انتظار کرنا پڑا

منٹیشور جھا بیگوسرائے کے پہلے ضلع مجسٹریٹ تھے.. میری وسعت بھی خاطر خواہ ہے. میں 75 کلو میٹر لمبا اور 45 کلو میٹر چوڑا ہوں۔ میرے مشرق میں کھگڑیا ، مغرب اور شمال میں سمستی پور اور جنوب میں پٹنہ ، لکھی سرائے اور مونگیراضلاع ہیں۔ میں 1889،14 مربع کلومیٹر میں پھیلا ہوا ہوں۔میرے پانچ بیٹے ہیں، بلیا، تیگھڑا، منجھول بکھری، بیگوسرائے سب ڈویژن کے طور پر… اور 18 بلاک پوتے پوتی کی حیثیت سے۔ میرے پاس دو این ایچ 28 اور 31 ہیں۔ یہاں متعدد اسٹیٹ ہاءیوے اور پھر اہم دیہی سڑکیں ہیں۔ یہاں مشہور و معروف برونی ریلوے اسٹیشن ? کے علاوہ متعدد چھوٹے بڑے ریلوے ? اسٹیشن اور کچھ ریلوے ہالٹ ہیں۔ امن و امان کو سنبھالنے کے لئے میرے پاس 20 سے زائد پولیس اسٹیشن اور 10 معاون پولیس اسٹیشن ہیں۔ میں 31 جولائی 1967 کو میونسپلٹی اور 2009 میں میونسپل کارپوریشن بن گیا۔

ہمارے پاس بارش کا تناسب 1200 ملی میٹر ہے۔

ہمارے پاس پانچ ندیاں ہیں گنگا ، بوڑھی گنڈک، باگمتی بالان ، بیتی اور چندر بھاگا. جن سے ہمارے باشندے اپنی پیاس بجھا رہے ہیں۔

میں فی الحال بہار کا صنعتی دارالحکومت ہوں اور اس میں ریفائنری ، تھرمل پاور اسٹیشن ، فرٹیلاءزر اور برونی ڈیری شہرت یافتہ فیکٹریاں ہیں. ان کے علاوہ بھی متعدد فیکٹریاں ہیں جن میں کاربن، کاغذ ، ترپال ، دوائی ،غذائی اجناس، چونا ، موم ، پائپ ، چپل وغیرہ مصنوعات تیار ہوتی ہیں۔ سمریا ، مونگیر، سیوری اور اسفا گھاٹ سمیت درجنوں پل ہیں جو علاقے کے ساتھ جو دلوں کو جوڑتے ہیں۔میں ریلوے کے ذریعہ دہلی، ممبئی، کلکتہ ، شمال مشرق اور ملک کے ہر حصے سے جڑا ہوا ہوں. الاؤ میں ہوائی اڈہ بھی ہے لیکن اجازت یافتہ نہیں..

سراءے نور نگر کی نورجہاں مسجد، نور پور کی جامع مسجد ۔خانقاہ بخاریہ شطاریہ بڑی بلیا، ہری گیری دھام ، جئے منگلا گڑھ ، کاور جھیل ، نولکھا مندر ، سمیریا گھاٹ ، جھٹیا گھاٹ ہمارے قومی اور تاریخی ورثہ ہیں. میں اپنے آپ میں بہت ساری تاریخیں شامل کرکے آگے بڑھ رہا ہوں۔ چکور ، جلیور ، گوتم قبیلے کے بادشاہوں نے مجھے آباد کیا۔ ترہت راج میں بھی شمولیت رہی.. انگریزوں نے ایک بار انڈگو کی فیکٹری اور سیل دیئے تھے۔ بہار کے پہلے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر سری کرشنا سنگھ نے مجھے کءی جہت سے سجایا ، اس وقت کے بہار کا صنعتی دارالحکومت بنایا۔. میری مٹی سے مولانا اسحاق برونوی جیسا مجاہد آزادی اور علامہ محمد محسن ترہتی اور علامہ یار علی برونوی اور علامہ عثمان غنی جیسے محدث اور مولانا یحییٰ لکھمنیاوی اور مولانا ادریس نیموی جیسے مفسر اور شاہ سلطان لکھمنیاوی جیسے مرشد اٹھے.

قومی شاعر رامدھاری سنگھ دنکر اور مورخ رامشرن شرما ہمارے لعل وگہر ہیں…. میں نے مختلف شعبوں میں لاتعداد ہنر مند اور ماہرین کی آبیاری کی ہے…

میں بیگوسرائے ہوں۔ میں سات اسمبلی حلقوں اور ایک پارلیمانی حلقہ کا مالک ہوں… پہلے دو پارلیمانی حلقے تھے. بلیا اور بیگوسرائے. کتنے شاعر ، ادیب ، مورخین ، ڈاکٹر ، رہنما مجھ سے اور مجھ میں پروان چڑھے ۔ میں ہمیشہ جدوجہد کے ساتھ کھڑا ہوں۔ ۔سیاست میں جہاں میرے فرزند مشہور انقلابی کامریڈ چندرشیکھر سنگھ نے عروج حاصل کیا ، اور آج ان کی سیاسی وراثت کو کنہیا کمار لے کر آگے بڑھ رہے ہیں.

میں والی بال تاءیکوانڈو اور کبڈی کی نرسری بھی ہوں ، کسانوں سے لے کر مزدوروں و انقلابیوں تک ، تاجروں سے لے کر صنعت کاروں تک ، ہمت اور بہادری سے شائستگی اور خوشحالی تک کا سفر مجھ سے جڑ کر کررہے ہیں.

یہاں غریب بے زمین نچلی ذات کے لئے لڑتے ہوئے اعلی ذات نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ایک مثال قائم کی ہے ۔

میں بین فرقہ ہم آہنگی کی بھی مثال ہوں سیکولر ازم ہمارے رگ وریشہ میں پیوست ہے… یہاں اگر رامپور ہے تو محمد پور بھی. اگر بھگوان پور ہے تو خداوند پور بھی ہے. اگر بشن پور ہے تو نور اللہ پور بھی. کسی باضابطہ فرقہ وارانہ فسادات سے میں اب تک محفوظ ہوں، خدا آءندہ بھی ہماری حفاظت کرے… مجھے آنے والے دنوں میں کمشنری تک کا سفر کرنا ہے.. میری گود فی الحال یونیورسٹی سے خالی ہے، لیکن ہمارے جیالے یونیورسٹی بنواکر ہی دم لیں گے.

میں بیگوسرائے ہوں ..

 

ترتیب :محمد خالد حسین نیموی قاسمی

Comments are closed.