قاضی حبیب اللہ قاسمی، حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو! اسجد عقابی

مولانا قاضی حبیب اللہ صاحب قاسمی صوبہ بہار میں خصوصاً اور عموماً پورے ملک میں ایک ایسی پاکیزہ اور مقدس شخصیت کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے تھے، جن کے صلاح و تقویٰ کا ہر کوئی گواہ ہے، جن کے عزائم کے سامنے پہاڑ بھی بے حیثیت ثابت ہوتے تھے، جن کے حوصلوں نے دیگر افراد کو عزم و استقامت کا درس دیا، جنہوں نے مسند تدریس پر بیٹھ کر ہزاروں طالبان علوم نبویہ کی سیرابی کی اور مسند قضا کا وقار برقرار رکھتے ہوئے عدل و انصاف کی مثال قائم کی تھی۔ ایک نادر و نایاب شخصیت جس نے شہرت کے بالمقابل گمنامی کو ترجیح دی تھی۔ پاکیزہ اوصاف و کردار کی جیتی جاگتی مثال۔

 

تاریخ پیدائش: 13/8/1957 آپ کی تاریخ پیدائش ہے۔ کسے معلوم تھا کہ ایک گمنام بستی کا یہ بچہ سورج کی شعاعوں کی مانند ایک عالم کو اپنے فیوض و برکات اور علم و فضل سے روشن کرے گا۔

 

آغاز تعلیم: آپ نے ابتدائی تعلیم علاقہ کے مشہور و معروف ادارہ مدرسہ فلاح المسلمین گوا پوکھر بھوارہ سے حاصل کی۔ فارسی کی ابتدائی کتابوں کے بعد عربی درجات کی بعض کتابیں بھی وہیں پڑھیں۔ بعد ازاں، عربی دوم، سوم کی تعلیم کیلئے جامعہ اسلامیہ بنارس تشریف لے گئے۔ آپ فطرتاً ذہین، محنتی اور متواضع تھے۔ وقت کی پابندی، کتابوں کا عمیق مطالعہ، اساتذہ کا احترام ان خوبیوں نے اس جوہر کے نکھرنے میں مزید تعاون کیا۔ دو سال بعد آپ مدرسہ دینیہ غازی پور تشریف لے گئے جہاں آپ تین سالوں تک زیر تعلیم رہے، لیکن علم کی تشنگی اور روح کی بے چینی میں اضافہ اس وقت تک ہوتا رہا، تاآنکہ آپ مادر علمی دارالعلوم دیوبند نہیں پہنچ گئے۔ دارالعلوم دیوبند کی چہار دیواری کے علمی و عملی ماحول نے اس گوہر کو نادر و نایاب بنا دیا۔ عربی ہفتم، دورہ حدیث اور عربی ادب کی تعلیم تک آپ کا دارالعلوم میں قیام رہا۔ 1977 میں دارالعلوم سے فراغت کے بعد آپ نے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے بہار مدرسہ بورڈ سے اردو، فارسی اور عربی ادب میں فضیلت کی سند حاصل کی نیز بہار یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری پائی۔ آپ نے وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان علوم میں دسترس کو ضروری تصور کیا تھا جن سے دینی امور کے علاوہ دیگر امور بھی انجام دیئے جاسکتے ہیں۔

 

عملی زندگی: فراغت کے معا بعد آپ مدرسہ دینیہ غازی پور تشریف بحیثیت استاد تشریف لے گئے۔ آپ کی آمد نے مدرسہ کی شہرت میں چار چاند لگا دیئے۔ آپ ہمہ وقت طلباء کے تئیں متفکر رہا کرتے اور ان کے بہتر مستقبل اور علمی قابلیت کیلئے انہیں ابھارتے، ان کی حوصلہ افزائی کرتے اور ان کے سوالات کا تشفی بخش جواب مرحمت فرماتے۔ تین سال کے قلیل عرصہ میں مدرسہ کا تعلیمی معیار عروج پر پہنچ گیا تھا۔ اطراف و اکناف میں مدرسہ کی شہرت پھیل گئی تھی۔ لیکن خدا کو اور کچھ منظور تھا۔ تین سال بعد آپ کو علاقہ کی خدمت کیلئے مدرسہ فلاح المسلمین گوا پوکھر بھوارہ میں بحیثیت مدرس منتخب کیا گیا۔

