موجودہ دور میں مسلمانوں کے کرنے کے کام

نذیر احمد قاسمی
استاذ معہد کتاب و سنت،بہوبی بی مسجد، ۲۵،پام ایونیو، کولکاتا-۱۹
پوری انسانیت کی فلاح و بہبود اور کامیابی و کامرانی کے لئے رب ذو الجلال نے قرآن جیسی عظیم اور مقدس کتابِ ہدایت کو نازل فرمایا۔ اور اس کی تشریح و تفہیم کیلئے محسن انسانیت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو مبعوث فرمایا اور ان قرآنی تعلیمات و مقدس تفہیمات و تشریحات کو تا قیامت لوگوں تک پہونچانے کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعتِ برحق کو بھیجا، جس جماعت نے پوری امانت داری کے ساتھ اسلامی تعلیمات کو عام کیا، اور لوگوں کو کامیاب و مقبول انداز میں سمجھایا کہ خوشحال اور پرسکون زندگی جینے کے لئے اپنا تعلق خالق حقیقی سے جوڑنا ہوگا۔ جس کے نتیجے میں انسانیت کا ایک بہت بڑا طبقہ مختلف رنگ ونسل، زبان و تہذیب اور علاقوں کی شکل میں ہونے کے باوجود جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہونے لگا۔ وہ لوگ برحق تعلیمات سے اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کرکے لوگوں کو یہ سمجھانے میں مصروف ہوگئے کہ دونوں جہاں کی زندگی میں کامیابی و کامرانی کا راز مذہبِ اسلام میں مضمر ہے۔ جہاں ہمیں اپنے بڑے سے بڑے معاشی ، سماجی اور سیاسی مسئلے کا حل، آسان انداز میں ملے گا۔
چنانچہ لوگوں کے سامنے یہ حقیقت آشکارا ہوگئی اور نتیجتاًاسلامی سایہ ہی میں رہ کر روئے زمین پر خلافتِ الٰہی کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دینے لگے۔ پوری دنیا میں مستحکم نظامِ حکمرانی کے ذریعہ پر امن اور پرسکون زندگی کا درس دینے لگے۔ الغرض ایمان والوں نے پوری انسانیت کو اس ناقابل انکار حقیقت سے روشناس کرادیا کہ ہمارا رشتہ و شناخت قرآن مقدس کی ہدایات، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نورانی تعلیمات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مجاہدانہ صفات سے قائم ہے تو ہم دنیا و آخرت دونوں ہی جگہ سرخروہوکر زندگی گزار سکتے ہیں۔چنانچہ تاریخ کےروشن ابواب اس طرح کے حقائق و واقعات سے بھرے ہوئے ہیں۔
لیکن اختلاف اس دنیا کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے جیسا کہ رات و دن ، سرد و گرم ، جوانی و بڑھاپا اور بہار و خزاں کا اختلاف اس پر شاہد عدل ہے۔ لیکن انسان میں اختلاف کبھی انقلاب و کامیابی کا سبب تو کبھی بے حسی کی وجہ سے زوال کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
افسوس صد افسوس! موجودہ دور میں کچھ اس طرح کی صورتِ حال امتِ مسلمہ کے ساتھ بنی ہوئی ہے کہ دشمنانِ اسلام کے بتائے ہوئے سبز باغ ، دامنِِ تز و یر کے شکارہوکر اور گمراہ کن افکار و نظریات سے متاثر ہوکر جو اختلافات امت کی زندگی میں رونما ہوئے ہیں اور غور و فکر کے نہج میں جو تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں اور بے حسی کاجو ماحول بنتا جارہا ہے اس سے زوال کے عمیق غار اور مہیب قعرِ مذلت کا یہ امت شکار ہونے لگی ہے۔
