آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصر حضرت مولاناخالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا * بانی وناظم المعہدالعالی اسلامی حیدرآباد
دفتری اوقات میں نماز
سوال: میں ایک کمپنی میں ملازم ہوں، بڑی مشکل سے یہ ملازمت ملی ہے، اب مسئلہ ظہر وعصر کی نماز کا بھی آتا ہے، آفس سے با ہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی،اور نمازپڑھنے کی بھی باضابطہ اجازت نہیں ہے تو کیا ایسی صورت میں میں باضابطہ اجازت لیے بغیر آفس کے وقت میں وضو کر کے نماز ادا کر سکتا ہوں ہو؟ (محمد اکبر علی، گولکنڈہ)
جواب:
شریعت کا اصول یہ ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے عائد کیا ہوا فریضہ حتی المقدور ضرور ادا کیا جائے؛ البتہ اس بات کا بھی لحاظ رکھا جائے کہ بندوں کے حقوق میں کوتاہی نہ ہو؛ اس لیے آپ ایسا کریں کہ دونوں نمازوں کے وقت وضو کریں اور وضو میں کم سے کم وقت خرچ کریں، پھر فرض اور سنت مؤکدہ کو ادا کریں اور اس میں بھی مختصر سورتوں اور رکوع وسجدہ میں صرف تین تسبیحات پر اکتفا کریں، اس طرح دو نمازوں میں بمشکل دس بارہ منٹ کا وقت صرف ہوگا،عام طور پرآفس کے ذمہ دار حضرات اس کی اجازت دے دیتے ہیں، نیز ڈیوٹی کی اوقات میں پورا وقت کام میں لگائیں، غیر متعلق بات چیت سے پرہیز کریں اور کوشش کریں کہ ڈیوٹی کے اوقات میں جتنا وقت نماز میں لگا ہے، آفس کا وقت شروع ہونے سے پہلے یا آفس کا وقت ختم ہونے کے بعد اتنی دیر حسب ضرورت آفس کا کچھ زیادہ کام کرلیں، بہرحال اپنی پابندی اور مقررہ اوقات میں بھرپور ڈیوٹی کے ذریعہ یہ تأثر دیں کہ ایک اچھا مسلمان ایک فرض شناس ملازم بھی ہوتا ہے؛ البتہ دفتر کے اوقات میں نفل نمازسے اور کام چھوڑ کر تسبیحات اور دینی یا غیر دینی گفتگو سے پرہیز کریں؛ کیونکہ یہ خیانت کا ارتکاب ہو گا۔
کیا کپڑوں کا پردہ سترہ کے لیے کافی ہے؟
سوال: میرے مکان میں ایک ہال ہے، جس میں اوپر سے نیچے تک پردہ لٹکا ہوا ہے، اب اگر کوئی شخص اس پردہ کے پیچھے سے نماز ادا کرے اور دوسرے حضرات پردہ کے آگے سے آمدورفت کریں تو کیا یہ جائز ہے؟ یعنی کیا یہ پردہ سترہ کے لیے کافی ہو جائے گا؟(وحید الدین،ملے پلی)
جواب:
سترہ کے لئے دیواریا لکڑی کا ہونا ضروری نہیں ہے، کوئی بھی ایسی چیز درمیان میں حائل ہو جس سے گزرنے والے کویہ بات سمجھ میں آجائے کہ کوئی شخص پیچھے نماز ادا کر رہا ہے اور گزرنے کے وجہ سے نمازی کو خلل نہ ہو تو حرج نہیں ہے، کسی لکڑی کو گاڑنااس مقصد کے لیے جتنا مفید ہے، پردہ اس سے زیادہ مفید ہے: فأما إن کان بینہما حائل فلا باس بالمرور فیما وراء الحائل الخ (بدائع الصنائع: ۱/ ۲۱۷،کتاب الصلاۃ)
نکاح کا خطبہ ایجاب و قبول سے پہلے یا اس کے بعد؟
سوال: نکاح کا خطبہ ایجاب و قبول سے پہلے پڑھنا چاہیے یا ایجاب و قبول کے بعد بھی پڑھا جاسکتا ہے؛ کیونکہ میں نے ایک قاضی صاحب کو دیکھا کہ انہوں نے پہلے ایجاب و قبول کرا دیا،بعد میں خطبہ پڑھا، اس سلسلے میں رہنمائی کریں؟ (شمس الدین، قاضی پورہ)
جواب:
نکاح میں خطبہ پڑھنا بہتر ہے، ضروری نہیں ہے اور بہتر ہے کہ ایجاب و قبول سے پہلے خطبہ دیا جائے:یستحب للزواج أن یخطب قبل العقد فإن فقد الزوج من غیر خطبۃ جاز فالخطبۃ (الفقہ الاسلامی وادلتہ: ۷/ ۱۲۲،دار الفکر)؛لیکن چونکہ یہ خطبہ ضروری نہیں ہے؛ اس لیے اگر ایجاب و قبول کے بعد دے دے تو اس کی بھی گنجائش ہے اور دونوں کی نظیر یں موجود ہیں، جمعہ میں اصل مقصد یعنی نماز سے پہلے آپ ﷺنے خطبہ دیا اور عید ین میں نماز ا-جو اصل مقصود تھی- اس کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا۔
