میرکیاسادہ ہیں، بیمارہوئے جس کے سبب

(اقرباء کریں قتل کادعوی کس پر)
محمدجمیل اختر جلیلی ندوی
بابری مسجد ملکیت کے مقدمہ میں فاضل جج نے یہ تومان لیاتھاکہ مسجدکسی بھی مندر کوتوڑکرنہیں بنائی گئی تھی اورمسجدکوتوڑنادرست نہیں تھا، اس سے یہ بات بھی بتادی گئی کہ جولوگ مسجدتوڑنے، اس کے لئے منظم طریقہ سے رتھ یاترانکالنے اورملک کے اس خطہ سے لے کراس خطہ تک لوگوں کوابھارنے اوران کے ذہنوں میں مسجد توڑنے کی پلاننگ ڈالنے کے کام میں شریک رہے، وہ سب کے سب مجرم ہیں، یہ بات بابری مسجد ملکیت کے فیصلے سے بالکل واضح ہے؛ لیکن لکھنؤ کی سی بی آئی عدالت نے، جہاں اس تعلق سے مقدمہ 28ٌٌسالوں سے چل رہاتھا، 30ستمبرکویہ فیصلہ سنایاکہ اس تعلق سے جن زندہ 32لوگوں پرفردجرم عائدتھا، وہ سب کے سب بے گناہ ہیں، ان کے خلاف کوئی ایساثبوت اورکوئی ایسی شہادت نہیں ملی، جس سے یہ ثابت کیاجاسکے کہ یہ لوگ مسجدکے توڑنے یا اس کے لئے لوگوں کوابھارنے میں شریک تھے۔
یہ فیصلہ بس ایساہی ہے ، جیسے دن کی روشنی میں ، بھرے مجمع میں کسی کے گال پرزناٹے دار تھپڑ رسید کیاجائے اوراس سے مکرجایاجائے اوریہ ماننے کے لئے ہرگزتیارنہ ہوا جائے کہ تھپڑرسیدکیاگیاہے، اسے کہتے ہیں سینہ زوری، اسے کہتے ہیں داداگری، اسے کہتے ہیں دبنگائی، آج کل ہمارے ملک میں یہی سب چل رہاہے، ’’جس کی لاٹھی، اس کی بھینس‘‘ سنتے اورپڑھتے آئے تھے، اب کھلی آنکھوں اس کا مشاہدہ کیاجارہاہے، عدالت میں ایک مورتی ہوتی ہے، جس کی آنکھوں پرپٹی بندھی رہتی ہے، اس کامطلب تو یہ ہے کہ یہ انصاف کی دیوی ہے، کسی ایک کی طرف نہیں دیکھتی؛ لیکن میں سوچاکرتاتھا کہ جب پٹی بند ھی ہوئی ہے تودیکھے گی کیسے؟ اورجب دیکھے گی نہیں توفیصلہ کیسے کرے گی؟ معلوم ہوا کہ انصاف کی دیوی دیکھ کرنہیں، سن کرفیصلے کیاکرتی ہے، اب ظاہرہے کہ سنانے والاجتنے اچھے رنگ ڈھنگ سے اپنی سنادے اورجس سے دیوی متاثرہوجائے، فیصلہ تواسی کے حق میں ہوگا، اگرآنکھ کھلی ہوتی توکم از کم چہرہ کے اکسپریشن سے تویہ معلوم ہی ہوجاتاکہ بولنے والاجھوٹاہے یا سچا، اب جاکریہ لوجک سمجھ میں آئی۔
بابری مسجد ملکیت کے تعلق سے جوفیصلہ ہوا، اس میں گگوئی نے کہاتھا کہ 1949میں مسجد کے اندر مورتی رکھناعبادت گاہ کی بے حرمتی کا عمل تھا، 1992میں اسے منہدم کیاجانا قانون کی خلاف ورزی تھی اور1949میں مسلمانوں کومسجدسے بے دخل کئے جانے کاعمل قانون کے تحت نہیں تھا، آج انہیں تین نکتے پربات کرتے ہیں، سب سے پہلی بات ’’1949میں مسجد کے اندرمورتی رکھناعبادت گاہ کی بے حرمتی کا عمل تھا‘‘، توسوال یہ ہوتاہے کہ یہ بے حرمتی کس نے کی؟ اس کوسزادی گئی یانہیں؟ اگرنہیں دی گئی توکیوں؟ اوراگردی گئی اتنی ہلکی کیوں دی گئی ، جس سے حوصلے بلند ہوئے اوربعد کے واقعات رونماہوئے؟ یہ معاملہ بہت حساس تھا، اس معاملہ کواس وقت کی حکومت نے کس انداز میں لیا؟ سنجیدگی کے ساتھ یا رواروی میں؟ اگرسنجیدگی کے ساتھ لیاتوپھرمعاملہ اتناآگے کیسے بڑھا؟ اوراگرسنجیدگی کے ساتھ نہیں لیا توپھرتوساراقصوراس کی وقت حکومت کاہے، اوریہی ظاہرہے، جیساکہ ملکیت کے فیصلہ اورشیلانیاس کے وقت سننے کوملاکہ ہرکانگریسی اس پرفخرکررہاتھا کہ بابری مسجدکے تعلق سے سارے کام انھوں نے کئے اورافسوس بھی ہورہاتھا کہ کریڈٹ بی جے پی لے رہی ہے۔
اس پرپھریہ سوال ہوتاہے کہ ان سب کرتوتوں کے باوجود ہمارے قائدین نے ہمیں کانگریس کا دم جھلاکیوں بناکررکھا؟ پہلے ہی مرحلہ میں اسے مسترد کیوں نہیں کردیا تھا؟ اگراسی وقت اسے مستردکردیاجاتااورپوری قوم کودوسراپلیٹ فارم مہیاکردیاجاتاتوسوال ہی نہیں ہے کہ آج کی طرح خون کے آنسو بہانے پڑتے، مولاناابوالکلام آزاد بڑے سیاست داں تھے اورپورے دم خم کے ساتھ بولتے تھے؛ لیکن اخیرزمانہ میں مہربہ لب ہوگئے تھے، وہ توکانگریس سے نہیں نکل سکتے تھے کہ انھوں نے بھرپورطریقے سے مسلم لیگ کی مخالفت کی تھی؛ لیکن ان کے علاوہ جوروشن دماغ تھے، دورس تھے، مفکرتھے، انھوں نے اس کومحسوس کیوں نہیں کیااوراگرمحسوس کیاتوخاموش کیوں رہے؟ یہ اوراس قسم کے سوالات آج کے حالات کودیکھ کربہت ساروں کے ذہن میں کلبلارہے ہیں۔
بابری مسجدملکیت کے فیصلے میں دوسری بات یہ بھی کہی گئی کہ ’’1949میں مسلمانوں کومسجدسے بے دخل کئے جانے کاعمل قانون کے تحت نہیں تھا‘‘، اس پرسوال یہی ہے کہ مسلمانوں کومسجدبے دخل کرنے کاکام کس نے کیا؟ کسی فردیاتنظیم نے تونہیں؛ بل کہ حکومت نے ہی کیا، مطلب صاف ہے کہ بابری مسجد کے تعلق سے جتنے بھی ’’کارنامے‘‘ انجام دئے گئے، حکومت کی نگرانی میں دئے گئے اورجس حکومت کی نگرانی میں دئے گئے، ہم اسی کے خادم بن کررہے؛ حتی کہ چندسالوں پہلے آسام الیکشن کے موقع سے بدرالدین اجمل کی پارٹی کے خلاف بھی ہم ہی نے جلسے جلوس کئے اوراپنی قوم کے فردکوووٹ دینے سے اپنی ہی قوم کے لوگوں کوروکا، سوال ہے کیوں؟ یہ بھی سوال ہے کہ جس حکومت نے سارے کارنامے انجام دئے؛ بل کہ مسلمانوں کوتعلیمی، معاشی اوردیگرترقیات سے روکنے میں کسی بھی طرح سے کوئی کسرباقی نہیں رکھا، ہم آج بھی اسی کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، یہ ہماری سادگی ہے کہ جس کی وجہ سے ہم بیمارہوئے، اسی سے دوابھی لے رہے ہیں:
میرکیاسادہ ہیں، بیمارہوئے جس کے سبب