اس لئے سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ بے حسی و بے شعوری کی دبیز چادر کو اپنے جسم سے جلد از جلد اتار پھینکیں اور اس امت کے دانش مند و دردمند حضرات علمائے کرام نے قرآن و احادیث اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی حیات وکارنامے کی روشنی میں اس امت کی سیاسی، معاشی اور سماجی حیثیت سے روبہ زوال ہونے کے جو اسباب بیان کئے ہیں، ان کا بلا تاخیر مطالعہ کرکے ہوش کے ناخن لیں ، اور ان اسبابِ زوال کے ازالہ و خاتمہ کے لئے جو راہ نما ہدایات بیان کئے ہیں ان پر عمل پیرا ہوکر اسلاف کی زندگی کے روشن باب کا دوبارہ احیاء کرنے کی کامیا ب کوشش میں مشغول ہوجائیں، یہی سعی انشاءاللہ ہمارے لوگوں کے لئے دنیوی زندگی میں ترقی کا ضامن بنے گی اور اخروی زندگی کے لئے ذخیرہ بن جائے گی (انشاء اللہ)۔
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی المعروف علی میاںؔ ندوی نور اللہ مرقدہ نے دردمندانہ انداز میں قرآن ، حدیث، آثار صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور انسانی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ زمانہ میں اس امت کے زوال کے جو بنیادی اسباب اور ان کا حل بیان کیاہے وہ اختصار کے ساتھ یہاں زیر تحریر ہیں، اللہ تعالیٰ اس تحریر کو ایمان والوں کے لئے عبرت و نصیحت کا ذریعہ بنائے ۔
(۱) مشرکانہ اعمال و عقائد :۔
قرآن کریم میں اہلِ کتاب کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
٘”اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَالُہُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَذِلَّۃٌ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ط وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ؁“
(الاعراف ؀۱۵۲)
ترجمہ :بلاشبہ جن لوگوں (اہل کتاب) نے بچھڑے کو اپنا معبود بنالیاان کو پہنچے گا غصہ ان کے رب کا اور ذلت دنیا کی زندگی میں اور یہی سزا دیتے ہیں ہم بہتان باندھنے والوں کو۔“
اس آیت کریمہ کے ذریعہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے امت مرحومہ کو اس بات کا درس دیا ہے کہ ایمان لانے کے بعد مشرکانہ اعمال سے کسی طرح کا تعلق غضبِ الٰہی اور دنیوی رسوائی کا سبب ہے۔
قارئین !دینی تعلیم سے دوری اور ایمانی کمزوری کی وجہ سے بہت سے ایسے اعمال و عقائد ہماری زندگی میں گھر کرچکے ہیں جن کا تعلق براہِ راست شرک سے ہے، خواہ وہ حاکم وقت سے متاثر ہوکر یا اس کی رضا جوئی کے لئے ہو، یا مساوات و رواداری کے نام پر ہی کیوں نہ ہو، یا ان سے اظہارِ یگانگت و یکجہتی کے لئے ہو، یا اپنے مال و جان کی حفاظت کی آڑ میں ہو، بہر حال شرکیہ اعمال و عقائد غضبِ الٰہی، دنیوی زندگی میں ذلت و رسوائی اور غلامیت کی طرف لے جانے والے ہیں۔ جیسا کہ آیتِ کریمہ میں اس کا برملا اظہار ہے، اس لئے زندگی کی ہر سطح میں ان سے کلی اجتناب کی سخت ضرورت ہے۔
(۲) اخلاق و اعمال کا فساد اور اس کے برے نتائج :۔
