تحریک خلافت اور موہن داس کرم چند گاندھی

شہاب مرزا، 9595024421
کہا جاتا ہے کہ مرنے والے کے تعلق سے برا نہیں کہتے لیکن یہ تمام تر اخلاقی پابندیاں مسلمان ہی پر عائد کی جاتی موہن داس کرم چند گاندھی جنہیں بابائے قوم، مہاتما، پسماندؤ ں کے مسیحا ، امن اور عدم تشدد کے پرستار اور کیا کیا نہیں کہا جاتا ساری دنیا ان کے خیالات سے متاثر ہے کچھ کانگریسی مسلمان انہیں مسلمانوں کے لیے بھی مسیحا سمجھتے ہیں ملک عزیز بھارت کی تمام سیاسی جماعتیں انہی کو آئیڈیل اور معیار دکھاتے ہوئے اپنی سیاسی دکان بڑی دھوم دھام سے چلاتی ہے لیکن مسلمانوں کو تلخ اور کڑوی سچائی سے دوچار ہونا چاہیے ہر بار کی طرح اس بار بھی یہ سچائی کا زہر کا پیالہ ضرور پینا چاہئے کہ موہن داس کرم چند گاندھی اس ملک میں مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن تھے اور مسلم دشمن قوتوں کے سب سے بڑے سرپرست تھے ان کے نظریات نے گرگٹ کی طرح کئی رنگ دکھائے ہیں ان کے کئی رنگوں میں ایک رنگ سماجیاتی نظریے کا ہے ایک رنگ نرم ہندوازم کا ہے ایک رنگت سخت ہندوازم کا ہے اور یہ تمام ہی رنگ مسلم دشمنی کے زہر سے بھرے ہوئے ہیں تحریک خلافت میں پنڈت نہرو کے باپ موتی لال نہرو، لوکمانیہ تلک جیسو کی صحبت میں آکر لیڈر شپ کے اسباق سیکھنے کے بعد مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر جیسے اسلامی اقدار کے ناقدین سے حق کو غالب ہونا ہی ہے کا سنسکرت ترجمہ "ستیہ میو جیتے "کیا امر بالمعروف کا ترجمہ "ستیہ گرہ ” کیا اسلامی اقدار سے ناواقف ملک کے عوام کے سامنے نعروں کو اپنے نعرے بتاتے ہوئے خوب چیخ پکار کی اور مسلمانوں سے نفرت کو دلوں میں رکھتے ہوئے ملک کے عوام نے گاندھی جی کے ان نعروں کو سروں پر اٹھا لیا ان نعروں کی بنیاد پر گاندھی جی نے انگریز مخالف "خلافت موومنٹ تحریک” کو ہائی جیک کیا اور پوشیدہ مسلم دشمنی کا نظریہ سینے میں رکھ کر بھارت چھوڑو تحریک سے لے کر 1942 کی جنگ آزادی تک کانگریس کو مسلمان کی غارت گری کے لیے خوب پالا پوسہ انہی کی مرعون منت آر ایس ایس کے فکری بابا سردار ولبھ بھائی پٹیل، پنڈت دین دیال اپادھیائے، شاما پرساد مکھرجی جیسے مسلم دشمنوں کو کانگریس میں داخل کیا اور یہاں سے گاندھی کی کانگریس اپنا اصلی رنگ دکھانے لگی۔
گاندھی جی نے 24 جولائی 1947 کے روز پنڈت نہرو کو بذریعہ خط حکم صادر کیا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کو کیبنٹ منسٹری میں ہرگز شامل نہ کیا جائے کیونکہ یہ وہی دور تھا جب امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے جیل کی صعوبتیں جھیل کر ملک کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلائی تھی اور خاص طور پر معافی ویر گاندھی جی کے فکری شاگرد ونایئک ساورکر نے 1942 کی جنگ آزادی میں انگریزوں کو باقاعدہ ایک خط لکھا جس میں کہا گیا کہ ہمیں ہتھیار دیے جائے تاکہ ہم مسلم مجاہدین آزادی کی تحریکوں کو روند کر رکھ دے کہا مسلم مجاہد آزادی اور کہا انگریزوں کے جوتے چاٹ کر ان کے ٹکڑوں پر پلنے والے گاندھی کے شاگرد! مسلمانوں کو ملک کی آزادی کے لئے قربانیوں کا نتیجہ یہ ملا کہ صاحب نگارش آزاد اور حقیقی مجاہد آزادی مولانا ابوالکلام آزاد جیسوں کو وزارت سے محروم کیے جانے کی تمنا لیے گاندھی مسلم دشمنی نبھارہے تھے۔
