مجھے بتا تو سہی اور کا فری کیا ہے؟

 

عبدالعزیز

پورے سچ کو قبول کرنا ہر فرد اور ہر جماعت کے لئے آسان نہیں عیسائیوں کا ایک ادارہ ہے جو سیوا دل کے نام سے جانا جاتا ہے ۔موتی جھیل کے قریب لاریٹو اسکول کلکتہ کے پیچھے ہے ۔اکثر اس کے ذمے دار جب مذاہب عالم پر کوئی اجتماع ہوتا تو خاکسار کو بلا تے تھے ۔ایک با ر بلجیم سے عیسائیوں کا بیس پچیس افراد پر مشتمل ایک وفد کلکتہ آیا تھا تو ان لوگوں نے مجھے دعوت دی ۔ مجھے ہندوستان کے پس منظر میں اسلام پر گفتگو کرنی تھی جب میری گفتگو ختم ہوئی تو انہوں نے مرتد اور دیگر موضوعات پر سوالات کئے تو میں نے جواب دیا ۔جب انہوں نے عیسائیت کے متعلق میری رائے جاننا چاہا تو میرے دل میں اچانک یہ خیال آیا کہ اس وفد کو عیسائیت کی رہبانیت اور اسلام کی ربانیت پر کھل کر انہیں بتا دیں پھر ملاقات ہو نہ ہو۔ میں نے اپنا حق اللہ کے فضل و کرم سے ادا کردیا ۔ اس سے وہ غالباً خوش نہیں ہو ئے پھر کبھی نہیں بلایا ۔ ایک مقامی مسجد میں نماز جمعہ سے پہلے میری تقریر ہوتی تھی ایک جمعہ کو شرک و بدعت پر ایک صاحب علم کے حوالے سے ایک اخبار میں کئی مضامین شائع ہوئے تھے۔ ان مضامین سے میرے دل میں شرک کے خلاف کچھ زیادہ ہی جذبات ابھر آئے قرآن وحدیث کی روشنی میں شرک کی حقیقت بیان کی اور بیس پچیس سال کا ایک واقعہ بھی بیان کر دیا ۔واقعہ کلکتہ سے تقریباً ایک سو کیلومیٹر کے دور کونٹائی کا تھا۔ ایک جلسہ میں گیا تھا وہاں ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ گائوں میں ایک مسجد کے سامنے مزار پر ایک خاتون ہر روز حا ضری دیتی تھی اور صاحب قبر سے اولاد کیلئے دعا کرتی تھی۔ اللہ نے اسے اولاد دے دی ایک ماہ کے بعد بچے کی موت ہوگئی ۔ماں جذبات سے اس قدر مغلوب ہو ئی کہ بچے کی لاش لے کر مزار پر حاضر ہوئی ۔مزار کی طرف رخ کرکے کہا بابا آپ نے مجھے اولاد دی تھی اور مسجد کی طرف رخ کر کے کہا اللہ آپ نے لے لیا ۔اس کے بعد میں نے بتایا کہ موت وحیات صرف اللہ کے ہاتھ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نمرود کے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا: ’’ کیا تم نے اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا تھا ؟ جس نے ابراہیم ؑ سے جھگڑا اس بات پر کیا کہ ابراہیمؑ کارب کون ہے اور اس بنا پر اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی جب ابراہیم ؑ نے کہا کہ ’’ میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے تو اس نے جواب دیازندگی اور موت میرے اختیار میں ہے۔ابراہیم نے کہا ’’اچھا اللہ سورج مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال لا یہ سن کر منکر حق ششد رہ گیا۔ مگر اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دیکھا یا کرتا (سورہ البقرہ :256؍ 258) دوچار گھنٹے کے بعد میرے پاس فون آیا کہ آپ کو میرے علما سے منا ظرہ کرنا ہوگا نہیں تو آپ کو آئندہ جمعہ میں تقریر کرنے نہیں دیں گے ۔میں نے ان سے کہا مجھے مناظرہ کرنا نہیں ہے ۔آپ سمجھ لیجئے آپ کے علما سے میں ہار گیا ۔کچھ دنوں کے بعد شرک پر میرا ایک مضمون ایک مقامی اخبار میں چھپا ۔پھر ان کا فون آیا کہ میں سمجھ گیا کہ یہ آپ کا مضمون ہے آپ کہاں رہتے ہیں میں جانتا ہوں۔ میں نے کچھ جواب دینا مناسب نہیں سمجھا ان سے میری کوئی ملاقات نہیں تھی۔ متولی نے بتایا کہ وہ ٹرانسپورٹ کے لائن کے آدمی ہیں۔ ان کے ساتھ اچھے آدمی نہیں رہتے ۔ایک صاحب جو مسجد کے مصلی تھے ان کو جانتے تھے میں نے ان سے ایک سال بعد کہا جنہوں نے مجھے مناظرہ کی دعوت دی تھی ان سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں یہ جاننے کے لئے وہ میری کس بات سے ناراض ہو ئے ۔انہوں نے بتایا کہ وہ اللہ کے پیارے ہوگئے ۔انا للہ وانا الیہ راجعو ن ۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے آمین
علامہ اقبال کا یہ ہمیشہ زندہ رہنے والا شعر ہے :
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نو امید ی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