اسی عطارکے لڑکے سے دوالیتے ہیں
یاکم فہمی ہے اور1947کے فسادات کی وجہ سے جوخوف وہراس ہمارے دل میں ڈالاگیاتھااورجس کافائدہ ہمیشہ سے اٹھایاگیا، ہم اس کوسمجھ نہیں سکے، آپ کیاسمجھتے ہیں کہ سچرکمیٹی کی رپورٹ آپ کی ہم دردی میں تھی؟ بہت سارے لوگ ایسا نہیں سمجھتے، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ رپورٹ یہ بتانے کے لئے تھی کہ ہم نے اپنے دورحکومت میں مسلمانوں کوہرطرح سے پیچھے رکھا، تعلیم میں بھی، معیشت میں بھی اورسیاست میں بھی، اس کااندازہ کم از کم اب توہوہی جاناچاہئے اوراب بھی ہمیں سنبھل جاناچاہئے، اگرآج بھی بھی نہیں سمجھے تو پھرکبھی نہیں۔
اب آیئے تیسری بات پر، یعنی’’ 1992میں اسے منہدم کیاجانا قانون کی خلاف ورزی تھی‘‘، ظاہرہے کہ سوال یہ ہوگا کہ یہ خلاف ورزی کس نے کی؟ جس نے کی ، کیاانھیں گرفتارکیاگیا؟ اگرنہیں توکیوں؟ جب بابری مسجد منہدم کی گئی، اس وقت بھی حکومت کانگریس کی ہی تھی، اس کے پاس ملک کی ساری طاقتیں تھیں، بھیڑکوروکنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ اس روٹ کی سبھی گاڑیوں کوبند کیوں نہیں کیاگیا؟ فوج پہلے سے ہی تعینات کیوں نہیں کی گئی؟ پھرجب مسجد ٹوٹ گئی تواس کے بعد حکومت نے کیاذمہ داری نبھائی؟ اس کے خلاف چلنے والے مقدمات میں اتنی تاخیرکیوں ہوتی رہی؟ اس کی فائلیں کیوں غائب ہوئیں؟ وہ افسران کہاں غائب ہوگئے، جن کے ہاتھوں سے فائلیں غائب ہوئی تھیں؟ ان کاسراغ کیوں نہیں لگایاجاسکا؟ مجرمین کے خلاف مقدمات اٹھائیس سال تک کیوں چلتے رہے؟ فاسٹ ٹریک عدالت قائم کرکے اسی وقت فیصلے کیوں نہیں کئے گئے؟ ان تمام سوالوں کے گھیرے میں ہے اس وقت کی حکومت؛ لیکن ظاہرہے کہ جواب کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔
آج اٹھائیس سال کے بعدانہدامی کارروائی کے مجرمین کے تعلق سے فیصلہ آیا، وہ بھی سی بی آئی کی عدالت سے اورفیصلہ بھی کیسا؟ ایساکہ ساری دنیاحیران، 32کے 32مجرمین دودھ کی طرح دھلے ہوئے، جب کہ کئی مجرمین نے توخوداپنی زبان سے بھی اقرارکررکھاہے کہ ہم اس کے حصہ تھے اورسب سے اہم بات ’’رتھ یاترا‘‘ کوکوئی بھول سکتاہے کیا؟ لیکن یہ ثبوت نہیں ہیں، بندآنکھوں والی دیوی جوٹھہری، اس کافیصلہ توہی ہوگا، جواسے سنایاجائے گا؛ بل کہ جواس سے کہلوایاجائے گا، یہاں بھی وہی ہوا؛ لیکن یہ خلاف توقع بھی نہیں تھا، جب ملکیت کافیصلہ ہوا، اسی وقت معلوم ہوگیاکہ اب آگے کیاہونے والاہے؟ لیکن سوال پھربھی قائم ہے کہ جس کی وجہ سے ہم بیمارہوئے ، اسی کے پاس دوالینے کے لئے جاناہے یاکسی اورعطارکوڈھونڈھاجائے گا؟؟؟Mob:8292017888
Comments are closed.