مروجہ مشاعروں کی خرابیاں

از:مولانا آفتاب اظہرؔ صدیقی
ڈائیریکٹر : الہدایہ اسلامک اکیڈمی چھترگاچھ، ضلع کشن گنج بہار
مروجہ مشاعروں کی قباحت اور خرابیوں پر اگر لکھا جائے تو باضابطہ ایک رسالہ تیار ہوسکتا ہے؛ لیکن اس تحریر میں مختصر انداز میں چند خرابیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ شاعری اگر ڈھنگ سے کی جائے اور ڈھنگ کی جگہ سے پیش کی جائے اور ڈھنگ کے لوگ سنانے اور سننے والے ہوں تو یہ معاشرے کی ایک تہذیب ہوگی، اردو کے فروغ کا ذریعہ ہوگی اور اہل اردو کے لیے ترقی کا ضامن ہوگی؛ لیکن المیہ یہ ہے کہ تہذیب کے نام پر بدتہذیبی، فروغ اردو کے نام پر اردو کا قتل اور حیا و پاکدامنی کے نام پر شرم و حیا کا جنازہ نکالا جارہا ہے۔ آئیے، مروجہ مشاعروں کی خرابیوں پر سلسلہ وار نظر کرتے ہیں۔
(۱) مشاعروں میں شاعروں کے بجائے متشاعر اور متشاعرات کی شرکت: کیا یہ سراسر دھوکہ اور مشاعرے کے وقار کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہے کہ اسٹیج مشاعرے کا سجایا جائے اور اس میں شاعروں سے زیادہ تعداد میں متشاعروں کو مدعو کیا جائے۔ متشاعر یعنی جو شاعر نہ ہو؛ لیکن اپنے آپ کو شاعر ظاہر کرے، کتنے ہی ایسے متشاعروں نے ملک و بیرون ملک میں ’’شاعر اعظم‘‘ کے نام سے اپنی پہچان بنا رکھی ہے؛ لیکن انہیں شاعری کے مبادیات تک کا علم نہیں۔ ایسے نام نہاد شعراء کچھ غیر معروف پڑھے لکھے شاعروں سے اپنے لیے غزلیں اور اشعار لکھواکر لاتے ہیں اور اسٹیج پر اپنے تخلص کے ساتھ زور زور سے پڑھ کر زبردستی داد بھی وصول کرتے ہیں۔ ایسا کرنے والے شعرا شریعت کی رو سے جھوٹ، مکاری اور دھوکہ دہی کے گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ زوال پذیر مشاعروں میں اب یہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے کہ شاعر ایسی شاعری کر رہا ہے جس کے کسی بھی شعر کا تعلق شاعری کے اصول سے نہیں ہے، یعنی شاعری کے نام پر تک بندیاں چل رہی ہیں، کچھ بھی الٹا سیدھا لکھا، تھوڑا خیال ملا، قافیہ بندی کی اور بحر واوزان کی دھجیاں اڑاتے ہوئے شاعری شروع کردی، یہ شعراء اگرچہ اسٹیج پر کچھ شاعروں کی نگاہ تنقید کا نشانہ بھی بنتے ہیں؛ لیکن کنوینر کی لاعلمی انہیں موقع فراہم کرتی ہے، ایسے ہی شاعروں کے لیے نشتر امروہوی نے کہا تھا:
شعر بے بحر پڑھو شاعرِ اعظم بن جائو
سارے اوزان کی ارکان کی ایسی تیسی
(۲)مشاعروں میں شاعروں کی چاپلوسیاں: آج کل کے مشاعرے اس طرح کے نہیں ہوتے کہ ملک کے کچھ نامور اور معروف شاعروں سے اسٹیج سجایاجاتا ہو اور مہذب انداز میں مشاعرے ہوتے ہوں، جی نہیں! بلکہ مشاعرے کا کنوینر ان ہی شاعروں کو اپنے مشاعرے میں مدعو کرتا ہے جو اس کی چاپلوسی کرے یا اگر وہ شاعر ہے تو اسے اپنے یہاں کے مشاعرے میں بلائے۔
بخاری شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ ’’کسی آدمی کے لیے اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے کہ اپنے ہاتھ سے محنت کرکے کھائے اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے۔
یہ حدیث ہمیں معاش کے لئے محنت کرنے پہ ابھارتی ہے جو بغیر محنت کے چاپلوسی کی کمائی کھانا پسند کرتے ہیں وہ حرام کاری میں مبتلا ہیں انہیں توبہ کے ساتھ ساتھ رزق حلال کمانے کی ضرورت ہے۔
