اسیران کشمیرپرعقوبت کاداروگیر

عبدالرافع رسول
یہ کوئی اٹکل کے تیرہیںاورنہ کوئی تخمینی باتیں بلکہ علیٰ رئوس الاشہادیہ ایک اظہرمن الشمس حقیقت ہے کہ بھارتی رام راج بھی برطانوی سامراج کے نقش قدم پرگامزن ہے اوربالآخراسے بھی کشمیراسی طرح چھوڑناپڑے گاجس طرح برطانوی سامراج کوبرصغیرسے اپناتسلط ختم کرناپڑا۔بھارت کے مختلف عقوبت خانوں تہاڑ،سنگرور،آگرہ ،بنگلور،ہریانہ ،ہیرانگر،کوٹ بلوال جموں اورامپھلامیںپابند سلاسل اسیران کشمیرپرمصائب کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیںان کی صحت انتہائی نا گفتہ بہہ اورصورتحال زبردست پریشان کن ہے ۔منقبض اسیران کشمیرکے رنج و محن، ابتلائیں اورکلفتیںاوران پرداروگیراس قدرسخت ہے کہ وہ زندہ لاشیں بن چکے ہیں۔مرقومہ ہذاان تمام بھارتی عقوبت خانوں میں کشمیری اسیران کو یا تو قید تنہائی میں رکھا گیا ہے ،یا پھر انہیں ایسی سیلوں میں رکھا گیا ہے جومرگزاروں کے مقابرسے متشابہہ ہیں۔اسیران کشمیر کی دہشت ناک منظرکشی اورہنگامہ داروگیرسے یہ امرمترشح ہوتاہے کہ بھارتی رام راج برطانوی سامراج کے اس نقش قدم پرگامزن ہے اوراس کے افعال واحوال اسکے متشابہہ ہیں جس کے تحت وہ متحدہ ہندوستان میں انگریزکے خلاف چلائے جانے والی تحریک سے نمٹنے کی کوشش کررہاتھا۔جب یہ تاریخ کاحصہ ہے کہ تعذیب خانے، کالے قوانین کے نفاذ اورسلاسل کی جھنکاربرصغیرپربرطانوی سامراجیت کوقائم ودائم نہ رکھ سکاتوپھریہ کیسے ممکن ہے کہ کشمیریوں پرآزمائے جانے والے زہرناک حربے ریاست جموں وکشمیرپربھارتی رام راج کوباقی اورموجودرکھنے کے لئے ممدومددگارثابت ہونگے۔
جنیو اکنونشنIII کے (PWO) پر زنرز آف وار1949 اور دیانا کنونشن کے تحت قیدیوں کو تقریباً80 حقوق حاصل ہیں ۔ جن میں سر فہرست یہ ہے کہ قیدی کے شخصی وقار کو مجروح نہیں کیا جائے گا اور اس کے مذہبی عقائد کی توہین نہیںکی جائے گی ۔ قیدی کو علاج کی حالت میں دوائی نہ دینا یا اس کا علاج معالجہ نہ کرنا اسے عتاب کا نشانہ بناتے ہوئے چلچلاتی دھوپ میں کھڑا کرنا ، کچھ اگلوانے کے لیے اسے پانی میں ڈبو دینا ، تفتیش کے دوران اس پر تشدد کرنا اسے بجلی کے کرنٹ دینا ، پوچھ تا چھ کے دوران اس کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنا اس کے حلیے میں کوئی ایسی تبدیلی کرنا جس سے اس کی صورت مضحکہ خیز بن سکتی ہے انٹرنیشنل لاء کے مطابق ہیومن رائٹس کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے ۔جنیوا کنونشن اور ویانا کنونشن کے مطابق غیر مسلح حالت میں کسی شخص کو رفتار کای گیا ہو تو اسے قتل نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ اگر قیدی قید سے فرار ہو رہا ہو تو اس پر گولی نہیں چلائی جا سکتی ، اس کی ڈاک نہیں روکی جا سکتی ، دوران تفتیش اس کے دین اور اس کے مذہب کی توہین نہیں کی جاسکتی ۔
علیٰ الرغم ہذاکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت ایک قیدی کو بہت سارے حقوق حاصل ہیں بشمول بھارت کے پوری میں قیدیوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہا ہے وہ صاف طور پر عالمی قوانین کی توہین ہے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت حقوق انسانی کی تمام تنظیںہمیشہ اسیران کشمیر کی حالت زارپراپنی تشویش کرتی رہیں جبکہ سری نگر ہائی کورٹ باربھی بارہا اس معاملے کوابھارتارہا لیکن ان کی قوہ فکرواستدلال کے باوجود اسیروں کی اسارت اوران کے پابہ جولانی میںدرپیش سنگین مشکلات کاازالہ ہوسکا نہ ہی ان پر حراستی تشدد میں کوئی کمی محسوس کی گئی ۔