مدرسہ فلاح المسلمین ایک باوقار اور عظیم علمی ادارہ ہے، جس کی چھاؤں تلے ہزاروں تشنگان علوم و معارف اپنی پیاس بجھانے کیلئے دور دراز کے علاقوں سے جمع ہوتے ہیں۔ اس ادارہ کا تعلیمی معیار ماضی میں بھی قابلِ رشک تھا اور اب بھی قابلِ قدر ہے۔ اساتذہ کرام کی جفا کشی، طلباء کرام کی لگن اور ذمہ داران ادارہ کی سربراہی نے مٹی کو سونا بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔ اور یہ تمام امور حضرت قاضی صاحب کی ماتحتی میں انجام دیئے جا رہے تھے۔

منصب قضاء: 1996 کے اوائل میں، قاضی مجاہد الاسلام رحمۃ اللہ علیہ نے علاقہ کی ضرورت کو بھانپتے ہوئے اور لوگوں کے شرعی مسائل میں راہنمائی کیلئے دارالقضاء کے قیام کا فیصلہ کیا۔ حضرت قاضی مجاہد الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی رجال سازی و شناسی کے باب میں نمایاں مقام رکھتی تھی۔ آپ کا انتخاب ہمیشہ لاجواب اور مناسب ہوا کرتا تھا۔ آپ علاقہ کی ضرورت اور حساسیت کے اعتبار سے افراد کا تعین فرماتے تھے۔ چنانچہ آپ کی نظر انتخاب مولانا قاضی حبیب اللہ پر جم گئی، حقیقت یہ ہے کہ اس سے بہتر متبادل اور تھا ہی نہیں۔ علاقہ میں آپ کی شخصیت مسلم تھی اور آپ راہنما کی حیثیت رکھتے تھے۔

تصوف و سلوک اور میدان خطابت: زمانہ طالب علمی سے ہی آپ کو مولانا اعجاز علی شیخو پوری رحمۃ اللہ علیہ سے گہرا تعلق تھا، اور آپ نے ان کے دست مبارک پر بیعت بھی کی تھی۔ چنانچہ فراغت کے بعد آپ ان کے ہی حکم کی بجا آوری کیلئے مدرسہ دینیہ غازی پور تشریف لے گئے اور جب تک مولانا اعجاز علی شیخو پوری رحمۃ اللہ علیہ نے مدرسہ فلاح المسلمین سے وابستہ ہونے کا اشارہ نہیں دیا، آپ مدرسہ دینیہ میں قیام پذیر رہے۔ 1981 کے درمیان آپ مدرسہ فلاح المسلمین میں بحیثیت استاد بحال کئے گئے۔

آپ باکمال خطیب تھے۔ نہایت سلیس اور شیریں زبان میں اپنی بات بیان کرتے تھے۔ الفاظ و اصطلاحات کا ایسا انتخاب فرماتے جو گاؤں میں رہنے والے ناخواندہ افراد کی سمجھ کیلئے بھی کافی ہوتا تھا۔ حساس اور پیچیدہ موضوع کو بھی ایسے انداز میں بیان کرتے کہ ادنی طالب علم اور عام آدمی بھی اسے بآسانی سمجھ لیتا۔

امارت شرعیہ پھلواری شریف کیلئے پیشکش: 2019 میں امیر شریعت حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب نے آپ کو مدھوبنی ضلع کا چیف قاضی مقرر کیا۔ علاوہ ازیں، امارت شرعیہ کی دو رکنی جائزہ کمیٹی کے دائرہ کار میں توسیع کرتے ہوئے آپ کو اس فہرست میں شامل فرمایا۔ امارت شرعیہ کے تئیں آپ کا خلوص اور آپ کی جد وجہد کو پیش نظر رکھتے ہوئے، آپ کو مدھوبنی سے امارت شرعیہ پھلواری شریف منتقل ہونے کی پیشکش کی گئی لیکن آپ نے علاقائی ضرورت کے تحت مدرسہ فلاح المسلمین میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔

سفر آخرت: 21 جولائی کو طبیعت خراب ہوئی، جب ابتدائی علاج و معالجہ کے بعد افاقہ نہیں ہوا تو آپ کو مدھوبنی کے کرپس اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ ڈاکٹروں کی لاکھوں تدابیر کے باوجود طبیعت میں افاقہ نہیں ہوسکا اور آپ 30 جولائی کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ مدھوبنی کے افق کا یہ ستارہ ہمیشہ ہمیش کیلئے اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو وداع کہہ گیا۔

Comments are closed.