آج امت کا ہر فرد بد اخلاقی و بدکرادی کا رونا رورہاہے۔ ہماری زندگی سے اخلاص و للٰہیت، صداقت و امانت، طہارت و نظافت ، خود اعتمادی، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت ، اولاد کی اسلامی تربیت ، جذبۂ کسبِ حلال پر مبنی تجارت اور حلال و حرام کی تمیز رخصت پذیر ہے، جب کہ قوموں کا عروج و زوال ، عزت وذلت اور سر بلندی و رسوائی کا دارومدار ان کے اخلاق و کرادر پر ہے، اگر کوئی قوم نمایاں اخلاق سے عاری ہوگئی تو ان کے لئے ذلت و ہلاکت مقدر بن جاتی ہے جیسا کہ سابقہ اقوام پر عذابِ الٰہی کے نزول کے اسباب سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، حتیٰ کہ اگر امت ”امر بالمعروف“ اور ”نہی عن المنکر“ ترک کردیتی ہے تو اس کی دعائیں عند اللہ مقبول نہیں ہوتی ہیں، چنانچہ حدیث شریف میں ہے ۔
وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَتَأمُرُنَّ بَالْمَعْرُوْف ، وَ لَتَنْھَوْنَّ عَنِ الْمُنْکَر أو لَیُوْ شِکَنَّ اللہ أنْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عِقَابًا منہ ثُمَّ تَدْعُوْنَہ فَلَا یُسْتَجَابُ لَکُمْ (رواہ الترمذی)
(۳) شہرت اور عزت کا حد سے بڑھا ہوا شوق اور رسم و رواج کی شریعت کی طرح اور اکثر اس سے زیادہ پابندی :۔
ہر انسان شہرت کا طالب ہے، عزت کا متمنی ہے، اور اس طلب و تمنا کا نشہ جب کسی کے سر چڑھتا ہے تو اس کے لئے کسی بھی حد تک پہنچ جاتا ہے۔ کبھی تو حیوانیت شرمسار ہوجاتی اور کبھی بے دریغ اموال صرف کئے جاتے ہیں، اور کبھی اپنے اعزہ و اقارب کے ساتھ وحشیانہ سلوک کو بھی روا سمجھا جاتاہے۔ اور اس کے حصول میں رسم و رواج کا بالخصوص معاشرتی سطح پر بہت زیادہ التزام کیا جاتا ہے اور اس کے شوق میں شریعت کے احکام کو بڑی آسانی سے قربان کیا جاتا ہے۔
(۴) مسرفانہ تقریبات :۔
یہ بات اسلامی شریعت ، دینی مزاج اور انسانی نقطۂ نظر کے بالکل خلاف ہے کہ جہاں لاکھوں افراد نان شبینہ سے محروم، امت کے بے شمار بچے وسائل کے فقدان کے سبب تعلیم و تربیت سے دورا ور فقر و مسکنت کے باعث کھلے آسمان کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں ، ہزاروں ادارے (جو ملت کے لئے ”روح“ کا حکم رکھتے ہیں) اور بیسیوں منصوبے (جن کی تکمیل کے بغیر اس ملت کا وجود مشکوک اور مستقبل تاریک ہے) موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہوں۔ ایسے حالات میں ہمارے اہل ثروت تجار اور ذی حیثیت لوگ اپنی اولاد کی شادیوں، خوشی کی تقریبوں اور رسومات کی تکمیل میں اور ”برتھ ڈے“ جیسے لا یعنی شریعت مخالفت پروگراموں میں پانی کی طرح روپیہ بہائیں یہ کسی باشعور صاحبِ شریعت قوم کے افراد کو زیب نہیں دیتا ہے، اگر دیکھا جائے تو اچھے اچھے لوگ ان آیات کا مصداق ہیں :۔
” اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوٰہ ط اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلًا ؁ “
(الفرقان ؀۴۳)
”ترجمہ :بھلا دیکھ تو اس شخص کو جس نے پوجنا اختیار کیا اپنی خواہش کا کہیں تو لے سکتا ہے اس کا ذمہ ۔“
(۵) ملّی اجتماعی تقاضوں اور ضرورتوں سے چشم پوشی اور ملت کی حفاظت و تقویت سے غفلت:
قرآن مجید سے یہ بات صاف طریقہ سے ثابت ہوتی ہے کہ امت کے ملی اور اجتماعی تقاضوں اور دین کی حفاظت و اشاعت کے مطالبہ اور اس کی ضرورتوں میں اپنا مال صرف کرنے سے آنکھیں بند کرکے افراد کا اپنے ذاتی کاروبار اور اپنی معاشی ترقی و استحکام کی فکر و کوشش میں انہماک صریح خودکشی کے مترادف ہے، اور جو جماعت یہ غلط راستہ اختیار کرتی ہے، وہ اپنے ہاتھوں ہلاکت کے غار میں گرتی ہے۔
ہندوستان کے مسلمان اس وقت ایک فیصلہ کن مرحلہ سے گزر رہے ہیں۔ یہاں ملت اسلامیہ ہندیہ کی بقاء کے لئے ایک بڑی پر عزم لیکن دانش مندانہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ یہاں مسلمانوں کے ملی وجود، ان کی اجتماعی شخصیت و انفرادیت بقاء کے لئے کچھ کاموں کی تکمیل ضروری ہے۔ وہ اسی ملک میں مسلمانوں کی حیثیت سے رہیں، محفوظ ہوں، باعزت ہوں، موثر اور فیصلہ کن ہوں اور اس ملک کو مہیب خطرہ اور مہلک زوال سے بچا سکیں۔ اس کے لئے چند تعلیمی و تعمیری کوششوں ، تحریکوں اور عظیم اداروں اور فکری مرکزوں کی ضرورت ہے ، اگر اس کے لئے ابھی سے ہی موثر اقدامات نہیں کئے گئے تو جب آنکھ کھلے گی تب تو ان کو نظر آئے گا کہ وہ دفعتاً ہر چیز سے محروم ہوگئے ہیں۔ اور ایک تن آسان اور خدا فراموش اور فرض نا آشنا قوم کی طرح ان کا حال بھی یہی ہوگا:۔
” فَاَتٰہُمُ اللہُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْ ا ۤ وَقَذَفَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ “
(الحشر ؀۲ )
ترجمہ:”چنانچہ ان کے پاس اللہ کا عذاب آپہنچا جہاں سے ان کو گمان بھی نہیں تھا۔اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔“
(۶) تعمیری و تعلیمی اداروں اور مرکزوں کی زبوں حالی اور حفاظت و اشاعت اسلام کی کسمپرسی :۔
مسلمانانِ ہند سیاسی تبدیلیوں اور معاشی انقلابات کے باوجود الحمدللہ اس پوزیشن میں ہیں کہ وقت کو ضائع کئے بغیر احیاء و بقاء اسلام اور مسلمانوں کے مذہبی تشخص کو برقرار رکھنے کے لئے یہاں کے مرکزی ، دینی ، تعلیمی و تعمیری ادارے پوری کفالت کے ساتھ بہ حسن و خوبی چلا سکتے ہیں لیکن کتنی تحریکیں ہیں جن کی کامیابی کے بغیر مسلمانوں کا تعلیمی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، کتنے مرکز ہیں جو تعلیم یافتہ مسلمانوں اور نوجوانوں کو ذہنی، تہذیبی ارتداد سے( جو سیلاب کی طرح آرہا ہے) بچانے میں مدد دے سکتے ہیں، نوجوانوں کے ذہن میں اسلام اور اس کے مستقبل پر اعتما(د جس کو مغربی تعلیم و افکار نے متزلزل کردیا ہے) بحال کرسکتے ہیں۔ مستشرقینِ مغرب کے پھیلائے ہوئے زہر کے لئے تریاق مہیا کرسکتے ہیں اور ان کا علمی محاسبہ کرکے ان کو بے اثر بنا سکتے ہیں، کتنے مرکز ہیں جو بدلے ہوئے حالات میں اسلام کے ابدی قانون اور زندگی کے رواں دواں قافلہ کے درمیان رفاقت و مطابقت پیدا کرسکتے ہیں، کتنے افراد اور ادارے ہیں جو مغربی زبانوں اور ہندوستان کی مقامی بولیوں میں اسلام اور قرآن و سیرت نبوی کا تعارف کراسکتے ہیں ؟؟؟