اگر عورت نکاح پڑھا دے؟
سوال: میں یورپ کے ایک ملک میں رہتا ہوں، یہاں نکاح مجسٹریٹ کے ذریعہ ہوتا ہے اور بعض اوقات مجسٹریٹ کے عہدہ پر عورت ہوتی ہے، ایسی صورت میں وہی ایجاب و قبول کراتی ہے تو کیا عورت کے نکاح پڑھانے سے نکاح منعقد ہوجائے گا؟ (حسیب احمد خان، متوطن: حیدرآباد)
جواب:
اگر نکاح خواں عورت ہو اور اس نے ایجاب و قبول کرا دیا تو نکاح منعقد ہوجائے گا؛ کیونکہ پڑھانے والے کی حیثیت ترجمان اور زیادہ سے زیادہ وکیل کی ہوتی ہے، اگر عاقدین موجود ہوں تو اگرچہ نکاح خواں نے ایجاب و قبول کے الفاظ کہلائے ہوں،مگر اس کی حیثیت صرف ایک ترجمان کی ہوگی، اصل میں یہ ایجاب و قبول عاقدین ہی کی طرف سے ہو گا اور یوں بھی حنفیہ کے نزدیک ایک بالغ لڑکی خود بھی اپنا نکاح کر سکتی ہے اور دوسرے کا ایجاب و قبول بھی کرا سکتی ہے۔
ماں کا حق پرورش
سوال:سماجی اختلافات کو حل کرنے کے لیے ہم لوگوں نے محلہ میں ایک سوسائٹی بنائی ہے، ہمارے پاس ایک مسئلہ آیا کہ شوہر اور بیوی میں طلاق ہوگئی، بچہ ماں کی پرورش میں ہے؛ لیکن اس کی عمر دس سال ہوچکی ہے، اس کی دادی تو زندہ نہیں ہے، لیکن باپ نے دوسری شادی کرلی ہے، وہ چاہتا ہے کہ بچہ اب اس کے حوالے کر دیا جائے، عورت اور اس کے گھر والوں کو یہ خوف ہے کہ سوتیلی ماں اس کے ساتھ زیادتی کرے گی، ویسے بھی وہ مزاج کی تیز ہے، بچہ بھی باپ کے گھر جانے کو تیار نہیں ہے، ایسی صورت میں ہمیں کیا فیصلہ کرنا چاہیے؟ (کبیر الدین، اندور)
جواب:
حق پرورش کے مسئلہ میں باپ کے جذبہ? شفقت اور ماں کی ممتا سے زیادہ اہمیت خود بچے کے مفاد کی ہے، سات آٹھ سال کا ہونے کے بعد جو باپ کو حق پرورش دیا گیا ہے، وہ بھی اسی لئے ہے؛کیونکہ اس عمر میں تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے، اور باپ اِس کو زیادہ بہتر طور پر انجام دے سکتا ہے؛ اس لیے اگر گھرمیں دادی بھی نہ ہو اور سوتیلی ماں سے بچہ کو اذیت پہنچنے کا اندیشہ ہو اور خود اس کی اپنی ماں پرورش کے لئے تیار ہو تو صورتحال کی تحقیق کے بعد ماں کے حق ِ پرورش کو ابھی باقی رکھا جا سکتا ہے: فینبغی للمفتی أن یکون ذا بصیرۃ لیراعی الأصلح للولد َ۔۔۔۔۔۔۔ وقد یکون لہ زوجۃ تؤذیہ أضعاف ما یؤذیہ زوج أمہ الأجنبی وقد یکون لہ أولاد یخشی علی البنت منہم الفتنۃ لسکناہا معہم، فإذا علم المفتی أو القاضی شیئا من ذلک لا یحل لہ نزعہ من أمہ لأن مدار أمر الحضانۃ علی نفع الولد،(رد المحتار،باب الحضانۃ:۳/ ۵۶۵)
اگر طلاق کی تعداد میں شک ہو؟
سوال: میرے ایک دوست نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے لیکن اس کو شک ہے کہ اس نے تین بار طلاق دی ہے یا ایک بار، ایسی صورت میں کتنی طلاق شمار کی جائے گی؟ (عبدالرحیم، بجنور)
جواب:
ایسی صورت میں پہلے تو خوب اچھی طرح غور کرے اور دل کے رجحان کا جائزہ لے، اگر تین طلاق کی طرف رجحان ہو اور غالب گمان ہو تو تین طلاق واقع ہو گی؛ لیکن اگر زیادہ گمان اس بات کا ہو کہ اس نے تین سے کم طلاقیں دی ہیں، یا کسی طرف رجحان نہ ہو پائے تو اسے ایک طلاق تصور کیا جائے گا؛ کیونکہ جو کم تعداد ہے، اس کا واقع ہونا یقینی ہے:لو شک أطلق أم لا. ولو شک أطلق واحدۃ أو أکثر بنی علی الأقل……. وفی الشامیۃ (قولہ بنی علی الأقل) أی کما ذکرہ الإسبیجابی، إلا أن یستیقن بالأکثر أو یکون أکبر ظنہ.( الدر المختار وحاشیۃ ابن عابدین:۳/۲۸۳،باب صریح الطلاق)
