ووٹ کی اہمیت و شرعی حیثیت

محمد موسیٰ رحمانی ومظاہری

اسلام ایک کامل ومکمل نظام حیات کی رہنمائی کرتا ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ، مرحلہ، موڑ ، گوشہ ایسا نہیں جہاں اسلام نے رہبری نہ کی ہو۔ آج کل ایک بات جو عام لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہورہی ہے وہ یہ کہ کیا اسلام میں سیاست وحکومت کی تعلیمات وہدایات نہیں ہیں؟ حالانکہ حکومت وسیاست سے انسانی زندگی کا بڑا حصہ وابستہ ہے تو اس اہم ترین شعبۂ زندگی میں اسلامی تعلیمات ورہنمائی کیسے نہیں ہوسکتی، بلکہ اسلام نے بہترین نظام حکومت اور خوشگوار سیاست کے اصول وضوابط بتلائے ہیں۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم مسلمان اللہ پر اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے، دنیا کی مختلف قوموں اور جماعتوں کو صحیح نظام زندگی بتانے اور سکھلانے کی ذمہ داری نہ نبھاکر گویا کہ اللہ کے دربار میں خود کو قابل گرفت بنارہے ہیں،کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے "إني جاعل فى الأرض خليفة” حدیث شریف میں ہے۔’’الاکلکم راع وکلکم مسؤل عن رعيته ” ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اپنی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہوگا۔
تاریخ اسلام کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے، جہاں ایک طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور حضرات صحابہؓ کو مکی زندگی کے مقابلے میں کچھ آرام سا نظرآیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ایک اسلامی حکومت کی بنیاد ڈالی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بین المذاہب اور باہمی زندگی گزارنے کے اصول وآداب ، قوانین وضوابط مرتب فرمائے۔ گویا آپ ؐ نے اسلامی حکومت کا آئین (Constitution) مرتب فرمایا جو دنیا کا پہلا تحریری و مرتب حکومتی نظام مانا جاتا ہے۔ جس کی بنیاد پر ہی آج کے بڑے بڑے ممالک کے آئین مرتب کئے گئے ہیں۔ جس کا اعتراف اپنوں سے زیادہ غیروں کو ہے۔
مذکورہ تمہید سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت و سیاست دین کا ایک حصہ ہے اور اس کو حدود شرعی میں رکھ کر ہمیں اپنانا اور پھیلانا چاہئے تاکہ انسانوں کے حقوق پامال نہ ہو سکیں۔
ووٹ کی شرعی حیثیت:
ہمارے زمانے میں انتخابات بڑے زور و شور سے ہوتے ہیں، لیکن عموماً دیکھا گیا کہ مسلمان اس میدان میں اپنے کو علاحدہ اور الگ تھلگ رہنےکو پسند کرتےہیں یا اس کی ضرورت و ا ہمیت سے بے خبر ہیں، حالانکہ اس میدان میں مسلمانوں کو دینی و شرعی حیثیت سے بڑی ذمہ داری ادا کرنی چاہئے۔ غیر اسلامی سیاست کو اسلامی سیاست میں بدلنا ہوگا بلکہ نظام سیاست کو بھی مسلمان بنانا ہوگا ۔ اس کے لئے آئیے ہم ووٹ و انتخابات کو قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھیں جس کو اکابر امت نے بہت پہلے مرتب فرمایا ہے۔
شرعی نقطۂ نظر سے ووٹ کی چار حیثیتیں ہیں:
ووٹ کی پہلی حیثیت : شہادت (گواہی) کہ ووٹ دینے والا ووٹراس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جس کے حق میں میں نے گواہی دی ہے یعنی جس کو ووٹ دیا ہے وہ اس کی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو اچھی طرح سے انجام دے گا۔ اگر گواہی جس کے حق میں دی جاری ہے وہ اس کی صلاحیت نہیں رکھتا اور پھر بھی اس نے اس کے حق میں گواہی دی تو یہ گواہی جھوٹی ہوگی۔ اس کی سخت و عید حدیثوں میں آئی ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کبیرہ گناہ ، اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، والدین کی نافرمانی کرنا ، قتل کرنا اورجھوٹی گواہی دینا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا جھوٹی گواہی شرک ہے۔ لہٰذا ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم غلط اور نااہل آدمی کے حق میں ووٹ دے کر غلط گواہی نہ دیں بلکہ صحیح اور دیانتدار آدمی تلاش کر کے اس کے حق میں ووٹ دیں یعنی گواہی دیں۔
ووٹ کی دوسری حیثیت سفارش ہے:ووٹ کی دوسری حیثیت ایک سفارش کی ہے۔ یعنی ووٹ دینے والا اپنے امیدوار کی سفارش کرتا ہے کہ میں اس کی سفارش کرتا ہوں کہ یہ امیدوار قابل ہے اور اس کو کامیاب بنایا جائے۔ قرآن مجید نے سفارش کے اصول بیان کئے ہیں۔
من يشفع شفاعة حسنة يكن له نصيب منها،ومن يشفع شفاعة سيئة يكن له كفل منها،وكان الله على كل شيء مقيتا( سورۃ النساء ) جو شخص سفارش کرے اچھی بات میں ، اس میں اس کو بھی حصہ ملے گا اور جو بری بات میں سفارش کرتا ہے اس پر اس میں سے بارو بوجھ ہوگا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
گویاکہ سفارش کی دو قسمیں ہیں:اول: درست سفارش_
دوم: ناحق و ناجائز سفارش_پہلی قسم کو قرآن کی زبان میں شفاعت حسنہ اور دوسری قسم کو شفاعت سئيه کہتے ہیں۔پہلی قسم جایز ہے دوسری قسم ناجائز وحرام ہے۔
ووٹ کی تیسری حیثیت مشورہ کی ہے۔مشورہ سے حکومت کا قیام اور امور مملکت کو انجام دینا اسلام کا طرۂ امتیاز ہے، اس سلسلے میں اسلام کا نقطۂ نظر یہ کہ ارباب حل و عقد اپنا نمائندہ و نائب منتخب کریں اور عوام انکے تابع ہوں،اللہ تعالیٰ نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اہم امور میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ لینے کا حکم دیا”وشاورھم فی الأمر(آل عمران) چنانچہ خلافت راشدہ میں اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک مجلس شوریٰ تھی،جسمیں اہم امور بحث و مباحثہ کے بعد طے پاتے پھر اس کا نفاذ عمل میں آتا۔اس اعتبار سے حق رائے دہی سے استفادہ کرتے ہوئے ووٹرس کو چاہیے کے ایسے امیدوار کو ووٹ دے جو باصلاحیت اور قوم و ملت کا ہمدرد اور ان کے لیۓ مفید ہو۔
ووٹ کی چوتھی حیثیت وکالت کی ہے۔ یعنی ووٹر اپنے امیدوار کو ا پنے معاملات میں وکیل بناتا ہے جیسے کوئی شخص کسی وکیل کو اپنے کسی کیس میں وکیل بناتا ہے، جب اپنے کسی ذاتی معاملے میں وکیل بناتا ہے