موبلا قتل عام کے بعد جب کمیونسٹ پارٹی کے قومی صدر مولانا حسرت موہانی متاثرین سے ملنے گئے تو گاندھی جی بھی وہاں پہنچے اس دوران مولانا حسرت موہانی بلا تفریق مذہب و ملت متاثرین سے مل کر دلجوئی کر رہے تھے اور ان کے ہر قسم کی عیانت کر رہے تھے لیکن گاندھی جی وہاں پر ہندوتوادی بن کر پہنچے اور ہندو متاثرین کے گھروں پر پہنچ کر کہنے لگے کیا تم نے ہاتھوں میں چوڑیاں پہن رکھی تھی گاندھی جی منوازم کے سخت حمایتی تھے منوازم میں موجود چہار طبقاتی نظام جیسے برہمن، شترئے، ویش اور شودر ذاتوں پرمبنی چار طبقاتی نظام کے سخت پرستار تھے یہ بھی انکی مسلم دشمنی کا بہت بڑا سبب تھا ایک جانب امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد اس ملک سے چہار طبقاتی نظام کو ختم کر کے انسانی مساوات پر مبنی قوانین کے تحت کانگریس پارٹی کا ڈھانچہ تیار کرنا چاہتے تھے تو دوسری جانب سیکولرازم کے لیبل کے نیچے گاندھی جی مسلم اور دلت دشمنی پر مبنی نظریات کے علمبردار لیڈروں کو کانگریس داخل کر کانگریس کو مسلمانوں سے انتقام لینے پر آمادہ کرنے کے لیے کوشاں تھے۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے گاندھی جی کے تعلق سے لکھا تھا ایک مرتبہ اسلام پر تنقید کرتے ہوئے گاندھی جی نے یہ بھی کہا تھا کہ اسلام ایسے ماحول میں پیدا ہوا ہے جس کی فیصلہ کن طاقت پہلے بھی تلوار کے آج بھی تلوار ہے۔
یہی سبب ہے کہ مرکزی وزارت میں گاندھی جی ابوالکلام آزاد کو برداشت نہ کرسکے اور پونا پیکٹ کے ذریعے دستور ساز ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کو پارلیمنٹ میں داخل ہونے میں رخنہ انداز ہورہے تھے یونہی آر ایس ایس کو گاندھی جی عزیز نہیں تھے کچھ تو بات ہے کہ دستور کے دشمن، مسلم دشمن، مساوات کے دشمن، اور امبیڈکر صاحب کے دشمن، بی جے پی، سنگھ پریوار اپنی صبح کی پراتھنا میں گاندھی جی کا نام بڑی عزت کے ساتھ لیتی ہے ۔
اس واقعہ کو دیکھ کر کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ پرینکا اور راہل گاندھی ہاتھرس کے مقام پر گئے اور پولیس کے ساتھ خوب مزاحمت کی متاثرہ لڑکی والمکی سماج کی تھی والمکی سماج ہمیشہ نچلا طبقہ سمجھا جاتا ہے پر وہ اپنے ہندو ہونے پر بڑا فخر محسوس کرتا ہے کیونکہ یہ وہی والمیکی رشی سے وابستہ طبقہ ہے جس نے رامائن لکھی تھی اس لیے نرم ہندوتوادی راہل، پرینکا کو متاثرہ لڑکی کے خاندان سے شدید ہمدردی ہوئی. ایسا واقعہ کٹھوا میں بھی پیش آیا تھا وہاں پر بھی ایک چار سالہ معصوم کا ریپ کر بہیمانہ قتل کیا گیا تھا لیکن ملک و ملت کی اس بیٹی کی آہوں اور اس کے والدین کی کرب ناک چیخیں راہل گاندھی کے کانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گی اس کی ہمدردی میں ایک لفظ بھی زبان پر لانا گوارا نہ ہوا، دہلی فساد متاثرین سے ملاقات کی زحمت بھی راہل کو گوارا نہیں ہوئی پورے اٹھارہ سال کے دوران بلقیس بانو کی چیخیں سننے کے لیے راہل، پرینکا کے کان مفلوج ہوئے کیونکہ یہی وہ راہل پرینکا ہے جو پوشیدہ ہندوتواد کے پرستار موہن داس کرم چند گاندھی کے قائم کردہ کانگریس کے لیڈر ہے۔

Comments are closed.