دہلی کے دو درناک اور وحشت ناک واقعات،مسلمانوں کی کمزوری اور مجرما نہ غفلت

عبدالعزیز
اس میں کوئی شک نہیں کہ دینا بھر میں مسلمانوں پرظلم وستم ہور ہے ہیں اور مسلمان دنیا بھر میں ذلیل وخوار ہیں -کیوں مسلمان ظلم کے شکار ہیں اور کیا وجہ ہے کہ ذلیل وخوار ہیں اS وقت یہ عاجز کا مو ضوع نہیں ہے -صدیوں سے ہمارے شا عر وہ ادیب ان موضوعات پر بہت کچھ لکھ رہے ہیں اور آج تک اس پر لکھا جارہا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ’برق گرتی ہے بے چارے مسلمانوں پر‘ وہ یہ کہنے بھی نہیں ہچکچاتے کہ ’تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو‘میرا آج کا موضوع ہے مسلمانوں کی حق پر ستی سے دوری اور غیروں پر اپنوں کی سرکوبی اور مذمت سے راہ فرار۔
دہلی میں ایک دوسال پہلے ایک مسلم خاندان کے ظالموں نے غیر ت کے نام پر ایک غیر مسلم نوجوان کو قتل کردیا اس کا ان ظالموں کے نزدیک یہ قصور تھا کہ ان کے خاندان کی ایک لڑکی سے وہ لڑکا محبت کرتا تھا ۔لڑکی بھی لڑکے سے پیار کرتی تھی۔ فرقہ پرستوں نے اسے فرقہ پرستی کا رنگ دینا چا ہا مگر لڑ کے کے ماں باپ پڑھے لکھے تھے انہوں نے اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے والوں کی سخت مذمت کی ۔صاف صاف کہا کہ ’ہم نے بیشک اپنے نوجوان بیٹے کو کھو یا ہے اپنی عقل و انسانیت کو نہیں کھویا ہے ہم نہیں چاہتے کہ اس اندوہناک واقعہ سے بے قصور اور بے گناہ لوگ زد میں آئیں اور مارے جا ئیں ہم کسی قیمت پر اسے فرقہ وارانہ رنگ نہیں دینے دیںگے‘‘۔ اللہ کا شکر ہوا معاملہ آگے نہیں بڑھا اور کوئی نا خوشگوار واقعہ اس کی وجہ سے رونما نہیں ہوا۔ جبکہ فرقہ پرست پارٹی نے زبردست کوشش کی تھی کہ کسی طرح فرقہ وارانہ فساد برپا ہوجائے۔
ایک اور تازہ واقعہ دہلی کے مغربی شمالی علاقہ آدرش نگر کے اٹھارہ سالہ لڑکے راہل راجپوت کو ایک خاندان کے دو بھائی محمد راز اور منورحسین اپنے پانچ کمسن رشتے دار لڑکوں کے ساتھ مل کر اس قدر مارا کہ اس کی جان چلی گئی۔ لڑکی کا بیان ہے کہ لڑکے کو اس کے دو ظالم بھا ئیوں سے بچا نے کے لیے کوئی سامنے نہیں آیا راہل کو مار مار کر ہمارے بھائیوں نے ہلاک کر دیا ۔
پہلے اور دوسرے واقعات پر مسلم تنظیموں اور چیدہ شخصیتوں کی طرف سے سخت بیان آنا چاہئیے تھا لیکن کسی تنظیم یا شخصیت کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا۔ ہم مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے تو بہت سارے انصاف پسند شخصیتوں کی طرف سے مذمتی بیان آتا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسلمانوں کو ہدایت دی ہے کہ : اے لوگو جو ایمان لائے ہو انصاف کے علمبردار ور خدا وا سطے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑ تی ہو۔فریق معاملہ مالدار ہو یا غریب ، ا للہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے۔ لہذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچا ئی سے پہلو بچا یا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے (سورہ النسا 135)
