وقف قانون مسلمانوں کے لیے غیر دستوری اور ناقابل قبول، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے گول میز کانفرنس میں مسلم و غیرمسلم دانشوروں کا اظہار خیال

حیدرآباد(پریس ریلیز)
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ملک گیر سطح پر "وقف بچاؤ، دستور بچاؤ” مہم چلا رہا ہے، اور اس قانون کے خلاف احتجاج کےلیے مخلتف سرگرمیاں منعقد کی جارہی ہیں، اسی ضمن میں آج حیدرآباد میں گول میز کانفرنس رکھی گئی، جس میں شہر کے نمائندہ ڈاکٹرس، وکلاء، قانون دان، دانشور اور مختلف مسلکوں کے نمائندگان نے شرکت کی، ریاستی حکومت کے مشیر برائے اقلیتی امور جناب محمد علی شبیر صاحب نے اس کانفرنس کو مخاطب کیا، اسی طرح جناب عمر جلیل صاحب (سابق IAS آفسر)، مولانا حسام الدین جعفر پاشاہ صاحب، ڈاکٹر متین الدین قادری(رکن بورڈ)، مولانا سعید قادری الحسینی(صدر انٹرنیشنل قادری فاؤنڈیشن) و دیگر نے خطاب کیا، اس موقع سے جناب مہیش راج صاحب (صدر فیڈریشن آف او، بی، سی، ایس سی، اس ٹی)، سینئر اڈوکیٹ جناب رگھوناتھ راؤ اور محترمہ نویکا ہرشا(گانریس) نے بھی اظہار خیال کیا، مولانا غیاث احمد رشادی (رکن بورڈ )نے استقبالیہ کلمات کہے اور مفتی عمر عابدین قاسمی مدنی صاحب نے پروگرام کی کاروائی چلائی اور اس مناسبت سے بورڈ کا تعارف اور وقف قانون کے حوالے سے کی گئی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی۔ جناب رفعت اللہ شاہدصاحب نے شکریہ ادا کیا۔
اس نشست کی صدارت معروف قانون داں اور سابق چیف جسٹس جناب شاہ محمد قادری (رکن بورڈ) نے کی، اور ان کے صدارتی خطاب پر اجلاس کا اختتام عمل میں آیا۔
وقف قانون میں کی گئیں ترمیمات امتیاز و تفریق پر مبنی، دستور ہند کی بنیادی حقوق کی دفعات سے متصادم اور مسلم اوقاف کو ہڑپنے اور برباد کرنے کی ایک سازش ہے۔
حکمران پارٹی نے اپنی عددی طاقت کی بنیاد پر کروڑوں مسلمانوں، اقلیتوں اور ملک کے انصاف عوام کی مرضی کے خلاف وقف قانوں میں جو من مانی، امتیاز پر مبنی اور ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے دستوری و بنیادی حقوق پرتیشہ چلاکر جو ترمیمات منظور کی ہیں، ہم اسے کلیتاً مسترد کرتے ہیں۔
ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ یہ ترامیم نہ صرف آئین ہند کے آرٹیکل 25 اور 26 کے تحت دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ہیں بلکہ وقف کے انتظام و انصرام پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے حکومت کے ارادے و ناپاک عزائم کو واضح کرتے ہیں، اس طرح ان ترمیمات کے ذریعہ ملک کی مسلم اقلیت کو ان کے اپنے مذہبی اوقاف کے آزادانہ انتظام و انصرام سے بھی روک دیا گیا ہے۔ ہندوستانی آئین کی دفعات 25 اور 26 ضمیر کی آزادی کے علاوہ مذہب پر عمل کرنے، تبلیغ کرنے کے حق اور مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لیے اداروں کے قیام اور انتظام کے حق کو یقینی بناتی ہیں۔ نیا نافذ کردہ قانون مسلمانوں کو ان بنیادی حقوق سے محروم کرتا ہے۔ سنٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ کے ارکان کے انتخاب سے متعلق ترامیم اس کا واضح ثبوت ہیں۔ مزید برآں واقف کے لئے 5 سال تک باعمل مسلمان ہونے کی شرط، ہندوستانی قانونی فریم ورک اور آئین کی دفعات 14 اور 26 کے خلاف اور اسلامی شرعی اصولوں سے بھی متصادم ہے۔
یہ ترمیمات امتیازی و تفریق پر مبنی ہیں لہذا آئین کے دفعہ 14 سے بھی راست متصادم ہیں۔ دیگر مذہبی اکائیوں یعنی ہندو، سکھ، عیسائی، جین اور بودھ کے اوقاف کو جو حقوق و تحفظات حاصل ہیں، مذکورہ ترمیمات کے ذریعہ مسلمانوں کو ان سے محروم کردیا گیا ہے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ، متعدد دینی و ملی جماعتوں اور مسلم دانشوروں نے پارلیمینٹ کی جانب سے قائم کردہ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر ان ترمیمات کے خلاف زبانی و تحریری نمائندگی کی تھی، اس کے علاوہ ملک کے 5 کروڑ مسلمانوں نے بھی جے پی سی چیئرمیں کو ای میل بھیج کر انہیں کلیاً مسترد کیا تھا ۔ لیکن پارلیمانی اور جمہوری تقاضون کے علی الرغم انہیں مسترد کردیا گیا۔ اب آخری چارہ کار کے طور پر جہان ایک طرف ہم نے قانونی راستہ اختیار کرکے اسے عدالت عظمی میں چیلنج کیا ہے، وہیں اب ہم عوام کی عدالت میں بھی جارہے ہیں۔
مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس سلسلے میں جو تفصیلی ہدایات دی ہیں اور 3 ماہ کی پرامن جدوجہد کا جو تفصیلی خاکہ پیش کیا ہے، ان شاءاللہ اسے پوری طاقت اور ایمانداری کے ساتھ بروئے کار لایا جائے گا۔ آج ہماری ریاستی کمیٹی نے غور و فکر کرکے ریاست گیر سطح کا ایک پروگرام ترتیب دیا ہے۔ ہمارے ساتھ ریاست کی تمام اقلیتی و مذہبی اکائیاں، تمام مذہبیو سیاسی شخصیات اور سول سوسائٹی کے اہم افراد بھی ہوں گے۔ یہ پورا پروگرام پر امن، دستور و قانون کے دائرے رہے گا۔
Comments are closed.