کیا چراغ کی لونتیش کے آشیانہ کو خاکستر کرے گی؟

محمد نافع عارفی
جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہار
کورونا کے قہر نے ساٹھ سے زائد ممالک کو اپنے اپنے یہاں کے انتخابات ملتوی کرنے پر مجبور کردیا،لیکن عوامی جذبات و خیالات اوراس کے مستقبل سے بے فکر ہماری مرکزی حکومت اورہندوستانی الیکشن کمیشن نے بہار کے ریاستی انتخابات اور پورے ملک میں ضمنی انتخابات کی آگ میں عوام کو جھونکنے کا فیصلہ کیا،کورونا وبا کی وجہ سے تعلیمی ادارے ہنوز بند پڑے ہیں،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کورونا وبا اپنے تمام تر مہلک ہتھیاروں سے لیس ہو کر تعلیمی اداروں کے دروازوں پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہے،جونہی یہ اسکول،کالج،مدارس،یونیورسیٹیاں کھلیں گی،وائرس حملہ آور ہوگا اورچشم زدن میں طلبالقمہ اجل بن جائیں گے،اورہماری مرکزی اورصوبائی حکومتوں کو ان نونہالوں کی اس قدر فکر ہے کہ ان کی ایک آہ پرہی تڑپ اٹھتی ہے،حالاں کہ دیکھنے والوں نے کھلی آکھوں سے دیکھا کہ دلی،علی گڑھ کی سڑکوں پر انہی مظلوم طلبا کو ہماری پولیس نے کس طرح تشدد کا نشانہ بنایا تھا،جے این یو،جامعہ،علی گڑھ کے حادثات ابھی پرانے نہیں ہو ئے ہیں،یہ حادثات تعلیم اورطلبا سے ہمارے سیاسی آقاؤں کی محبت کو اجاگر کرتے ہیں،لیکن کہتے ہیں مرتاکیا نہ کرتا،تو اسی کے مصداق ہماری ریاست بہار کے عوام انتخابات میں شرکت پر مجبورہیں،انتخابات ہوں گے تو ووٹ تو دینا ہی ہوگا،عوام الجھن کی شکار ہے کہ ووٹ دیں توکس کو دیں،کس پارٹی اورکس نیتا کو دیں،اورکیوں دیں؟پارٹیاں اورلیڈران پریشان ہیں کہ کس طبقہ کا ووٹ کس حیلے اورکس بہانے سے حاصل کیا جائے،کس علاقے میں کون سے بہروپ پر لوگ ووٹوں کی برسات کریں گے؟
بہارمیں بنیادی طورپر دومضبوط اتحاد ہے،ایک عظیم اتحا د یا مہاگٹھ بندھن،دوسرا این ڈی اے؛لیکن اپنی اپنی مضبوطی اورقوت کا دعوی کرنے والے یہ دونوں اتحاد خانہ جنگی کے شکار ہیں۔عظیم اتحاد سے کشواہاکی آرایل ایس پی اورموکیش سہنی کی وی آئی پی نے اپنا راستہ الگ چن لیا ہے،جب کہ مانجھی نے این ڈی اے کا دامن تھاما،تو این ڈی اے سے چراغ نے کنارہ کشی اختیارکرلی ہے یا انہیں منصوبہ بند طریقے سے الگ کردیا گیا ہے،یہ ایک اہم سوال ہے کیا چراغ پاسوان اپنی سیاسی بساط خود بچھا رہے ہیں یا سیاست کی بساط پر کسی مہرے کے طورپر چال چلائے جارہے ہیں،ایل جی پی کے قومی صدر چراغ پاسوان نے اعلان کیا ہے کہ وہ بی جے پی کے ساتھ نتیش کے خلاف انتخاب لڑیں گے،یعنی وہ ان 122سے 125سیٹوں پر اپنے امیدوارکھڑا کریں گے جو جے ڈی یو کے حصے میں آئی ہے، اس طرح وہ نتیش کمارکاکام بگاڑیں گے اورمودی کے نام پر ووٹ مانگیں گے،اگر انہوں نے دس بیس سیٹیں بھی حاصل کرلی،تو لازمی طورپر نتیش کمار کی طاقت اسمبلی میں کم ہوگی،ادھر بی جے پی نے اگر 80سے 90سیٹیں حاصل کرلی،تو پھر حکومت سازی کے وقت نتیش کے لئے مشکلات کھڑی ہوں گی،چراغ کہیں گے کہ ہم نتیش کو سپورٹ نہیں کریں گے؛لیکن اگر بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے حکومت بناتی ہے؛تو ہم اپنی حمایت دے سکتے ہیں،اس طرح بی جے پی حکومت سازی کی پوزیشن میں ہوگی اوردوچارسیٹوں کی کمی پوری کرنا خریدوفروخت کی ماہر بی جے پی کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے،غرض چراغ اپنی لو سے نتیش کے آشیانے کو خاکستر کرنے پر تیار ہیں،اوریہ کھلی ہوئی بات ہے کہ اس چراغ میں تیل بی جے پی کے گھر سے ڈالا جارہا ہے، ورنہ تو معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ بی جے پی کے قومی صدرجے پی نڈا سے چھ ملاقات اور وزیر داخلہ امت شاہ سے کئی دور کی گفتگوکے بعد بھی چراغ پاسوان اپنی ڈفلی کیوں بجارہے ہیں۔