یعنی حالات جیسے بھی ہوں مسلمانوں کو عالی حوصلہ اور وسیع الظرف رہنے کی ضرورت ہے ۔ایمان اور اسلام کا یہی تقاضا ہے کمیونسٹوں کو اپنی پارٹیوں کو ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے پھر بھی کمیونسٹ عام طور پر جبر و ظلم کے خلاف اپنے نقطہ نظر سے بولتے ہیں جب بابری مسجد گرائی گئی تھی تو سابق وزیر اعلیٰ جیو تی باسو نے کہا تھا کہ یہ سراسر بر بریت ہے ۔ جسٹس وی آر کرشنا ایر نے کہا تھا کہ جب تک بابری مسجد اس جگہ نہیں بنا دی جاتی جہاں وہ پہلے تھی نہ انصاف کا تقاضا پورا ہوگا اور نہ ہی دستور کی پاسداری ہوگی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی بہت سے برادران وطن نے بیان دیا کہ انصاف کا تقاضا پورا نہیں ہوا۔ کمیونسٹوں کا خاص طور پر ذکر کرنے کا مطلب ہے کہ وہ سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور بیان دیتے ہیں۔ مسلمانوں میں تو بہت سی تنظیمیں ایسی ہیں جو انہیں کوئی سیاسی مصلحت ہی درپیش نہیں ہے وہ سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھتی ہیں پھر بھی وہ مسلمانوں کی غلطیوں یا جبر وظلم پر آواز نہیں اٹھا تیں کہ کہیں مسلمان ناراض نہ ہو جائیں۔ مسلمانوں کا تعارف اس ملک میں یہ نہیں ہے کہ مسلمان حق وانصاف کے علمبردار ہیں اور انسانیت کے خیر خواہ ہیں۔ جب تک مسلمانوں کا یہ تعارف نہیں ہوگا، ملک میں مسلمان نہ اچھی نظر سے دیکھے جائیں گے اور نہ ہی اسلام کا تعارف وسیع پیمانے پر ممکن ہوگا۔ نہ اسلام کی اجنبیت دور ہوگی۔
لڑکی کے سرپرست یا ماں باپ لڑکی کو انگریزی زبان اچھی طرح سے سیکھنے کے لیے کوچنگ کے لیے ایک ٹیچر کے پاس بھیجتے تھے جہاں راہل راجپوت سے اس کی ملاقات ہوتی تھی لڑکا دہلی یونیورسٹی کا طالب علم تھا ایک ٹیکسی ڈرائیور کا لڑکا تھا وہ آئی اے ایس کے امتحان میں بیٹھنے کا بھی عزم رکھتا تھا۔لڑکی لڑکے گھر بھی جاتی تھی لڑکے کی ماں کا بیان ہے کہ ’’ دونوں رشتہ ازدواج میں بھی بندھ جانا چاہتے تھے میں نے دونوں کو سمجھا یا کہ ابھی پڑھنے لکھنے پر دھیان دو شادی بیاہ کی بات مت کرو ‘‘( انڈین ایکسپریس 11 اکتوبر2020) اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ لڑکی کے گھر والوں کی طرف سے پوری چھوٹ تھی گھر والوں نے لڑکی کی نکیل کسنے کے بجائے لڑکے کی جان لے لی۔ بھائیوں نے کتنی بڑی زیادتی کی کہ بہن کو روکنے کے بجائے لڑکے کے سر کو قلم کر دیا۔ بہن کو بے پردہ کیا بے شرمی کی چھوٹ دی۔ بے حیا باش ہرچہ خواہی کن کی تعلیم دی اور غیر ت دین کیسے آگئی وہ بھی ناانصافی اور زیادتی کے ساتھ جو سراسر ظلم ہے ۔ظلم حق و انصاف کی ضد ہے۔ مسلمان اپنے لڑکے لڑکیوں کو دین کی اکثر نہ بنیا دی تعلیم دیتے ہیں نہ حیادار ی سکھا تے ہیں جب پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے تو اس طرح کا قدم اٹھا تے ہیں کہ دوسروں کی زندگی کے درپے ہوتے ہیں اور اپنے خاندان کو بھی تباہ وبرباد کر دیتے ہیں۔ اب دونوں بھائی جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہیں گے اور بالآخر سزائے موت یا عمر قید کی سزا بھگتیں گے ایک خاندان کو برباد کیا اور اپنے خاندان کو بھی تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا اسلام اور مسلمانوں کی رسوائی کے سبب بھی بنے قرآن مجید میں کچھ اسطرح ہے کہ ’’ جس نے ناحق کسی انسان کو کوقتل کیا اس نے ساری انسانیت کو قتل کیا۔ ایک کا قاتل سب کا قاتل ‘‘( سورہ المائدہ )
()()()
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068

Comments are closed.