اور ان سب سعید روحوں کو اپنی طرف کھینچ سکتے ہیں جو حق کی جویا اور جمال جہاں آرا نبوی کی نادیدہ عاشق ہیں۔ زیر تعلیم مسلم نوجوانوں کی حفاظت و تربیت کے لئے کتنے منصوبے ہیں جو ان کو الحاد و فساد کا لقمۂ تر بننے سے بچا سکتے ہیں اور ان میں ایمان کی چنگاری کی حفاظت کرسکتے ہیں لیکن یہ سب تحریکیں اور ادارے یا تو وسائل کے فقدان کی وجہ سے ایک خواب شیریں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ، یا اگر کہیں وجود میں آگئے تو مفلس کے چراغ کی طرح ٹمٹمارہےہیں۔
(۷) انگریزی اور ہندی پریس کی غیر موجودگی :۔
موجودہ جدید ذرائع ابلاغ نے اپنے کذب بیانی اور اسلام دشمنی کے برملا اظہار میں کوئی کسر نہیں چھوڑا ہے۔ میڈیا کے ذریعہ اس امت کے گرد تعصبات اور غلط فہمیوں کا جال پھیلا دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی مصلحتوں اور تنگ نظر فرقہ پرستی نے اس کو تباہی کے دہانہ پر کھڑا کردیا ہے، ہر وقت اس کے متعلق بڑی سے بڑی غلط فہمی پیدا کرنے کی سعی مذموم کی جارہی ہے، وہ اگر مظلوم و معصوم ہو تو اس کو ظالم و خونخوار ثابت کرنا، وہ اگر اپنی حفاظت اور اپنا دفاع چاہ کر بھی نہ کرپائے تب بھی اس کو حکومت مخالف سرگرمیوں کا مجرم اور دہشت گرد ثابت کرنا دست درازی اور لشکر کشی کا مجرم ٹھہرانا، وہ اگر مقتول ہے تو اس کو قاتل گرداننا اور ہر وقت رائی کو پربت اور افسانہ کوحقیقت بنانا اسی ذرائع ابلاغ کا کام ہے۔ لیکن مسلمانوں کا اس ملک میں بیس کروڑ والی سب سے بڑی اقلیت اور اس کے پاس بڑے سے بڑے دانش ور و مالدار درد مندافراد ہونے کے باوجود اس ملت کے پاس کوئی طاقت ور میڈیا و پریس نہ ہو، اس برعظیم کے طول و عرض میں اس کا ایک بھی انگریزی و ہندی اور علاقائی زبان میں روزنامہ نہ ہو، ملک کے ذمہ دار صاحب اختیار حلقہ اور اربابِ حکومت تک حرفِ شکایت پہونچانا مشکل ہی نہیں، ممکن قریب ناہونا، یہ ایک بہت بڑا لمحۂ فکریہ ہے۔
(۸) حد سے بڑھی ہوئی جذباتیت اور جوشِ خطابت :۔
اس ملت کے لئے حد سے بڑھی ہوئی جذباتیت اور جوشِ خطابت قومی مزاج بن گئی ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حوادث اور مخالفتوں کا مقابلہ کرنے اور نازک و اہم ذمہ داریوں اور آزمائشوںسے عزت کے ساتھ عہدہ برآ ہونے کے لئے عزم راسخ ، جذبۂ قومی، مہم جوئی و خطر پسندی کا بڑا دخل ہے، اور قوموں اور ملتوں کی تاریخ میں اس کی کھلی شہادتیں ملتی ہیں، لیکن دانش مند اور روشن خیال قیادتوں کو اس جذباتیت ، قلبی جوش اور تاثر اور اس کے لئے شعلہ نوا خطابت سے بڑے احتیاط و تناسب کے ساتھ کام لینے کی ضرورت ہے۔ ورنہ کچھ دنوں کے یہ جذباتی ہیجان اور یہ آتش نوائی اپنا اثر کھودیتی ہے اور ”بھیڑیا آیا“، ”بھیڑیا آیا“ کی قدیم کہانی دوہرائی جاتی ہے، اس لئے منصوبہ بند طریقے سے دانش مندانہ جدوجہد اور ملت اسلامیہ کے داعیانہ و مصلحانہ مزاج و مقام سے ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھنے کی سخت ضرورت ہے۔
