بہار کا الیکشن اور مسلمانوں کا کردار

عبدالعزیز
ہر الیکشن اہم ہوتا ہے اور ہر الیکشن کے دور رس نتائج ہوتے ہیں۔ بہار کے اسمبلی انتخاب کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔یہ انتخاب ایسی حالت میں ہورہاہے جب پورے ملک میں کسانوں اور مزدوروں کا احتجاج اور مظاہرہ ہورہاہے۔ دوسری بات ہے کہ مودی کی مقبولیت پہلے جیسی نہیں ہے اگر بھاجپا اتحاد کو کامیابی ملتی ہے تو بی جے پی یعنی فرقہ پرستی کو جلا ملے گی اور فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہوںگے ۔بہار کے بعد بنگال اور آسام میں الیکشن ہو ںگے اس کے اثرات ان ریاستوں میں یقیناًپڑیں گے۔ اگر اپوزیشن کا اتحاد کامیاب ہو تا ہے تو زیادہ چانس ہے کہ مغربی بنگال اور آسام میں بھی حزب اختلاف کو کامیابی مل سکتی ہے ۔لہٰذا بہار کے الیکشن کو زبردست اہمیت حاصل ہے۔ مسلمان بی جے پی کی فرقہ پرستی کے زیادہ شکار ہیں اس لیے مسلمانوں کو وہ حکمت عملی اپنانے کی اشد ضرورت ہے جس سے بھاجپا اتحاد کو شکست فاش ہو ۔
اسمبلی کے گزشتہ الیکشن میں مسلمانوں کی تمام تنظیموں نے نہایت سرگرمی سے کام کیا تھا جس کی وجہ اتحاد عظیم (مہا گٹھ بندھن ) کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔حکومت بھی عظیم اتحاد کی قائم ہوئی افسوسناک بات یہ ہوئی کہ نتیش کمار نے اتحاد سے غداری کی نتیش کے مشیر کار پرشانت کمار نے نتیش کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اسمبلی تحلیل کرکے دوبارہ الیکشن کرائیں عوام کا جو منڈیٹ ملے پھر اس کے مطابق کام کریں مگر دھوکہ دینے والے کا کوئی اخلاق اور اصول نہیں ہوتا وہ شاہ او شہنشاہ کے ہاتھوں بک چکے تھے سچائی کاراستہ چھوڑ چکے تھے اس کے بعد وہ سنگھ پریوار کا جز لا ینفک بن چکے اس وقت ان کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے ۔ بہار کے عوام ہوسکتا ہے اس بار نتیش کو ان کے وشواس گھات کا مزہ چکھائیں مسلمانوں کو تو ضرور مزہ چکھانا چاہئے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہر ایک الیکشن میں اویسی ایک فیکٹر ہوتے ہیں اس کی کئی وجہیں ہوتی ہیں سب سے بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اسدالدین اویسی کے لب ولہجہ میں دوسرا کوئی پارلیمنٹ میں بول نہیں سکتا بایاں محاذ یا دیگر سیکولر پارٹیوں کے لیڈر بولتے ضرور ہیں۔ مگر ظاہر ہے مسلم نوجوانوں کو ایسی بولی پسند ہے جواسد الدین اویسی کی طرح بولے ۔جس میں دلائل ضرور ہوتے ہیں مگر چیختے چلاتے زیادہ ہیں بی جے پی کیلئے برہنہ تلوار ہوتے ہیں ان سے پرمغز ،مدلل اور پر اثر تقریر سید شہاب الدین صاحب کی ہوتی تھی حالانکہ وہ سیکولر پارٹی میں ہوتے تھے سید صاحب کو اپنی تقریر پر بڑا اعتماد ہوگیا تھا وہ کہا کرتے تھے کہ ان کی طرح چار پانچ ممبران پارلیمنٹ میں ہوجائیں تو پارلیمنٹ کی حالت بدل جائے مگر ایک وقت آیا کہ خود کہنے لگے اسمبلی یا پارلیمنٹ کے پا نچ چھہ ممبران سے نہ حکومت کو بدل سکتی ہے نہ کسی بل میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ معاہداتی سیاست سے تبدیلی ہوسکتی ہے بشرطیکہ صاحب کردار کی پارٹی ہو۔ اگر بے کردار لوگوں کی پارٹی ہو تو اس میں بھی تبدیلی مشکل ہو تی ہے ۔
خاکسار کے طالب علمی کا زمانہ تھا پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کررہا تھا آج وقت سکندر علی ملا کی قیادت میں مسلم لیگ مغربی بنگال نے الیکشن میں حصہ لیا ۔اتفاق سے سات سیٹوں پر مسلم لیگ کامیاب ہو گئی۔ خاکسار بھی اس پارٹی میں شامل تھا۔ مسلم لیگ کے بغیر حکومت نہیں بن سکتی تھی۔ اجے مکھرجی نے بادل ناخواستہ مسلم لیگ کی شرط پر حکومت میں شامل کرلیا ۔مسلم لیگ کو تین محکمہ وزارتِ مل گیا اس کے تین منسٹر ہوگئے۔ دوماہ بعد ڈاکٹر غلام یزدانی اور سید بدرالدجیٰ جیسے لیڈروں کو حکومت نے پاکستان کی جاسوسی کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ خاکسار اور جماعت اسلامی ہند مغربی بنگال کے سابق امیر حلقہ مولانا عبد ا لفتاح نے لیگ کے صدر اور سکریٹری سکندر علی ملا اور حسن الزماں صاحبان سے ملاقات کی اور ان دونوں سے گزارش کی کہ غلط الزام دیگر دو بڑے مسلم لیڈر کو گرفتار کیا گیا ہے آپ لوگ کچھ کیجئے۔ وزیر اعلی اجے مکھرجی نہ سنیں تو حکومت سے الگ ہو نے کی دھمکی دیجئے۔ مسلسل کوشش کے باوجود مسلم لیگ نے کوئی قدم اٹھانا گوارہ نہیں کیا دوچار مہینے کے بعد حکومت بھی ختم ہوگئی۔ اس کے دو ایم ایل اے کانگریس میں شامل ہو گئے چار بھی کچھ دنوں کے بعد کانگریس کے ممبر ہوگئے صرف حسن الزماں پارٹی برسوں تک چلا تے رہے ان کی موت کے بعد ان کے صاحبزادے ڈاکٹر شمش الزماں پارٹی چلاتے رہے۔پھروہ بھی ترنمول کانگریس میں شامل ہوگئے ۔دو بار ترنمول کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے آج وہ ایم ایل اے ہیں۔
جب کانگریس کے سابق وزیراعظم نرسمہا راؤ کی مدد سے سنگھ پریوار نے بابری مسجد شہید کیا تو کیرالہ کی مسلم لیگ کانگریس کی مخلوط حکومت میں شامل تھی ۔محترم ابراہیم سلیمان سیٹھ نے جو مسلم لیگ کے بڑے لیڈر تھے کئی بار پارلیمنٹ کے ممبر تھے۔ مسلم لیگ کی قیادت سے التماس کیا کہ احتجاجاً کانگریسی حکومت سے الگ ہو جائے ۔مسلم لیگ تو کانگریس سے علیحدہ نہیں ہوئی مگر سلیمان سیٹھ کو مسلم لیگ سے نکال باہر کیا۔بعد میں انہوں نے نیشنل لیگ نام کی پارٹی تشکیل کی اس وقت اس پارٹی کے پاس ایک ایم ایل اے ہیں مذکورہ باتوں کے بیان سے یہ بتانا مقصد ہے کہ اگر صاحب کردار نہ ہو تو معاہداتی سیاست بھی بے معنی ثابت ہوتی ہے ۔تلنگانہ میں اویسی صاحب کی پارٹی حکومت میں شامل ہے مگر اس کے کسی فیصلے کو بدلنے سے قاصر بعض دفعہ اسمبلی میں تو جناب اکبر الدین اویسی کی تقریر کو حکمراں جماعت کے لیڈران کرنے نہیں دیتے خاکسار نے ویڈیو میں اکبر الدین کی بے چارگی کو دیکھا ہے۔
اگر بہار میں مسلمان اویسی صاحب کی پارٹی کو جتانے میں لگ گئے تو بہار کا وہی حال ہوگا جو مہاراشٹر کے الیکشن کا ہوا تھا۔ ممکن ہے اویسی صاحب کی پارٹی کو دوچار سیٹوں ب کامیابی ہوجائے مگر جس طرح مہاراشٹر میں مجلس دو یا تین سیٹوں پر کامیاب ہوئی لیکن پچیس سیٹوں پر مجلس کی وجہ سے بی جے پی کامیاب ہو گئی تھی یہاں بھی یہی حال ہوگا۔مہاراشٹر کی وجہ سے بی جے پی کی حکومت نہیں ہوسکی لیکن اگر مسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہونے کی وجہ سے اپوزیشن کوپچیس تیس سیٹوں پر نقصان ہوگیا تو بی جے پی اتحاد کو حکومت بنانے سے روکنا مشکل ہو جائے گا۔اگر مسلمان عقل کا ناخن نہیں لیں گے اور گزشتہ الیکشن میں جس طرح کی حکمت عملی سے بی جے پی کو شکست فاش دیا تھا تو حکومت کا ظلم آج سے زیادہ بڑھ جائے گا آج جو دہلی میں پولیس حکومت کے اشارے پر جبر و ظلم کر رہی ہے وہی بہار کی حکومت کرے گی۔ اس کے اثرات بھی پڑوس کی دو ریاستوں پر پڑ سکتے ہیں۔ مسلم نوجوان مختلف سیکولر پارٹیوں سے بدظن ہیں مگر بہار میں اچھی بات ہے کہ لالو پرساد نے کبھی بھی بی جے پی کی حمایت نہیں کی۔کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیاں اپنے نصب العین کی وجہ سے بی جے پی کی کسی قیمت پر حمایت نہیں کریں گی۔اگر اپوزیشن کی حکومت بن جاتی ہے توممکن ہے اتحاد المسلمین کو ایک سیٹ پر بھی کامیابی نہ ہو مگر بی جے پی کی شکست اور نتیش کمار کی ہار سے مسلمانوں کو یقینافائد ہ ہوگا۔ مسلمان اپوزیشن پارٹیوں سے پر زور مطالبہ کر سکتے ہیں کہ مسلمانوں کو آبادی کے تناسب کے لحاظ سے پارٹیوں میں نما ئندگی دی جائے جو پارٹی نہ تسلیم کر ے اسے ووٹ نہ دینے کی دھمکی بھی دے سکتے ہیں مگر ووٹوں کو تقسیم کر کے اپوزیشن اتحاد کو نقصان پہنچا نا اور فرقہ پرست پارٹی اور اس کے حلیفوں کو فائد ہ پہچانا کہا ں کی عقلمندی ہوسکتی ہے ؟
()()()
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
Comments are closed.