غیر مسلم سے قرآن مجید فروخت کرنا
سوال: بعض غیر مسلم بھائی قرآن مجید خریدنا چاہتے ہیں، ایک عالم صاحب نے فرمایا کہ غیر مسلم کو قرآن مجید نہ دینا چاہیے اور نہ ان کے ہاتھ فروخت کرنا چاہیے؛ کیونکہ وہ پاکی و ناپاکی کا لحاظ نہیں رکھتے ہیں اور نہ وہ با وضو رہتے ہیں، اگر قرآن ان کو دیا جائے تو اس میں قرآن کی بے احترامی ہوگی؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن مجید پڑھ کر بہت سے غیر مسلموں کو ہدایت حاصل ہوتی ہے، وہ متأثر ہوتے ہیں اور کچھ لوگوں کی غلط فہمیاں بھی دور ہوتی ہیں، اس سلسلے میں مسلمانوں کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ (ماجد علی، میرٹھ)
جواب:
قرآن مجید کا احترام ضروری ہے اور اس کتاب کو برادرانِ انسانیت تک پہنچانا بھی ضروری ہے؛ اس لئے دونوں پہلوؤں کو سامنے رکھ کر کوئی قدم اٹھانا چاہئے، ائمہ اربعہ میں سے حنفیہ اور مالکیہ نے غیر مسلم سے قرآن مجید فروخت کرنے کی اجازت دی ہے۔(فقہ البیوع:۱ /۱۶۷،بحوالہ المبسوط للسرخسی)، امام طحاویؒ نے امام محمدؒ کے واسطے سے امام ابوحنیفہؒ سے نقل کیا ہے کہ غیر مسلم کو قرآن اور فقہ کی تعلیم دی جا سکتی ہے: ذکر محمد عن أبی حنیفۃ أنہ لا بأس بتعلیم الحربی والذمی القرآن والفقہ.(مختصر اختلاف العلماء :۳/ ۴۹۲)، ظاہر ہے کہ تعلیم میں کتاب کی بھی ضرورت پیش آتی ہے، امام محمدؒ نے یہ شرط بڑھائی ہے کہ اگر غیر مسلم قرآن مجید کو لینا چاہے تو اسے غسل کرنے کا حکم دیا جائے گا؛تاکہ وہ پاک ہوجائے، رہ گئی اعتقادی ناپاکی تو اس کا تعلق دل سے ہے نہ کہ ہاتھ سے:وإنما بقی نجاسۃ اعتقادہ، وذلک فی قلبہ لا فی یدہ،(بدائع الصنائع:۱/ ۳۷، فصل الغسل)۔
لیکن اس قسم کا مطالبہ غیر مسلم ملک میں کسی غیر مسلم بھائی سے نہیں کیا جاسکتا؛ اس لئے شریعت سے ہم آہنگ قابل عمل بات یہ ہے کہ اگر کسی غیر مسلم کے بارے میں قرائن سے اندازہ ہوکہ وہ قرآن مجید کی اہانت کرے گا تو اس کے ہاتھ قرآن مجید کا بیچنا یا بلاقیمت اس کو قرآن مجید کا نسخہ دینا جائز نہیں ہے، اور جہاں اس کا اندیشہ نہیں ہو؛ بلکہ اندازہ ہو کہ وہ قرآن مجید کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے، یا اپنی لائبریری میں رکھنا چاہتا ہے تو ایسے شخص کو قرآن مجید دینا جائز ہے، اور دیتے ہوئے نیت رکھنی چاہیے کہ یہ لینے والے کے لئے ذریعہ ہدایت بن جائے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ قر آن کا مطالعہ بہت سے لوگوں کے لیے اسلام قبول کرنے کا باعث بنا ہے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد کے غیر مسلم بادشاہوں کو جوخطوط لکھے، ان میں قرآن مجید کی آیت موجود تھی اور جیسے پورے مصحفِ قرآنی کا احترام ضروری ہے، اسی طرح قرآن مجید کی ایک آیت بھی قابل احترام ہے، جہاں تک وضو اور غسل کی بات ہے تو موقع و محل کے لحاظ سے اس کی تلقین کی جا سکتی ہے؛ لیکن اس کو لازم قرار نہیں دیا جاسکتا؛ کیونکہ جب تک کوئی شخص ایمان نہ لائے،وہ وہ فروعی احکام کا مخاطب نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.