Baseerat Online News Portal

اترپردیش یا اپرادھ پردیش……؟

عبدالعزیز
ہاتھر س میں انیس سالہ دلت لڑکی کے ساتھ ظالموں نے ظالمانہ اور سفاکانہ کانہ برتا ئو جو کیا ہے اسے لفظوں میں کسی صورت سے بیان نہیں کیا جا سکتا اس کی اجتماعی عصمت دری ہوئی اور اسے مار کر لہو لہان کر دیا گیا پولیس نے مظلوم اور زخموں سے چور چور کر دی جانے والی لڑکی کو پہلے ضلع اسپتال میں بھرتی کیا پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسپتال لے آئے جب مظلوم لڑکی کا آخری وقت آگیا تو محض جبر اور جرم کو چھپانے کے لئے صفدر گنج دہلی کے اسپتال میں پہنچا دیا گیا جہاں اس کی موت کے اعلان کے بعد اس کی لاش اس کے گائوں لے آئے اس کے ماں باپ بھائی بہن کو دکھا ئے بغیر رات کے اندھیرے میں جلا دیا گیا ۔یہ اس کے گھر والوں پر دوسرا بڑا ظلم ہوا ۔گھر والے روتے بلکتے رہے کہ وہ صبح انتم سنسکار کریں گے مگر پولیس ان پر دباؤ بنا تی رہی جب گھر والے پولیس کی زیادتی نہ سہ سکے تو گھر والے اپنے آپ کو اپنے ہی گھر میں بند کر لیا پولیس انہیں باہر سے بند کردیا یہ رات کے سارے واقعہ کو گودی میڈیا ہی میں سے ایک میڈیا جسے انڈیا ٹی وی کے نام سے جانا جاتا ہے اس نے تفصیل سے ایک ایک منظر کو دکھا یا ہے ۔یہ فیس بک میں بھی وائرل ہوا ہے۔ صبح کے وقت دلت لڑکی کی ماں اپنا دکھ درد چھپا نہ سکی اپنے گھر کے سامنے زمین پر سر پٹک پٹک کر روتی بلکتی رہی اپنی دلاری بیٹی پر ایک ایک ظلم یاد کرتی رہی۔
رویش کمار نے اپنے ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی پر اس درناک منظر کو دکھا یا ہے ۔کوئی درد مند انسان جب دیکھے گا وہ آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکے گا ۔مگر ہائے یوگی کی بے شرم‘ بے حیا اور ظالم پولیس‘ جس نے حیوانیت کوبھی مات کر دیا ہے۔ جب کہ ان کے بھی بال بچے ہوںگے انہیں ذرا بھی احساس نہیں ہے کہ کل اگر خدانخواستہ ان کی بچی یا لڑکی کے ساتھ ایسا جبرو ظلم ہوگیا تو کیا وہ یوگی جی کو یہی کچھ کرنے دیں گے ۔
ہاتھرس میں دلت لڑکی پر ظالمانہ اور شرمناک حرکت کے خلاف آواز مدھم بھی نہیں ہوئی تھی کہ اپرادھ پر دیش میں عصمت دری کے تین واقعات اعظم گڑھ‘بلند شہر اور ہاتھرس میں رونما ہوگئے۔ اعظم گڑھ میں چودہ سالہ لڑکی کی اجتماعی عصمت دری کے بعد اسے ظالموں نے جان سے مار ڈالا۔بلند شہر میں کم سن لڑکی جو اسکول جارہی تھی اسے اغوا کرنے کے بعد منہ کالا کر کے اسے مار مار کر نیم مردہ کردیا گیا ۔لڑکی کو نازک حالت میں اسپتال میں بھرتی کر نا پڑا۔ ہاتھرس ہی کے ایک گاؤں میں ایک چار سالہ لڑکی کے ساتھ اس کی پھوپی کے نابا لغ لڑ کے نے اپنی ہوس کا شکار بنایا بچی کو نازک حالت میں اسپتال میں بھرتی کر دیا گیا ۔اس کی زندگی بھی خطرے میں ہے۔