(۳) اردو کا فروغ ایک دھوکہ: مشاعروں کے اسٹیج پر لگے اشتہار ات سے لے کر شاعروں کے ہاتھ میں غزل کی لکھی ہوئی پرچیوں تک میں اردو ندارد ہوتی ہے، کس طرح کا فروغِ اردو ہے کہ جس اسٹیج سے فروغ اردو کی بات کی جارہی ہے اس کا بینر بھی ہندی میں بنا ہوا ہے، مشاعرے کا کنوینر بھی اردو سے ناواقف ہے، ناظم مشاعرہ بھی اردو کے الفاظ میں ’’ز‘‘ کی جگہ ’’ج‘‘ اور ’’ش‘‘ کی جگہ ’’س‘‘ بولنے پر مجبور ہے، اسٹیج پر رونق افروز شاعر اور شاعرات میں ایک دو ہی اردو پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ اب آپ خود بتائیے کہ اردو کو فروغ کیسے ملے گا جب اردو کا مشاعرہ سجانے والے ہی اردو سے نابلد ہوں۔یہ بھی ایک طرح کا دھوکہ اور فریب ہے جس سے اسلام نے منع کیا ہے۔
(۴) مزاحیہ شاعری کے نام پر فحش گوئی: ہم نے کئی کل ہند مشاعروں میں دیکھا ہے کہ مزاحیہ شاعر اپنی شاعری میں مزاح کم اور بے حیائی کی باتیں زیادہ کرتا ہے، ان ہفوات آمیز اشعار پر لوگ چٹکیاں بھی لیتے ہیں اور اسٹیج پر بیٹھی ہوئی شاعرات پر نشانہ بھی سادھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’فحش گوئی اور بداخلاقی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں!‘‘(مسند احمد)۔ ایک اور جگہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’شرم و حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان والا جنت میں جائے گا اور بے حیائی، فحش گوئی برائی کا حصہ ہے اور برائی والا دوزخ میں جائے گا!‘‘ (ترمذی) ایک اور حدیث میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ بدزبان اور بے ہودہ بات کرنے والے سے بغض وعداوت رکھتا ہے‘‘ (ترمذی)۔
(۵) مشاعروں میں سیاست اور لاکھوں کی شاعری: مروجہ مشاعروں کو لاکھوں کی سیاست آمیز شاعری نے بھی بدنام کرکے چھوڑ دیا ہے، مثلاً کچھ شعراء مل کر الیکشن سے پہلے کسی خاص پارٹی کے ایم ایل اے یا ایم اپی سے الیکشن منعقد کروانے کا مطالبہ کرتے ہیں، پھر اس میں کچھ گویّے قسم کے نام نہاد ملت فروش شاعروں کو بلایا جاتا ہے اور پورے مشاعرے میں اس ایم ایل اے؍ ایم پی یا اس کی پارٹی کی بے جا تعریف پر مشتمل شاعری کی جاتی ہے۔ جھوٹی تعریف یا کسی کے سامنے تعریف کرنا بھی اسلام کی نظر میں معیوب بلکہ منکر ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم تعریف کرنے والوں سے ملو تو ان کے چہروں پر مٹی ڈال دو۔(صحیح مسلم) یہ حال ان لوگوں کا ہے جو سامنے صحیح تعریف کرتے ہیں تو جو جھوٹی تعریف کرے ان کا کیا حال ہوگا؟ ایک بار نبی ﷺ نے بنی عامر کے وفد کو اپنے لئے سید استعمال کرنے پہ ٹوک دیا اور فرمایا: یعنی شیطان تمہیں میرے سلسلے میں جری نہ کر دے کہ تم ایسے کلمات کہہ بیٹھو جو میرے لئے زیبا نہ ہو۔(ابو داؤد) اس کے علاوہ اس میں منافقت اور دنیا طلبی بھی ہے جو ایمان کے لئے بہت خطرناک ہے۔
