Baseerat Online News Portal

گریٹراسرائیل کی جانب سفر

سمیع اللہ ملک
یواے ای اوربحرین کااسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعدٹرمپ کی طرف سے جلدہی خطے کے مزید دس ملکوں کااسرائیل کوتسلیم کرلینے کاعندیہ ٹرمپ کاانفرادی فعل نہیں بلکہ امریکاکی پالیسیوں کے تسلسل کاحصہ ہے۔امریکاکے سابق صدورخواہش کے باوجود مصلحتوں کی وجہ سے جس پرعمل نہیں کرسکے۔ ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم میں کم ازکم10 وعدے کیے تھے جن میں اوباماکی غریب نوازصحت پالیسی کے خاتمے سے لیکرمیکسیکواورامریکاکے درمیان دیوارکی تعمیرتک شامل تھی۔ان میں سے مسلمانوں کی بربادی اوراسرائیل کی بہبود کے سوا انہوں نے کسی وعدے کی تکمیل نہیں کی۔امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے منتقل کرنے کاحکم دیتے ہوئے ٹرمپ نے کہاتھا’’میں نے القدس کواسرائیل کادارالحکومت تسلیم کرنے کا اپناوعدہ پوراکردیاہے‘‘گویااسی دن گریٹراسرائیل کی بنیادرکھ دی گئی تھی۔
ہرامریکی حکمران نے یہودیوں کے’’گریٹراسرائیل‘‘کی تائیدمیں ایسے اقدامات کئے جس کابہرحال نقشہ اب سامنے آرہاہے۔عراق پر امریکاکاحملہ بھی دراصل گریٹراسرائیل کی طرف پیش رفت تھی۔امریکا اقوام متحدہ کوہمیشہ یہودی ریاست کی توسیع کیلئے اپنی خواہشات کے مطابق استعمال کرتارہاہے۔امریکانے اقوام متحدہ کی ان قراردادوں پرسختی سے عمل کراتے ہوئے جون1967ء کی جنگ میں غصب کردہ فلسطینی علاقے اورشام کی گولان کی پہاڑیوں پراسرائیل کے قبضے کویقینی بنایاتاکہ نصف کروڑمظلوم فلسطینیوں کوان کے چھنے ہوئے علاقے اورحقوق واپس نہ مل سکیں۔
سابق صدرریگن کے دورمیں ان کے نائب وزیرخارجہ کیسپروائن برگرنے گریٹراسرائیل بنانے کیلئے ایک اچھوتافارمولاپیش کیاکہ مغربی ایشیاکے دواہم ملکوں کوآپس میں لڑادیا جائے جن میں سے ایک عراق ضرورہو۔امریکی یہودی جیمزواربرگ نے17 فروری1950کوامریکی سینیٹ پرواضح کیاتھاآپ پسند کریں یانہ کریں دنیامیں ایک عالمی یہودی طاقت قائم ہوکررہے گی۔سوال صرف یہ رہ گیاہے کہ یہ باہمی رضامندی سے ہوگایاجنگی فتح سے۔17جنوری1962واربرگ نے ’’لائف‘‘ کوانٹرویودیتے ہوئے کہا کہ اگلے25برس یعنی1987تک سردجنگ ختم ہوجائے گی۔کمیونسٹ روس میں جمہوریت رائج ہوگی۔ مشرقی اورمغربی یورپ باہم مل جائیں گے اوربالآخریروشلم،بیت المقدس میں ایک نئی حقیقی اقوام متحدہ قائم ہوگی جوساری دنیاکیلئے سپریم کورٹ کا کام کرے گی اورانسانیت کیلئے آخری عدالت بن جائے گی۔چنانچہ اس عالمی یہودی ریاست کے قیام کیلئے 1980 میں عراق ایران جنگ کروائی گئی جس نے آٹھ سال میں ایران کے ساتھ ساتھ عراق اوراس کے تین بڑے اتحادی سعودی عرب،کویت اوریواے ای کے بیشتر وسائل تباہ کردیئے۔اس کے2سال بعدامریکی سفیرایریل گلاسپی نے صدام سے عشوہ طرازملاقاتیں کرکے اسے کویت پر حملے کیلئیاکسایااورکویت پرعراقی قبضہ کرواکے دوسری خلیجی جنگ میں جہاں عراق کوبربادکرکے رکھ دیاوہاں کویت اور سعودی عرب سے 1500بلین ڈالرجنگی اخراجات وصول کرنے کے علاوہ وہاں مستقل اپنے فوجی اڈے بھی بنالئے۔اس کے بعد عرب بہارکے نتیجے میں مصر،شام،لیبیااورپورے مشرق وسطی کوجہنم کادہانہ بنادیاگیا۔امریکاکے پے درپے اقدامات اوراسرائیل کی مدد کے نتیجہ میں آج فلسطین محض22فی صد حصے تک محدود ہوکررہ گیاہے۔آج مشرق وسطی عرب ایران جنگ کی وجہ سے بدامنی کی آگ میں جل رہاہے اوراسرائیل مشرق وسطی کی واحد طاقت ہے جس کے آگے مشرق وسطی کے تمام اسلامی ممالک ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔
ٹرمپ پہلے امریکی صدرنہیں جواسرائیل کی خوشنودی اورحمایت حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔سابق صدرجمی کارٹرنے یہود نوازی کامظاہرہ کرتے ہوئے کہاتھامیں بائبل کے دینی علوم کاماہرہوں اوراپنی بصیرت کی بناپرکہتاہوں کہ اسرائیل کاقیام بائبل کی پیشگوئی کی تکمیل ہے۔اس طرح رونالڈریگن نے ایک چرچ میں تقریرکرتے ہوئے کہاتھامیراعقیدہ ہے کہ آخری بڑی جنگ،آرما گیڈن،یروشلم میں لڑی جائے گی جس میں کم ازکم 24کروڑفوج مشرق سے مسلمانوں کی آئے گی اور کروڑوں فوج مغرب سے عیسائیوں کی آئے گی اوربالآخریسوع مسیح آکرفتح حاصل کریں گے اوردنیامیں ایک خدائی حکومت قائم کریں گے۔ ریگن ہرہفتے ایک یہودی صومعہ میں عبادت کیلئے حاضری دیاکرتاتھاجہاں اسرائیل کیلئے مزیدزمین کے حصول کیلئے دعا کی جاتی تھی۔بل کلنٹن نے بھی خواہش ظاہرکی تھی کہ وہ اسرائیل کے دفاع کیلئے مورچہ لگاکرلڑنے کی سعادت حاصل کرناچاہتاہے ۔ بش نے عراق پرحملے کے وقت اسے ایک مذہبی جنگ قراردیتے ہوئے ’’کروسیڈ‘‘کالفظ استعمال کیاتھا۔
مقبوضہ بیت المقدس ڈیڈ سی کے مغربی کنارے پرآبادشہرہے جومسلمانوں،مسیحیوں اوریہودیوں کیلئے قابل احترام اورمقدس ہے، جہاں ان تینوں مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ زیارت کیلئے جاتے ہیں۔یہیں پریہودیوں کی مقدس دیوارگریہ بھی ہے اور مسلمانوں کاقبلہ اول بھی ہے۔فلسطینی اوراسرائیلی،دونوں دعوی کرتے ہیں کہ مقبوضہ بیت المقدس ان کا حقیقی اورقانونی دارالحکومت ہے مگراسرائیل کااس پرمکمل قبضہ ہے اوروہاں اس نے اپنی حکومت کے قریباًتمام اداروں کے مراکز بنالیے ہیں۔ برطانیہ کے وزیرخارجہ آرتھربیلفورنے 1917 میں مشرقی وسطی کاجغرافیہ بدلنے کی بات کی تھی اورایک ایسا تنازع کھڑاکیا جوسوسال سے مشرق وسطیٰ کواپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔
گریٹراسرائیل کاشیطانی منصوبہ چارنکاتی ایجنڈے پراستوارہے جس پریہودیوں اورقدامت پسندمسیحیوں نیوکانزکاکامل اتفاق ہے جس کی تکمیل کیلئے وہ سردھڑکی بازی لگانے پر تلے ہیں۔اوّل سب سے خوفناک اوربڑی جنگ،دوسرے نمبرپرمسلمانوں کے دو اہم ترین مقدس مقامات کاانہدام،تیسرے نمبرپرمعبدکی تعمیراورچوتھے نمبرپرحضرت داؤدکی تاج پوشی کیلئے استعمال ہونے والے پتھر(تھرون آف ڈیوڈ)کونوتعمیرشدہ معبدمیں رکھاجاناہے۔
