جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی

عبدالعزیز

میرے خیال سے حق کے غلبے کی کوشش نہ کرنا اور باطل کی سرکوبی سے پیچھے ہٹ جانا زندگی کی علامت نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے سچ کہا ہے کہ
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکش انقلاب
جب مسلمانوں کا زوال شروع ہوا تو ایسے علما سو پیدا ہونے لگے جو مسلمانوں کو یہ تعلیم دینے لگے کہ کشمکش زندگی سے الگ ہوکر تبلیغ دین کرتے رہو حق کا غلبہ خود بخود تمہاری جھو لی میں آجائے گا۔ ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں کو اپنے اور مسلمانوں کے لیے صرف عبادت کے معاملے میں تو نمونہ بنا نے کی کوشش کو سراہتے رہے مگر زندگی کے دوسرے میدانوں میں جدوجہد جس سے غلبہ حق یا غلبہ دین یا غلبہ انسانیت ہوسکتا ہے اسے بے دینی یا دنیا دار ی سے جوڑتے رہے ہندوستان میں اس کے جوبہت بڑے داعی ہیں جو اپنے سوا سارے ایسے لوگوں کو جو انقلاب زندگی کے قائل ہیں وہ نہ صرف علامہ اقبال کی شاعری اور خیالات کو گھٹیا کہتے ہیں بلکہ صحابہ کرام یا صحابیات رسول ؐ میں سے جنہوں نے صحابہؓ کے دور آخر میں حق کے لیے نبر د آزما ہونے کی بات کہی ہے ان کی شان میں بھی گستاخیاں کی ہیں۔ ایسے حضرات اہل کفر کے غلبہ باطل میں شامل ہو جا تے ہیں مگر اہل حق کے غلبہ حق کی کشمکش سے مسلمانوں کو دور رہنے کی نصیحت دیتے ہیں۔ سورہ صف میں اللہ تعالی آخرت کی کامیابی کو فوزالعظیم (سب سے بڑی کامیابی) کہنے کے بعد فرماتا ہے کہ ” دوسری چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی تمہیں دے گا نصرمن اللہ و فتح قریب (اللہ کی طرف سے نصرت اور جلد ہوجانے والی فتح) پھر اللہ اپنے پیارے نبی ؐسے فرماتا ہے وبشر المومنین ( اے نبی،اہل ایمان کی اس کی بشارت دے دو)۔ صحابہ کرام کی دوسری بڑی خواہش یعنی غلبہ حق کو اللہ نے یہ اہمیت دی ہے کہ ان کی یہ خواہش اللہ کے نزدیک اس قدر پسند یدہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پیشگی طور پر خبر دینے کی ہدایت فرمائی۔ پتہ نہیں باطل کے ہمدرد ان آیتوں کے کیا معنی لیتے ہیں ۔
غلبہ حق کی کوشش اگر قرآن و سنت کی روشنی میں ہواور پرامن اور جمہوری ہو جب ہی اس کے نتائج اچھے اور کار آمد ہوسکتے ہیں۔ جمہوری ماحول رہتے ہوئے غیر جمہوری طریقے کو اپنانا اپنے مقصد کو شکست دینے کے مترادف ہے۔ نبوت کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تیرہ سالہ اور مدینہ کی دس سالہ زندگی اگر پیش نظر ہو تو غلبہ حق کی کوشش میں صحیح رہنمائی ہر مرحلے پر مل سکتی ہے ۔جو لوگ قرآن وسنت کے صحیح راستے کو چھوڑ کر دین کے کسی میدان میں بھی کوشش کر تے ہیں وہ دین کی بد نامی کا سبب بنتے ہیں ۔مسلمانو ں کی ہر کوشش کا محرک فلاح آخرت اور خوشنودی رب ہونا چاہئے۔ جب ہی اللہ کی مدد اور نصرت مل سکتی ہے۔ جو لوگ آخرت کی فلاح اور کا میابی کی پرواہ نہیں کرتے ان کے لیے اللہ کی کتاب میں کوئی رہنمائی نہیں ہے۔ اللہ صرف ان کو اپنی رہنمائی سے نوازا تا ہے جو اس کی روشن راہ میں جدوجہد کرتے ہیں : ’’ جو لوگ ہماری خاطر مجاہد ہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں کے اور یقینا اللہ نیکو کاروں کے ساتھ ہے "(سورہ العنکبوت 69)
’مجاہد ہ‘ کے معنی کسی مخا لف کے طاقت کے مقابلے میں کشمکش اور جدو جہد کر نے کے ہیں اور جب کسی خاص طاقت کی نشاندہی نہ کی جائے بلکہ مطلقاً مجاہدہ کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں ایک ہمہ گیر اور ہر جہتی کشمکش کرنی ہے۔ اس کی نوعیت یہی کچھ ہے ۔اسے شیطان سے بھی لڑنا ہے جو ا س کی ہر آن نیکی کے نقصا نات سے ڈراتا ہے اور بدی کے فائدوں اور لذ توں کا لا لچ دلا تا رہتا ہے۔ اپنے نفس سے بھی لڑنا ہے جو اسے ہر وقت خواہشات کا غلام بنا نے کے لئے زور لگا تا ہے۔ اپنے گھر سے آفاق تک کے ان تمام انسانوں سے بھی لڑنا ہے جس کے نظریات‘رجحانات،اصول اخلاق، رسم و رواج،طرز تمدن اور قوانین معیشت و معاشرت دین حق سے متصادم ہوں اور اس فاسد طاقت و قوت سے بھی لڑنا ہے جو خدا کی فرمانبرداری آزاد ہو کر اپنا فرما ن چلانے اور نیکی کے بجائے بدی کے فروغ دینے میں اپنی قوتیں صرف کرے۔ یہ مجاہد ہ ایک دو دن کا نہیں ہے عمر بھر کا اور دن کے چوبیس گھنٹے میں ہر لمحہ کا ہے۔ اور کسی ایک میدان میں نہیں،زندگی کے ہر پہلو میں ہر محاذ پر ہے۔ اسی کے متعلق حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں ’’آدمی جہاد کر تا ہے خواہ کبھی ایک دفعہ بھی تلوار نہ چلا ئے ‘‘( تفہیم القرآن۔ جلد 3)
سورہ العنکبوت کی آخری آیت میں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ’’ جو لوگ ہماری خاطر مجاہد ہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے‘‘ ’’یہاں اللہ یہ اطمینان دلا رہا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں اخلاص کے ساتھ دنیا بھر سے کشمکش کا خطرہ مول لے لیتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ ان کے حال پر نہیں چھوڑ دیتا بلکہ ان کی دستگیری اور رہنمائی فرما تا ہے اور اپنی طرف آنے کی راہیں ان کے لیے کھول دیتا ہے۔وہ قدم قدم پر انہیں بتا تا ہے کہ ہماری خوشنودی تم کس طرح حاصل کر سکتے ہو۔ ہر موڑ پر انہیں روشنی دکھاتا ہے کہ راہ راست کدھر ہے اور غلط راستے کون سے ہیں۔ جتنی نیک نیتی اور خیر طلبی ان میں ہوتی ہے اتنی ہی اللہ کی توفیق اور ہدایات بھی ان کے ساتھ رہتی ہے‘‘(تفہیم القرآن جلد3)

E-mail:[email protected]
Mob:9831439068

Comments are closed.