جیسے کوئی شخص کسی وکیل کو اپنے کسی کیس میں وکیل بناتا ہے، جب اپنے کسی ذاتی معاملے میں وکیل بناتا ہے تو جس طرح ایک اچھے قابل ، دیانتدار وکیل کو تلاش کر کے اپنے مخصوص معاملے کو طے کرتا ہے اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ فکر انتخابات کے موقع پر کرنی چاہیے، کیونکہ یہ معاملہ تو پوری قوم و ملت اور عام انسانیت کا ہے۔ لہٰذا عام وکالت کی وجہ سے نفع و نقصان صرف اسی شخص کی حد تک محدود رہتا ہے لیکن انتخابات میں ووٹر کی وکالت کا نفع و نقصان پوری قوم و انسانیت کو پہنچتا ہے۔ اگر کسی نا اہل کو وکیل بنایا گیا تو اس کی وجہ سے پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اسی کے حصہ میں آئے گا۔ لہٰذا انتخابات میں مسلمانوں کو زیادہ ذمہ داری کے ساتھ ووٹ دینا ہوگا۔
ووٹ کسے دیں! ان تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ ووٹ گواہی ، سفارش اور وکالت ایک اہم ذمہ داری ہے۔ آئینی حق ہی نہیں بلکہ ایک دینی و شرعی ذمہ داری ہے تو ہم ووٹ کسے دیں اور کیسے دیں؟
عموماً ایک بات جو ذہنوں میں آتی ہے وہ یہ کہ جب کوئی بھی امیدوار ان شرائط کی اہلیت نہیں رکھتا تو ووٹ کیو ں دیا جائے وغیرہ۔الحمدللہ شریعت مطہرہ نے ایسے مواقع پر بھی ہماری بہترین رہنمائی و رہبری فرمائی ہے ۔چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب دو چیزیں سامنے ہو ں اور دونو ں نقصان دہ ہوں اور ان کے علا وہ تیسری راہ نہ ہو تو دو نوں میں کم نقصان والی چیز کو مجبور ی کے درجہ میں اختیار کیا جا ئے لہٰذااب دیکھا جائے گا کہ ان امید واروں میں کون انسا نیت کے حق میں زیادہ اچھا اور زیادہ اہلیت و ہمدردی رکھتا ہو جس سے عام انسا نوں کو نفع نہ سہی کم سے کم نقصان نہ پہنچتا ہو ،اس کے حق میں ووٹ دیا جا ئے۔
ووٹ کا استعمال نہ کرنا کیسا ہے ؟بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ اجی میرے ایک ووٹ سے کیا ہوگا اور اگر میں نے ووٹ نہ دیا تو کیا بگڑ جا ئے گا ،یہ خیال بھی درست نہیں اسلئے کہ اللہ تعا لیٰ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ کو نوا قوّامین للٰہ شہداء بالقسط ۔(قرآن ) اللہ کیلئے انصاف سے گواہی کو قائم کرنے والے بنو دوسری جگہ ارشاد باری تعا لیٰ ہے ۔ولاتکتمو الشھادہ ومن یکتمھا فا نہ آثم قلبہ۔(قر آن) شہادت (گواہی )کو نہ چھپا ؤ اور جو شخص اسکو چھپا تا ہے اس کا دل گناہ گار ہے ۔اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ وو ٹ ڈالنا ایک دینی فریضہ ہے اور اس سے لاپر واہی کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اچھے لو گو ں کے مقابلے میں غلط اور شرپسند جو قوم و ملت کے حق میں ظلم وتشددکو اپنا مقصد بنالیتے ہیں ایسی مجر مانہ سا زشو ں کے مرتکب لو گ چن کر میدان سیا ست میں آکر نظام حکومت کو بگاڑ کر رکھ دیں گے ۔لہٰذااس اہم ذمہ داری میں مسلمان دو سروں کے مقابلے میں زیا دہ ذمہ داراور حصہ دار ہیں ۔
ووٹ بیچنا کیسا ہے ! شریعت میں گوا ہی بیچنا حرام ہے ۔بعض طبقات میں ووٹ
بیچا جا تاہے یہ انتہائی غلط اور غیر اسلامی عمل ہے۔ اس حرکت سے بچنے اور بچا نے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہئے ۔
مسلم نمائندگی! ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ایک طرف ہمیں اپنی سیاسی نمائندگی کو بھی بڑھانا ہے تو دوسری طرف مسلم دشمن، دیش دشمن، آئین دشمن طاقتوں کو اقتدار پر آنے سے روکنا بھی ہے ۔(کسطرح اور کیسے روکناہے اور کیا لائحۂ عمل ہونا چاہیئے۔(فانتظر)

Comments are closed.