ادراکات سے کلی طورپربے بہر داروغان قفس کے تفاخر بے جا کے منہ میں بظاہر گھنگھنیاں پڑ ی ہوئی ہیں وہ اپنے کرتبوں ، کہہ مکرنیوں اور بہانہ تراشیوں کے سہارے اسیران کشمیرکوجسمانی اور ذہنی اذیتیںپہنچا کرانتقام گیری کی جس راہ پر گامزن ہیں۔ اس سے یہ بات منقح ہو رہی ہے کہ جان بوجھ کر اسیران کو ایک نفسیاتی اور اعصابی دبائومیں لانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اس انتقام گیری سے ہی ’’رسیدم من بدریائے کہ موجش آدمی خور است ‘‘کے مصداق خاکستر کشمیر میں موجود چنگاریاں بدستورسلگ رہی ہیں۔اسے قبل بھی میں لکھ چکاہوں کہ بھارتی جیلوں میں ایسے کشمیری بزرگ بھی بے جرمی کی پاداش میں مقید ہیں، جن کی عمر 60سے 70سال ہے اور وہ پیرانہ سالی کی وجہ سے اکثر بیمار رہتے ہیں۔ قیدی بنائے جانے والوں میں ایسے بھی ہیں کہ جن کی عمریں ابھی 25برس سے زائد نہیں ۔ ڈاکٹرشفیع شریعتی ،ڈاکٹر قاسم فکتو ، عبدالقادرآف گوشی ،مسرت عالم بٹ ،شبیراحمدشاہ،یاسین ملک ، آسیہ اندرابی ،فہمیدہ صوفی اورناہیداختر کے بشمول تمام کے ہزاروں اسیران جن سب کانام اس مختصرکالم میں لیناممکن نہیں ہے انتقام گیری کا نشانہ بن رہے ہیں اور انہیں ہر ممکن طریقے سے تنگ اور ہراساں کیا جاتا ہے۔
بدنام زمانہ گوانتاناموبے اورابو غریب میں قیدیوں سے توہین آمیز سلوک اور ان پر انسانیت سوز اوردل ہلادینے والے تشدّدکے واقعات تومنظرعام پر آئے اور ان پر نقد بھی کیا گیا لیکن ریاست کے جموںریجن اوراسے پرے بھارت تک ایسے تعذیب خانے،ٹارچرسلز،انٹروگیشن سنٹرزاور جیلیںموجود ہیں جن کی اندرون کہانی کبھی منظرعام پرنہیں آئی اور جو گوانتاناموبے اور ابوغریب جیل سے ہرگزمختلف نہیں۔ اہل مغرب،اوربعض نام نہاد روشن خیال لبرل فاشسٹ اہلِ مشرق کتوںاور بلیوں کے ساتھ محبت رکھتے ہیںبلکہ انہیں اپنا فیملی ممبر بھی شمار کرتے ہیں۔ یہ دیکھ کر اللہ کے نیک اور صالح بندے ششدر رہ جاتے ہیں لیکن افسوس کہ کشمیری اسیران بدترین مخلوق کے قبیل سے تعلق رکھنے والے تصور کئے جاتے ہیں۔جن کشمیری مسلمانوں کو بھارتی عقوبت خانوں اور جیلوں کا سامنا کرناپڑاوہی ٹھیک جانتے ہیں کہ انہیں کن سخت اورصبرآزما مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔
بے شمار لوگ ہیںکہ جنہیں بلاوجہ اورراہ چلتے بھارتی فوجیوں نے گرفتار کیا،انٹروگیشن سنٹرز میں پہنچایا اورپھر مشقِ ستم بنادیا گیا ان کے خلاف فرضی طور مقدمات دائر کئے گئے اور پسِ دیوارِ زندان دھکیل دیا گیا۔ وہ اپنے خلاف جھوٹے مقدمات کاسامنا کررہے ہیں۔وہ یہ کہتے ہوئے اب تھک چکے ہیں کہ انہیں ان کہانیوں اورداستانوں کا علم تک نہیں ہے جوان کے ساتھ نتھی کردی گئیں اور جس کی بنیاد پر انہیں سلاخوں کے پیچھے کردیا گیا۔یہ لوگ جو جموں اوربھارت کے مختلف عقوبت خانوں میں پڑے ہوئے ہیں اور جنہیں ہر روز لمحہ بھارتی جبر و قہر کا سامنا ہے اس بات پر حیران ہیں کہ دنیا کی نام نہاد انسانی حقوق کے چیمپئن انکی طرف ایک نگاہ ڈال کیوں نہیں رہے۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اورامر واقع یہ ہے کہ جیلوں کی حالت بدترین اور ناقابلِ بیان ہے۔مختلف بہانوں کی آڑ میں قیدیوں پر بے پناہ تشدد کیا جارہا ہے اور انہیں ستایا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ جموںو کشمیرمیں دہلی کے وائسرائے اوراس کے راج’’ گورنر راج ‘‘کے دوران ہی کالے قانون جس کے ذریعے سے کشمیریوں کی گردنیں زیر تلوار پبلک سیفٹی ایکٹ میں ترمیم کی گئی اور اس کو اس قدر سخت بنایاگیا کہ اب اس قانون کے تحت سیاسی قیدیوں کو بیرون ریاست جیلوں میں مقید رکھا جاسکتا ہے ۔ 