(۶) مشاعروں میں شاعرات کی شرکت:مشاعروں کی یہ روایات جن میں اسٹیج پر شاعر و شاعرہ مخلوط ہوکر مشاعرہ پڑھتے ہیں اس کی ابتدا جب سے ہوئی ہو؛ بہر حال مشاعروں کا یہ طریقہ خلاف شرع ہے، جس کی تفصیل مع دلیل آگے تحریر کی جائے گی۔ آج سے بیس سال پہلے کے مشاعروں میں تو کم از کم اتنا ہوتا تھا کہ شاعرات مکمل پردے میں تو نہیں؛ لیکن اتنا تو پردے میں ہوا کرتی تھیں کہ ان کی زلفوں پر اوڑھنی اور سینے پر کپڑا ڈھکا ہوتا تھا، اس وقت یوں تھا کہ شاعرات کی شاعری اور اس کی سریلی آواز کا ہی جلوہ ہوا کرتا تھا، پھر یوں ہوا کہ کچھ برسوں سے شاعرات کے لباس نے بھی اپنا جادو دکھانا شروع کردیا، اب لوگ شاعرات کو سننے کم جاتے ہیں زیادہ تر دیوانے انہیں دیکھنے اور اپنی آنکھیں سینکنے پہنچتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے، کان کا زنا سننا ہے، زبان کا زنا بولنا (باتیں کرنا) ہے، دماغ کا زنا سوچنا ہے، ہاتھ کا زنا پکڑنا ہے، پاؤں کا زنا چلنا ہے، دل کا زنا تمنا اور خواہش کرنا ہے، اور شرمگاہ اسکی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے‘‘ (صحیح مسلم) اس حدیث سے پتا چلا کہ جو لوگ شاعرات یو لڑکیوں کو صرف اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے دیکھتے ہیں وہ آنکھوں کے زنا میں مبتلا ہوتے ہیں۔ نیز اسلام نے عورتوں کو پردے میں رہنے اور اپنے آپ کو ہر طرح سے چھپائے رکھنے کی تاکید کی ہے۔ اللہ پاک قرآن مقدس کی سورۂ نور کی آیت نمبر 31؍ میں ارشاد فرماتا ہے ’’اور آپ مؤمن عورتوں کو کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے اسکے جو ظاہر ہے، اوراپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں، اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں، سوائے اپنے خاوندوں کے، یا اپنے والد کے، یا اپنے سسر کے، یا اپنے بیٹوں کے، یا اپنے خاوند کے بیٹوں کے، یا اپنے بھائیوں کے، یا اپنے بھتیجوں کے، یا اپنے بھانجوں کے، یا اپنے میل جول کی عورتوں کے، یا غلاموں کے، یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں، یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ انکی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے، اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جانب توبہ کرو، تا کہ تم نجات پا جاؤ ۔
اسی طرح سورہ احزاب کی آیت نمبر 59؍ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں سے، اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں اس سے بہت جلد ا نکی پہچان و شناخت ہو جایا کریگی، پھر وہ ستائی نہ جائیں گی، اور اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے۔
نبی پاک ﷺ نے عورت کو محرم کے بغیر تنہا یا غیر محرم کے ساتھ سفر کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمادیا۔بخاری و مسلم میں ابن عباس کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے خطبہ میں ارشاد فرمایا!’’لا یخلون رجل بامرأۃالا ومعھا ذومحرم ولا تسافر المرأۃالا مع ذی محرم‘‘’’یعنی کوئی مرد کسی عورت سے خلوت میں نہ ملے جب تک کہ اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم نہ ہو اور کوئی عورت سفر نہ کرے جب تک اس کا کوئی محرم اس کے ساتھ نہ ہو۔‘‘
ان دلائل کو دیکھتے ہوئے ہر عقل مند اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ جس دین نے عورت کی عصمت و عفت کے تحفظ کے لیے اسے غیر محرم کے بغیر سفر کرنے سے روکا ہو، بغیر پردے کے نکلنے سے منع کیا ہو، حتیٰ کہ جس کی آواز کو بھی پردہ قرار دیا ہو اسے کیوں کر کھلے عام مشاعروں میں ادھ کچے لباس پہن کر اپنی سریلی آواز میں مرد شاعروں کے ساتھ بیٹھ کر مردوں کے مجمع عام میں مشاعرہ پڑھنے کی اجازت ہوگی۔
Comments are closed.