عالمی یوم خوراک اور فلسفہء بھوک

ذوالقرنین احمد
۱۶ اکتوبر کو عالمی یوم خوراک کے طور پر دنیا بھر میں منایا جاتا ہے جس کا مقصد خوراک کی پیداوار میں اضافہ کرنا بھوک مری، ناقص غذائی تغذیہ پر قابو پانا ہے۔ خوراک کو تمام انسانوں تک پہنچانے کی کوشش کرنا ہے۔
انسان کی بنیادی ضروریات میں روٹی یعنی غذا ایک اہم ضرورت ہے زندہ رہنے کیلے غذا کی ضرورت ہے اس میں کوئی امیر غریب کا فرق نہیں بچتا ہے ناہی ذات پات دھرم کا کوئی فرق ہوتا ہے تمام انسانوں کو غذا کی ضرورت ہے یعنی دنیا میں انسان جو کچھ بھی کرتا ہے اس میں سب سے اہم ضروری مسئلہ دو وقت کی روٹی کا انتظام ہے۔ پیٹ میں اگر روٹی نہ ہو تو انسان کسی کام کرنے کے لائق نہیں رہتا ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں بھوک سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کروڑوں لوگ ملک میں رات کو بھوکے پیٹ سوجاتے ہیں۔ غربت میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ حکومت چاہے کسی کی بھی ہو یہ مسئلہ قائم ہے۔ یہ بات اور ہے کہ مسلمانوں کے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور تھا جس میں آپ رضی اللہ عنہ کو رعایا کی ہی نہیں بلکہ اپنے دور خلافت میں زندہ رہنے والے جانوروں کی بھی اتنی فکر تھی وہ کہتے تھے کہ عمر کی خلافت میں اگر کوئی کتا بھوکا پیسا مر گیا تو اس کا حساب دینا ہوگا۔ لیکن آج کے جمہوری نظام حکومت کا یہ حال ہے کہ اس میں امیروں کو اقتدار میں لاکر غریبوں پر حکومت کی جاتی ہے۔
رشوت کے ذریعے حکومت قائم کی جاتی ہے اور عوام کے حقوق کو بڑے پیمانے پر غضب کیا جاتا ہے۔ جو عام بنیادی ضروریات زندگی عوام کو ریلیف پہنچانے کیلے قانون میں وضع کی گئی ہے ان حقوق کا بڑے لیڈروں سے لیکر نچلے درجے کے سرکاری ملازمین تک فیصد کے حساب سے فیصد کے مطابق کرپشن کرتے ہیں اور عوام کا پیسہ ہڑپ کر جاتے ہیں ۔ یہ حال ہر جمہوری نظام حکومت کا ہے۔ ہندوستان میں کھلے عام حکومتوں کو گرا کر اپنی حکومت بنانے کیلے لیڈروں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ اور اسکے برے نتائج عام عوام بھگتنے پر مجبور ہوتی ہے۔ ملک کرپشن حرام خوری کی وجہ سے کمزور ہوتا ہے اسکی معیشت وتجارت زوال پزیر ہوتی ہے ۔ جس سے امیروں، وزیروں سیاستدانوں سرکاری ملازمین کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے‌۔ لیکن عام عوام بھوک سے نڈھال ہوجاتی ہے۔ دو وقت کی روٹی کیلے کہی غریب بنت حوا کی عزتیں، عصمتیں، نیلام ہوجاتی ہے۔ تو کئ بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔
دنیا میں آج بھی بہت سے افراد یہ کہتے ہیں کہ انسان کا سب سے بڑا مذہب روٹی ہے۔ لیکن یہ صرف ایک تصور اسے پوری طرح تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اسلام ہی وہ سچا اور حق و انصاف پسند مذہب ہے جو انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر آزاد اپنے پیدا کرنے والے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں زندگی گزارنے کا حکم دیتا ہے۔ آج بھی لاکھوں کروڑوں بچوں کو مائیں لوریاں سنا کر تسلی دے کر کھانے کی ہنڈیوں میں چولہے پر پانی پکا کر بھوکے پیٹ سلا دیتی ہے۔ لیکن کوئی عمر انکی مدد کو نہیں پہنچتا ہے‌۔ غالباً عبیداللہ سندھی کا قول ہے کہ کسی بھوکے کو ایک وقت کی روٹی کا انتظام کردینا بھوک کے مسئلے کا حل نہیں ہے۔ بے شک یہ بات صحیح ہے کیونکہ اگر آج آپ کسی بھوکے کو روٹی دے کر یہ سمجھتے ہیں کہ آپ نے کسی بھوکے کا مسئلہ حل کردیا ہے تو یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے وہ بھوکا شخص کل کو دوبارہ کسی اور شخص کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوگا ۔ اس لیے بھوک کے مسئلہ کو حل کرنا حاکم وقت اور حکومت کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔ کیونکہ بھوک ایسی چیز ہے جو انسان کو ہر وہ کام کرنے پر مجبور کردیتی ہے جو حلال کی کی سرحد کو پار کرکے حرام کی طرف لے جاتی ہے۔
اور‌ اگر حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کیلے کوئی مستقل حل تلاش نہیں کرتی ہے تو پھر فلاحی تنظیموں کو عوامی اداروں کو جماعتوں کو یہ کام اپنے طور پر انجام دینا چاہیے لیکن یہ بات یاد رہے کہ مستقل حل تلاش کیا جائے۔ کیونکہ معاشرے میں جرائم میں اضافے کا ایک اہم سبب بھوک بھی ہے۔ اس کے کہیں پہلوں ہے اللہ والوں نے ضرورت سے زیادہ کھانے سے بھی منا کیا ہے کیونکہ یہ پیٹ بڑا پاپی ہوتا ہے اس میں اگر حرام کا لقمہ جاتا ہے تو یہ برائی اور حرام کاموں کی طرف لے جاتا ہے۔ کئی بزرگوں نے کہا ہے کہ بھوک سے انسان میں حکمت پیدا ہوتی ہے۔ وہ ہر کام کرنے سے پہلے سوچتا ہے ۔ بھوک انسان کو اپنے حقیقی رب کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ تو کئی یہی بھوک گمراہی کی طرف بھی لے جاتی ہے۔ انسان کے اعضاء سے جو عوامل سرزد ہوتے ہیں اس میں غذا کے حرام یا حلال ہونے کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ جیسی کمائی کی غذا انسان کے پیٹ میں جاتی ہے ویسے ہی اعمال انسان کرتا ہے اور اتنا ہی نہیں بلکہ حرام کی غذا کے استعمال کا اثر نسل در نسل بھی منتقل ہوتا ہے۔ یہ بات اور ہے کہ اللہ تعالٰی کسی شخص کو بعد میں ہدایت دے۔

آج مسلمانوں کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے علماء اکرام کو مساجد سے جمعہ کے خطبات میں یہ بات ہر ہفتہ بیان کرنی چاہیے کہ سود، ،زنا، رشوت، جوا، سٹہ، شراب، شرط لگانا، ان جیسی تمام کمائی حرام ہے۔ ایسی کمائی سے پروان چڑ‌نے والی قوم بزدل ہوجاتی ہے انکی نسلیں راہ ہدایت سے محروم ہوجاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں حرام خوری ایک عام بات ہوچکی ہے اور کچھ جبہ و دستار والوں کا یہ حال ہے کہ بینک سے ملنے والے سود کو جائز قرار دیتے ہیں۔ اور پوری قوم کو گمراہی اور تنزلی کی طرف اور اللہ کے عزاب میں دھکیل دیتے ہیں۔ خدارا ایسے علمائے کرام سے مسائل معلوم کیجیے جو حقیقت میں نائبین ممبر رسول ﷺ کے حقدار ہے ورنہ یہ افراد قوم‌ کو گمراہ کرتے رہے گے۔

Comments are closed.