2017میںسینٹرل جیل سرینگر میں مقید نامورمجاہد نوید جٹ کی صدر ہسپتال سرینگر سے فراراختیار کرنے کی آڑ میں نہ صرف سینٹرل جیل میںمنقبض اسیران کشمیرکے رنج ومحن، غم اورکلفتوں میں اس قدراضافہ ہواکہ ان کا جینا دوبھر کیاگیا بلکہ اس کے بعداسیران کشمیرپرداروگیرمذیدسخت ہوگیااورانہیں جموں اور بیرون ریاست بھارتی عقوبت خانوں میں منتقل کیاگیا ۔ انتقام گیری کایہ عالم کہ بلالحاظ عمر جسے بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند کیا جارہا ہے تواسے ایک منصوبہ بند انتقام گیریت کے تحت ریاست کے جیلوں میں ٹھونساجارہا ہے تاکہ ان کا اقربا اور اپنے لوگوںسے رابطہ نہ رہے، یہ دراصل کشمیری مسلمانوںکے حوصلے توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ قید تنہائی میں رہ کر سرینڈر کریں۔
1990میں کشمیرکی مسلح جدوجہدکے آغاز سے اب تک اس کالے ایکٹ کے تحت ہزار وںکشمیریوں کو زینت زنداں بنادیا گیا جن میں ان گنت ایسے بھی ہیں کہ جنہیں ایک سے زائد دفعہ اس قانون کے تحت برسہا برس تک جیل کی کال کوٹھریوں میں سڑایا گیایا سڑایا جارہا ہے ۔اس مختصرمضمون میں تمام اسیران کشمیرکی رودادقفس بیان کریں البتہ چندایک کے تذکرے سے اس اندوناک صورتحال کااندازہ ہوسکتاہے کہ جن سے اسیران کشمیردوچارہیں۔ ڈاکٹرمحمدشفیع خان شریعتی ،ڈاکٹرعاشق حسین فکتوعبدالقادراوردیگرلاتعداداسیران اس کتاب کے منصہ شہودپرآنے کے وقت تک گذشتہ پچیس برسوں سے جیلیں کاٹ رہے ہیں جبکہ مسرت عالم بٹ اس وقت تک37ویں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت اسارت کے ایام کاٹ رہے ہیں ۔خواتین کشمیرکی سب سے بڑی تنظیم دختران ملت کی چیئرپرسن آسیہ اندابی تنظیم کی سیکریٹری جنرل فہمیدہ صوفی اورآج کی تاریخ تک برس ہابرس ہوگئے کہ تہاڑ جیل میں اسیرہیں۔ بیسیوںایسی مثالیں دی جاسکتی ہیںکہ کسی کشمیری اسیر کابدنام زمانہ ایکٹ ’’پبلک سیفٹی ایکٹ‘‘ کالعدم قراردیا گیا تو پولیس نے رہائی سے قبل ہی جیل کے دروازے سے ہی دوسرے کیس میں بند کردیا اور پھر اس کیس کے تحت دوبارہ سیفٹی ایکٹ نافذ کیاگیا ۔
کشمیرمیںکئی مبصرین کا خیال ہے کہ پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے بدنام زمانہ قانون کی جڑیں برطانوی سامراج کے’’ ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ ‘‘میں پائی جاتی ہیں جس کا استعمال اس وقت برطانوی حکومت نے ہندوستان میں آزادی کے متوالوں کے خلاف کیا تھا۔ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کو گاندھی سمیت ہندوستان کے ان تمام لیڈروں نے کالا قانون قرار دیکر اس کے خلاف کھل کر لب کشائی کی تھی لیکن المیہ یہ ہے کہ جس قانون کو ہندوستان کے بانی لیڈران انسانیت دشمن کہتے تھے ،برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد اسی قانون کو صرف نام بدل کر اپنایا گیا اور1967میں’’ پبلک سیفٹی ایکٹ‘‘ کی صورت میں’’ ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ ‘‘ متشکل جیسا ایکٹ عمل میں لایاگیاجس کا مقصد صرف اورصرف ظلم کے خلاف اٹھنے والی حق کی صدائوں کودبانا تھا۔اس طرح رام راج نے یہ بدنام زمانہ ایکٹ جموں و کشمیر میں1978میں نافذ کیا اوراس طرح رام راج برطانوی سامراج کے دورکی ملنے والی سزائوں کابدلہ کشمیریوں سے لینے کاعہدکیا۔ 1978میں ہی اس ایکٹ میں مزید ترامیم کی گئیں اور1990میں مذکورہ ایکٹ کو اس قدر سخت بنایا گیا جبکہ ریاست میں گورنرراج کے کا نفاذکے بعد اس ایکٹ کے تحت نظربند کشمیریوںکوریاست سے باہر کسی بھی عقوبت خانے میں رکھاجا سکتا ہے۔ انسانی حقوق کیلئے سب سے بڑی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کئی برس سے اس ایکٹ کی مکمل تنسیخ کا مطالبہ کررہی ہے لیکن بھارتی رام راج ہربار اسکی ثقیل دلیل کومستردکرتاچلاآرہاہے ۔
Comments are closed.