(۹) طویلُ المیعاد اور صبر آزما جدوجہد سے عدمِ مناسبت :۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ مسلم اقلیت کو عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے حد سے بڑھی ہوئی جذباتیت اور جوشِ خطابت کے روش سے ہٹ کر خاموش مسلسل محنت و جانفشانی سے کام لینا وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے، انہی اصول پر یہودیوں نے امریکہ اور بیشتر ممالک میں اپنی زندگی، صلاحیت اور مشکل پسندی کا ثبوت دیا اور اس نے ملک و حکومت میں وہ اثر و نفوذ حاصل کرلیا جس کا عددی تناسب کے ساتھ کوئی میل نہ تھا۔
اور اس کی واضح مثال ہمارے ملک میں فرقہ پرست طاقتوں کا تعداد میں کم ہونے کے باوجود عروج کے مقام پر پہونچنا ہے،
” استعینوا بالصبر والصلوۃ“ کے ذریعے اللہ جل شانہٗ نے امت کو اپنی پرستش اور جہد مسلسل کا درس دیا ہے۔
(۱۰) تعاون اور اعتماد کی کمی، اجتماعی مفاد پر ذاتی منفعت کو ترجیح اور کردار کشی:۔
قومی زوال کی علامتوں میں سے ایک تشویشناک علامت یہ ہے کہ مسلمانوں میں اجتماعی ملی کاموں کو باہم تعاون اور جذبۂ اعتماد کے ساتھ انجام دینے کی صلاحیت روز بروز مفقود ہوتی جارہی ہے، اور اس کے نتیجہ میں اسکے عظیم سے عظیم تر ادارے خواہ وہ تعلیمی ادارے ہوں یا رفاہی تنظیمات، موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور ان کی کشتی طوفان سے ہر وقت اس طرح دو چار رہتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے اب ڈوبی تب ڈوبی، اس کا بڑا سبب اپنے اداروں کے سربراہوں اور مسلم قائدین کی دیانت و خلوص اور انتظامی صلاحیت پر اعتماد کی کمی ہے اور ان کے ہر اقدام اور فیصلہ کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھنے کی عادت اور اس کی توقع اور مطالبہ ہے کہ وہ ایک کو مطمئن اور راضی کریں اور نام نہاد سرپرستوں، سیاسی رہنماؤں اور بااثر افراد کی خواہشات و مفادات پر ادارہ کے مصالح اور مفادات کو بے تکلف قربان کردیں۔
بات صرف بے اعتمادی ، خوردہ گیری اور احتساب کی شدت تک محدود نہیں ہے، بلکہ افتراء ، اتہام اور کردار کشی تک پہونچ گئی ہے۔
(۱۱) ماحول کو مانوس و متاثر اور ہم وطنوں کو اسلام اور مسلمانوں سے متعارف کرانے کی کوشش کا فقدان:۔
مسلمانانِ ہند کی ایک بڑی کمزوری ، کوتاہ اندیشی اور عواقب سے چشم پوشی یہ ہے کہ وہ اپنے ماحول کو اپنے تک محدود اور اپنے دین کے اصولوں اور بنیادوں کو ہم وطنوں کے لئے مجہول رکھا۔
اپنی دینی پیشوا کی سیرت اور اپنی تاریخ کی عظیم شخصیتوں سے روشناس کرانے اور اس ملک میں آنے کے بعد انہوں نے جو تعمیری و انتظامی کردار ادا کیا ۔ (اس ملک و معاشرہ کو تحائف دئےاور اب بھی ان کا وجود ملکی اور غیر ملکی سطح پر جو کردارادا کر سکتا ہے۔) اس سے واقف کرانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کررہے ہیں۔