علامہ جو کچھ کہتے تھے قرآن وحدیث میں ڈوب کر کہتے تھے۔ یہ شعر شاید ہی کسی کے سمجھنے میں کوئی دشواری ہو۔ علامہ فرما رہے ہیں کہ کو اگر کوئی اللہ کو چھوڑ کر کسی اور سے امید یا بھروسہ کر تا ہے تو اس کا صاف واضح مطلب ہوتا ہے کہ اللہ سے وہ نا امید ہو چکا ہے کہ اللہ اس کی امید پوری کر ے گا بلکہ کوئی اور شخص یا شئے اس کی امید وں کا مرکز بن سکتا ہے۔ لہذا وہ دوسرے کے آستانے یا دروازے پر دستک دیتا ہے یا ماتھا ٹیکتا ہے ۔ علامہ فرماتے ہیں کہ یہی تو کافر ی کی پہچان ہے۔ اگر جسے خدا کی قدرت اور رحمت پر امید ہوتی تو وہ خدا وند قدوس کا دروازہ کسی قیمت پر نہیں چھوڑ تا اور نہ در در کی ٹھوکریں کھا تا کوئی سوالی اگر یہ سمجھتا ہے کہ فلاں کے دروازے سے اس کی جھولی بھر جائے گی تو پھر وہ کیوں دوسرے کے دروازے پر جاتا‘کوئی مریض ایک ڈاکٹر کو چھوڑ کر دوسرے ڈاکٹر سے اسی وقت رجوع کرتا ہے جب اس ڈاکٹر سے نامید ہوجاتا ہے کہ اس ڈاکٹر سے اس کا مرض ختم نہیں ہوگا ‘وہ آزما چکا ہے کہ اس ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا نہیں ہے۔ یہ اتنی موٹی سی بات ہے کہ آخر کون ایسا انسان ہے جو نہیں سمجھ سکتا ؟
کچھ لوگ ایسے بھی اب مسلمانوں میں پیدا ہوچکے‘ علامہ ہیں جو مادیت ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور ایمان کی اہمیت کو ختم کرنے کی تبلیغ و تشہیر کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو بھی علا مہ اقبال نے اپنی زبان میں جواب دیا ہے :
آج بھی جو ہو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
علامہ اپنے ایک اور شعر میں فر ما تے ہیں :
کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں
قرآن میں باربار اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو یقین دلایا ہے کہ ’’تم ہی کامیاب ہو گے اگر تم مومن ہو ( ایمان والے ہو)‘‘ علامہ کا ایک اور شعر ملاحظہ ہو:
ولایت‘ پادشاہی‘ اشیا کی جہاں گیری
یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتہ ایماں کی تفسیریں
علامہ کہہ رہے ہیں خدا انسان کو اپنا دوست بنا تا ہے تو ایمان کی وجہ سے اسے کچھ بھی خواہ حکومت ہی کیوں نہ ہو اسے عطا کرتا ہے تو ایمان کے باعث اور اسے علم اشیا سے نواز تا ہے تو ایمان کی بدولت۔ علامہ اقبال ایمان کے معجزات کو محدود نہیں کر رہے ہیں ۔ان کا یقین ہے کہ ایمان کا جب جب اعلیٰ معیار سامنے آئے گا‘ ایمان اہل ایمان کو ولایت اور علم کی سلطنت پہنچا ئے گا۔معلوم ہوا کہ یہاں بھی اصل چیز ایمان یا تعلق باللہ ہے ۔اس تنا ظر میں دیکھا جائے تو ہماری دنیا آج بھی معجزات کی دنیا ہے۔اتفاق سے بیسویں صدی اور ایکسویں صدی کے آغاز میں معجزات کا تجربہ دنیا کے سامنے آچکا ہے۔ بیسویں صدی میں افغانستان میں سویت یونین کی شکست کسی معجزہ سے کم نہیں ۔سویت یونین وقت کی دو سپر پاور میں سے ایک تھا اس کی تاریخ تھی کہ جہاں جاتا واپس نہیں آتا۔ مگر مجاہد ین نے ایک سپر پاور کو شکست فاش دے دی اور سویت یونین پاش پاش ہوگیا ۔اس کے نظریہ اور فلسفہ کو بھی لرزہ براندام ہونا پڑا۔ ا س سے بھی کہیں بڑی فتح مجاہدین نے دوسری سپر پاور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف حاصل کی۔ امریکہ اور مجاہد ین کی طاقت میں ایک اور ایک ارب کی نسبت ہے۔ مگر مجاہدین کی چیونٹی نے امریکہ کے ڈائناسور کو مار گرایا۔ یہ معجزہ نہیں تو پھر اور کیا ہے۔ مادی اسباب کو دیکھا جائے تو مجا ہدین امریکہ جیسی سپر پاور کو شکست دینے سے قاصر تھے ۔مگر انہوں نے امریکہ اور ان کے اتحادیوں کا بھرکس نکال دیا۔ یہاں تک کہ امریکہ ان طالبان سے مجبور ہو ا جنہیں 18سا ل سے دہشت گرد قرار دے رہا تھا اور اپنی دہشت گردی کو امن کی جنگ بتا رہا تھا۔ علامہ اقبال کا فیصلہ واضح ہے:
سبب کچھ اور ہے جس کو تو خود سمجھتا ہے
زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں
آج جو لوگ ایمان کا دعویٰ کر کے ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں ایمان اور خدا کے ناقص تصور کی وجہ سے ہے۔ انہیں نہ ایمانی قوت کا علم ہے اور نہ خدا کی لا محدود طاقت کا علم اور بھروسہ ہے۔ توکل علی اللہ وکفی با اللہ وکیلا ( اللہ پر بھروسہ رکھو اور کام بنا نے کے لئے اللہ بالکل کا فی ہے )

()()()

E-mail:[email protected]
Mob:9831439068

Comments are closed.