دوسری طرف متعدد اتحاد ہے، جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے،ہر ایک کے اپنے اپنے دعوے اوروعدے ہیں،وعدوں کے وفاکی امید ہی فضول ہے؛کیوں کہ ہندوستانی سیاست میں وعدوں کو نہ نبھانے کی ایک پوری تاریخ ہے،رہ گئی آر جے ڈی کے زیر قیادت عظیم اتحاد کی؛ تو شاید یہ اتحاد صرف نام ہی کا عظیم رہ گیا ہے،ورنہ حقیقت صورت حال تو یہی ہے کہ وہ سمٹ کر چھوٹا سا ہوچکا ہے،اس اتحاد کی نظر مسلم اوریادوووٹ بینک پر ہے؛ لیکن کیا زمینی حقیقت بھی یہی ہے،شاید اب نہیں؛ کیوں کہ خود بی جے پی اور جنتا دل یونائیٹیڈکے متعدد امیدوار یادو برادری ہوں گے؛ تو کیا یادو برادی تیجسوی کے ساتھ آئے گی؟یہ زمینی حقیقت ہے کہ مسلمان تقریباً متحد ہو کر ووٹ کرتے ہیں،اسی لیے تمام پارٹیوں اوربطورخاص عظیم اتحا د کی نگاہ اسی پر مرکوزہے؛لیکن کیا یہ اتحاد آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کو ٹکٹ دے رہا ہے،یہ قابل غور سوال ہے،پھر اویسی بھی اپنے اتحاد کے ساتھ میدان میں ہیں، اب فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ قول وفعل کے پکے اوروعدے کے سچے سیکولرمزاج لوگوں کے ہاتھ میں اپنی ریاست کی باگ ڈورسونپنی ہے یا ووٹوں کا بندربانٹ کرکے اقتدارکی کرسی ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرنے والی بی جے پی کو سونپنی ہے،ووٹ امانت بھی ہے اورگواہی بھی اوراللہ تعالیٰ کاحکم ہے کہ امانت اہل کو سپرد کی جائے،إن اللہ یأمرکم أن تؤدوا الأمانات إلٰی أہلہا وإذا حکتم بین الناس أن تحکموا بالعدل۔(نساء:58)(کہ اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ تم امانت کو اس کے اہل لوگوں کے سپرد کرواورجب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کروتوعدل کے ساتھ کرو)اسی طرح ووٹ اس بات کی گواہی ہے کہ یہ شخص ملک وقوم کی رہنمائی کے لیے سب سے بہتر ہے،اس کے ہاتھوں میں ہمارے ملک کا مستقبل محفوظ ہے،یہ شخص یا یہ پارٹی ہمارے ملک کو عدل و انصاف اورترقی کی راہ پر گامزن کرے گا،اس لئے سوچ سمجھ کر اوردیانت داری سے ووٹ دینا ایک عام ہندوستانی کی وطنی ذمہ داری ہے، تو ایک مسلمان کے لیے یہ ایک وطنی اوردینی فریضہ بھی ہے اوراسے اللہ کے یہاں جواب دہ ہونا پڑے گا،اگر کسی نے اپنی معمولی سیاسی مفاد یا چند ہزارروپے کے لئے ووٹ نا اہل امیدوارکو دیتاہے تو گویاوہ جھوٹی گواہی دے رہا ہے اوراسے اللہ کے یہاں اس کا حساب دینا پڑے گا،چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے کہ ”جھوٹی گواہی سے بچو“(الحج:30)اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:کہ کیا میں تمہیں سب سے بد ترین گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں،تو صحابہؓ نے کہا کہ ضرور بتائے،آپنے ارشادفرمایا کہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا،والدین کی نافرمانی کرنا اورجھوٹی گواہی دینا۔(صحیح بخاری)
Comments are closed.