پروٹوکولزآف زائیان1897میں بنے تھے اورگریٹراسرائیل کانقشہ تیارہواتھا۔اس نقشہ میں ایک سانپ ان تمام علاقوں کواپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے۔دنیابھرمیں کل ڈیڑھ کروڑیہودی ہیں جس میں سے صرف35لاکھ وہاں آئے ہیں۔انہوں نے تمام یہودیوں کو اسرائیل لاکرآبادکرناہے۔اس کیلئے انہیں جگہ چاہئے۔واقعات کی ترتیب کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہ سب سے پہلے قیامتِ صغری یابہت بڑی اورخوفناک جنگ کہاجاتاہے۔عام فہم الفاظ میں شایداسے تیسری عالمی جنگ کہاجاسکتاہے جس کامیدان جنگ اسرائیل میں مجیدونام کی ایک پہاڑی اوراس کے اردگردکے علاقہ کوبتایاجاتاہے۔مسیحی اوریہودی بائبل کی کتابمکاشفاتسے اس قیامت صغری کہلانے والی جنگ کی سندلاتے ہیں جس کے بعدگریٹراسرائیل یاوسیع تراسرائیل کامرحلہ آئے گا۔مسجداقصی اور قب الصخرہ کاانہدام کرنے کاملعون منصوبہ زیرغورہے۔صخرہ چٹان کوکہتے ہیں۔قب الصخرہ وہ سنہری گنبد والی عمارت ہے جو اکثرتصاویرمیں دیکھی جاسکتی ہے۔مسلمانوں کیلئے یہ دونوں مقدس مقامات یروشلم میں ایک پہاڑی پرواقع ہیں۔اس پہاڑی کو یہودی’’ٹیمپل مائونٹ‘‘ یامعبدکی پہاڑی کے نام سے پہچانتے تھے۔
جناب حضرت سلیمان علیہ اسلام نے اللہ کاگھریامسجدجسے یہودی معبدکہتے ہیں،اس پہاڑی پرتعمیرفرمایاتھا۔نبی آخرالزماں ﷺ جب بیت المقدس سے صدر المنتہی کیلئے تشریف لے گئے،آپ کابراق اسی چٹان سے آسمانوں کی جانب روانہ ہواتھا،عبدالملک بن مروان نے اس چٹان پرایک گنبدبنوایاجسے قب الصخرہ کہتے ہیں۔اردن کے شاہ حسین مرحوم نے اس گنبد پرسونے کی چادر چڑھائی تھی جس کا وزن لگ بھگ 35 ٹن بتایاجاتاہے اوریہودیوں نے یہ ہرزہ سرائی کی تھی کہ یہ سونا ایک دن ہمیں نئے معبد کیلئے کام آئے گا۔یہ و ہی ٹیمپل مائونٹ ہے جس کے نام پرصلیبی جنگجو’’ٹیمپل نائٹ‘‘کے نام سے مشہور ہوئے یعنی حضرت سلیمان کی پہاڑی کی حفاظت کیلئے لڑنے والاسالار1099میں صلیبیوں کایہ مقدس جنگوں کا سلسلہ شروع ہواتھا۔ قبہ الصخرہ کے ساتھ مسجدعمرتھی،وہاں مسجداقصیٰ ہے۔مسلمانوں کی لاعلمی کاعالم تویہ ہوچکاہے کہ انہیں قب الصخرہ اور مسجد اقصی میں فرق کابھی علم نہیں۔عمومی طورپرسنہری گنبد والی عمارت کوہی مسجد اقصی تصورکرلیاجاتاہے حالانکہ حقیقت یہ نہیں۔ یہ بھی ایک گہرادکھ ہے کہ جن وارثوں کواپنے اثاثوں کا ہی علم نہ ہو،وہ ان کے تحفظ اوردفاع کیلئے کیا کرسکیں گے۔
مصراورترکی پہلے ہی اسرائیل کوتسلیم کرچکے ہیں۔پاکستان،سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اور دیگرخلیجی ممالک جواسرائیل کے بارے میں سخت مؤقف رکھتے ہیں ان میں سے یو اے ای اوربحرین بھی ٹرمپ کے ہاتھ پربیعت کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرچکے ہیں اوردیگردس قطارمیں باری کاانتظارکررہے ہیں۔ان ممالک کے بارے میں بھی کسی نہ کسی حوالے سے اسرائیل سے تعلقات کی خبریں آتی ہی رہتی ہیں۔ٹرمپ نے امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے سے پہلے ان حکمرانوں سے رابطہ قائم کیاتھا۔عالم اسلام کے ان حکمرانوں کوفون کیے تھے جوالقدس کے بارے میں بلند بانگ دعوے کرتے رہتے ہیں۔سعودی عرب کے شاہ سلمان،مصرکافرعون السیسی،فلسطین کا صدرمحمودعباس کوبتایاگیاکہ وہ چند گھنٹے بعدکیااعلان کرنے والاہے۔اس کے باوجودان حکمرانوں نے مردوں جیسی خاموشی اختیارکیے رکھی۔ٹرمپ کے اعلان کے بعد ان کے بیانات بعدازمرگ واویلے سے زیادہ کچھ نہیں۔امریکا اور اس کی پیروی میں عالم اسلام کے حکمرانوں نے بیت المقدس کو صرف فلسطینیوں کا مسئلہ بنادیا ہے۔ آج وہ تنہااس کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ ان کی کامیابی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پورا عالم اسلام اور ان کی افواج بیت المقدس کی آزادی کیلئے متحرک نہ ہوں۔مسلم افواج کبھی حرکت میں نہیں آئیں گی جب تک یہ حکمران ان پرمسلط ہیں۔کفرملت واحدہ ہے اس میں کوئی شک نہیں اوراس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عالم اسلام کے حکمران کفرکی اس ملت واحدہ کے ساتھ ہیں ۔بیت المقدس کی آزادی تب تک ممکن نہیں جب تک مسلم ممالک کے عوام ان حکمرانوں سے آزادی حاصل کریں اور جذبہ جہاد سے سرشار ہوکر اپنی افواج کے ساتھ حرکت میں آئیں۔
ان تمام تفصیلات سے یہ بتانامقصودہے کہ1948سے لیکرتاحال امریکااسرائیل کامعاون ومددگاراورمسلمانوں کااولین دشمن رہا ہے لیکن اس کے باوجودعالم اسلام کے حکمران پالتو کتوں سے بدترامریکاکے وفا داررہے ہیں۔1967میں اسرائیل نے فلسطین کے بقیہ حصے پرقبضہ کرلیااوراس کے ساتھ ہی بیت المقدس بھی اسرائیل کے قبضے میں چلاگیا۔ اس جنگ اورفلسطین پرقبضے میں امریکا نے اسرائیل کی ہرممکن مددکی لیکن ہمارے حکمران اس وقت بھی امریکاکے وفاشعاردوست تھے اورآج بھی ہیں۔اسرائیل کے ساتھ سمجھوتے میں بھی انہوں نے امریکاہی کوثالث تسلیم کیا۔پاکستان بھی کشمیرکے معاملے میں امریکاکوثالث تسلیم کرنے پرہمہ وقت آمادہ رہتاہے۔اس حقیقت کے باوجودکہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت سے امریکاکاپہلا انتخاب ہندوستان تھا اور افغان جنگ میں افغان اورپاکستانیوں کی بے تحاشہ قربانیوں کے بعدجب امریکاواحدسپرپوربن گیاتواس نے فوری طورپر بھارت کو گودمیں لیکراسے نوازناشروع کردیا۔پاکستان کوامریکابطورلیوربھارت کواپنی طرف راغب کرنے کیلئے استعمال کرتارہااوراسی بھارت کوافغانستان میں پاکستان کے خلاف کھلی دہشتگردی کیلئے استعمال بھی کرتارہالیکن بالآخرافغانستان سے نکلنے کیلئے بھی پاکستانی کندھااستعمال کرنے سے گریزنہیں کیا۔عرب ممالک کے حکمران اپنے عوام کویہ تاثر دیتے ہیں کہ امریکااسرائیل پردباؤ ڈال کراسے مقبوضہ علاقوں میں سے کچھ سے دستبردارہونے پرآمادہ کرلے گاجس پروہ ایک آزادریاست کے قیام میں کامیاب ہو جائیں گے، مشرقی القدس جس کادارالحکومت ہوگا اورایساہی خواب ٹرمپ نے کشمیرکے بارے میں ثالثی کرنے کاہمیں دکھایااور اسی آڑمیں مودی کوکشمیرمیں5/اگست2019 کوراست اقدام کااشارہ کردیا۔اب صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل کے اردگردکمزور اسلامی ممالک اسرائیل کوتسلیم کرنے کیلئے بے چین ہیں اورہم اپنے بیانات میں مودی کے مظالم کاتذکرہ کرکے ہی کشمیرکاسفیر بننے کادعویٰ کررہے ہیں۔ آخرمیں فلسطین اورموصل کی ماں کاایک گیت:
ٹھہروٹھہرو۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی ہم ہارے نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی ہمارے گھوڑوں کی ٹاپوں میں بڑادم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھ لینا۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھ لینا۔۔۔۔۔۔۔۔ہم تمہیں اڑادیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔ریت کے بگولوں کی طرح۔۔۔۔۔۔۔۔ان شاء اللہ

Comments are closed.