اپرادھ دیش پورے ملک میں ہرقسم کے اپرادھ میں ایک نمبر پر ہے پھر بھی مودی جی یوگی کی کارکردگی سے بے حد خوش ہیں ۔ یوپی کے پچھلے اسمبلی الیکشن میں مودی جی نے اتر پردیش میں لڑکیاں یا عورتیں محفوظ نہیں ہیں جیسے موضوع پر زبردست بھاشن دیا تھا۔ ’ بیٹی پڑھاؤ اور بیٹی بچاؤ ‘ کا نعرہ بھی لگا یا تھا۔ آج موصوف منہ بند کئے ہیں جیسے یوپی میں سب کچھ ٹھیک ہے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ جب کہ ان کی پارٹی کے ایم ایل اے ‘ ایم پی عصمت دری کے واقعات میں رنگے ہاتھ پکڑے گئے ہیں ایک ایم ایل نے تو لڑکی کو عصمت دری کے بعد زندہ نہیں چھوڑا ۔باپ نے مخالفت کی تواسے بھی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا ۔پارٹی کے کئی بلاتکاری جیلوں میں ہیں ۔بہتو ں کو پولیس نے ہاتھ بھی نہیں لگایا۔مودی کے اپرادھی یوگی راج میں محفوظ ہیں۔ مودی جی کے لیے یہی چیز قابل اطمینان اور قابل تشفی ہے۔ یوگی کواندر باہر سے ہٹا نے کی مانگ شاہ اور شہنشاہ کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی ۔
آج سے سات آٹھ سال پہلے یعنی 16دسمبر2012 میں دہلی کے جنوبی علاقے میں ایک بس میں ایک 23 سالہ میڈیکل اسٹوڈنٹ جیوتی سنگھ (نربھیا) کی اس کے دوست کی موجودگی میں اجتماعی عصمت دری ہوئی تھی اور کچھ دنوں تک اس کا علاج چلا۔ اسے باہر بھی علاج کے لیے بھیجنا پڑا پھر بھی اس کی جان نہیں بچی۔
اس گھناؤنے جرم کے خلاف نہ صرف دہلی میں بلکہ پورے ملک میں احتجاج اور مظاہرے بہت بڑے بڑے پیمانے ہوئے۔ پورے ملک میں خاص طور پر دہلی میں بھونچال سا آگیا مگر نہ مرکزی حکومت نے کہیں روک ٹوک کی اور نہ ہی کسی ریاستی حکومت نے رکا وٹ ڈالی۔ لیکن اب حالت بالکل بدل چکی ہے بالکل اسی سے ملتا جلتا واقعہ اترپردیش میں ایک انیس سالہ دلت لڑکی کے ساتھ ہوا ۔ اترپردیش کی پولیس یوگی حکومت کے اشارے پر نہ تو لڑکی کے ماں باپ کو اس کی لاش دیکھنے دیا اور نہ ورثا کی کو ئی بات سنی۔مظلوم لڑکی کی لاش کورات کے اندھیرے میں انتم سنسکار (آخری رسومات) کرنے کے بجائے جلا دیا۔ گزشتہ روز (یکم اکتوبر) کانگریس کے لیڈروں اور ان کے کارکنوں کو مظلوم ماں باپ سے بھی ملنے نہیں دیا ۔کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کے ساتھ پولیس نہ صرف بد سلوکی سے پیش آئی بلکہ کچھ اس طرح دھکا دیا کہ وہ زمین پر گر گئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اکیلے جانا چاہتے ہیں پھر بھی جانے نہیں دیا۔ پرینکا گاندھی کو مظلوم اور دکھی خاندان سے ملاقات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ کانگریس کے سارے لیڈروں کو گرفتار کر لیا گیا ۔ورکروں کی بھی گرفتاری ہوئی آج(2اکتوبر) ترنمول کانگریس کے پانچ چھہ ممبر آف پارلیمنٹ کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو گزشتہ روز کانگریسی لیڈروں کے ساتھ ہوا تھا۔ڈیرک اوبرین کو پولیس نے دھکا دے کر زمین پر گر ا دیا۔ دوتین خاتون ایم پی کے ساتھ بھی پولیس نے بد سلوکی اور بد سلیقگی کا مظاہرہ کیا جس سے خواتین بیحد ناراض ہوئیں۔ میڈیا پرسن کو بھی مظلوم دلت کے گھر کے قریب جانے نہیں دیا جا رہا ہے پورے علاقے کو ایک دو میٹر پہلے پولیس چھاؤنی میں بدل دیا گیا ہے ۔دلت لڑکی کے ماں باپ اور بھائی بہن کو بھی ڈرایا دھمکا یا جارہا ہے کہ خبر دار پریس والوں سے ملے تو اچھا نہیں ہوگا ڈی ایم اور ایس پی بھی ڈراو دھمکا رہے ہیں کہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتے۔جب ایم پی ایم ایل اے کا برا حال ہو تو عام لوگوں کاکیا حال ہوگا‘ آسانی سے سمجھا جا سکتاہے۔ یوگی حکومت مودی اور شاہ کی ایما پر جمہوریت کشی پر آمادہ ہے۔ کانگریس کا مطالبہ ہے کہ یوگی کے استعفیٰ سے کم کوئی چیز نہیں چاہتی ہے ۔مایا وتی نے مودی جی سے اپیل کی ہے کہ اترپردیش کو یوگی سنبھالنے سے قا صر ہیں۔ انہیں گورکھ پور مٹھ میں بھیج دیا جائے یا رام مندر اجودھیا کا نرمان ہورہاہے وہاں دیکھ بھال کیلئے بھیج دیا جائے ۔یوپی کا نظام ان کی وجہ سے درہم برہم ہو گیا ہے۔ یہاں اپرادھیوں(مجرموں)کا راج ہے ۔مودی کے اشارے پر ہی سب کچھ اترپردیش میں ہورہاہے ۔مودی جی نہ گجرات جائیں گے اور نہ یوگی مہاراج گورکھپور جانا پسند کریں گے
اچھی بات کہ نر بھیا تحریک کی طرح ہاتھرس کے ایک گاؤں بولگڑھی کی دلت لڑکی کے قتل اور اجتماعی عصمت دری کے خلاف ملک بھر میں آواز اٹھائی جارہی ہے اس کے اثرات بھی رونما ہورہے ہیں۔ یوگی اپنے آپ کو بچانے کے لیے پولیس افسران کو معطل کرنے لگے ہیں بی جے پی کی سینئر لیڈر اوما بھارتی نے یوگی کی حکومت کو بی جے پی کی بدنامی کا ذریعہ بتاتے ہوئے کہا کہ مظلوم دلت کو اس کے گھر میں بند نہ کیا جائے سب سے اسے ملنے دیا جائے خواہ میڈیا والے ہوں یا سیاسی لیڈر ہوں لیکن مودی کا منہ بند ہے گاندھی جینتی کے دن گاندھی مورتی کے سامنے جھک رہے ہیں جسے مشہور انگریز روزنامہ یوگی کے سامنے جھکنا یعنی شر اور تشدد کے سامنے جھکنا قرار دیا ہے۔ دوبار مودی نے یوگی کی تشدد آمیز سیاست اور شر پسند انہ کارکردگی کی تعریف بھی کی ہے گاندھی جی عدم تشدد کے حامی اور عامل تھے۔ مظلوم دلت کے گاؤں کسی کو جانے نہیں دیا جا رہا ہے ۔ دوسری طرف بڑی ذاتی کے لوگ چار پانچ سو کی تعداد میں بول گڑھی گائوں کے قریب بیٹھ کر ب پنچایت کر رہے اور معصوم اور بے گناہ درندہ صفت مجرموں کے حق اور حمایت میں آواز بلند کر رہے ہیں۔ وہاں پولیس نے جبر وظلم کی حمایت کے لیے چھوٹ دے رکھی ہے اور جو لوگ ظالمانہ اور سفاکانہ واقعات کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں اس پر ہر طرح کی پابندی لگا رکھی ہے حقیقت ظلم کا دوسرا نام یوگی ہے جسے مودی جی اپنی عادت ثانیہ کی وجہ سے ہمت افزائی فرما رہے ہیں یہ کھلم کھلا حق وانصاف اور انسانیت کے عداوت اور دشمنی جسے ساری دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے اور ملک بدنام ہورہاہے۔
()()()

E-mail:[email protected]
Mob:9831439068

 

Comments are closed.