عام طور پر غیر مسلم اسلام کی بنیادی تعلیمات تک سے ناواقف ہیں اور اس کا ثبوت برابر ملتا رہتا ہے، وہ مسلمانوں سے متعلق اتنا جانتے ہیں کہ مسلمان ختنہ کراتا ہے، گائے کا گوشت کھانا ضروری سمجھتا ہے اور کچھ بات ہوجائے تو اسے بڑی جلدی غصہ آجاتا ہے، ہم ابھی تک اذان کا مطلب تک نہیں سمجھا سکے جو پانچوں وقت ہوتی ہے ہم نے اپنے ہم وطنوں کو اپنے سے مانوس اور اسلام سے متعارف نہیں کرایا، ایسا طرزِ زندگی ہم عمومی طور پر سامنے نہیں لاتے جس میں کشش ہو اور جو اس دین اور اس انقلاب کے سرچشمہ سے واقفیت کا تجسس پیدا کرے، مطالعہ کا شوق یا کم سے کم پوچھنے اور غور کرنے پر آمادہ کرے۔
ماحول کو مانوس اور قریب کرنے کا عمل ، اخلاقی پختگی و بلندی، ایثار و قربانی، گہری اور علاقائی حب الوطنی ، دانش مندانہ اور خوددارانہ اختلاط ، باہم آمیزی، سماجی و رفاہی کاموں میں نہ صرف شرکت بلکہ قائدانہ کردار ادا کرنے کی سعی اور اس ملک کو مہیب اخلاقی زوال سے بچانے کی مخلصانہ کوشش کی ضرورت ہے۔
(۱۲) ملک کے حالات کا جائزہ اور حقائق پر گہری نظر کی ضرورت :۔
صرف ماحول کامانوس اور متعارف ہونا کافی نہیں ،ضرورت ہے کہ خود مسلمان بھی زندگی کے حقائق ،ملک کے حالات اور ماحول کے تقاضوں سے باخبر و روشناس رہیں۔ مسلم معاشرہ کا رابطہ زندگی اور ماحول سے کٹنے نہ پائے، جہاں مسلمانوں نے سب کچھ کیا لیکن زندگی کے حقائق سے روشناس نہیں ہوئے اور اس ماحول میں اپنے قائدانہ فرائض انجام دینے کی کوشش نہیں کی، وہاں اس ملک نے ان کو اس طرح اگل دیا جیسے لقمہ اگلا جاتا ہے اور ان کو اگل کر باہر پھینک دیا۔
اگر مسلمانوں نے زندگی کے حقائق سے آنکھیں بند رکھیں، ملک میں ہونے والے انقلابات ، نئے بننے والے قوانین ، بدلتے ہوئے نظام و نصاب تعلیم، زبان و رسم الخط ، عوام کے دل و دماغ پر حکومت کرنے والے رجحانات، ذرائع ابلاغ اور ملکی پریس کی طرف سے روزانہ دی جانے والی خوراک سے انہوں نے آنکھیں بند رکھیں تو قیادت تو الگ رہی، جو خیر امت کا فرض منصبی ہے، ملی وجود کی حفاظت بھی مشکل ہو جائے گی اور ان کی آئندہ نسل ذہنی ارتداد و انتشار کا نہیں بلکہ (خاکم بدہن ) اعتقادی و دینی ارتداد کا بھی لقمۂ تر بننے سے محفوظ نہیں رہے گی۔
آخری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے اس ملک میں باعزت طریقہ پر رہنے کا یہی راستہ ہے کہ وہ اپنی افادیت ثابت کریں، اور اخلاقی قیادت کے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کریں، جو عرصۂ دراز سے اس ملک میں چلا آرہا ہے، اور اب اس حد کو پہونچ گیا ہے کہ اس کی کشتیٔ حیات ڈانوا ڈول ہورہی ہے، کسی ملک میں کوئی اقلیت یا فرقہ اپنی واضح افادیت اور بے لاگ و بے غرض دعوت و قیادت کے بغیر عزت و اطمینان کے ساتھ نہیںرہ سکتا ۔ ڈاکٹر اقبالؔ نے صحیح کہا ہے:۔
زندگی جہد است استحقاق نیست
ترجمہ :”زندگی قربانی کا نام ہے، حق طلبی کا نام نہیں“
اور جس کی مثال سب سے بڑھ کر قرآن مجید کا واضح اعلان ہے جس کی تصدیق پوری تاریخ انسانیت کرتی ہے۔
” فأماالزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَآءً ۚ وَاَمَّا مَایَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ ط کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ؁“
(سورہ الرعد ؀۱۷)
مستفاداز :مسلمانانِ ہند سے صاف صاف باتیں (از :علی میاں ندویؒ)

Comments are closed.