مفتی ظفیر الدین صاحب مفتاحی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو! اسجد عقابی

مفتی ظفیر الدین صاحب مفتاحی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو
اسجد عقابی
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب رقمطراز ہیں: مہمان نواز، نرم خو، نرم گفتار، بڑوں کا بے حد احترام کرنے والے، خوردوں پر نہایت شفیق و مہربان، تواضع و انکسار کا پیکر، ذکر اور اتباع سنت کا خاص اہتمام، سادہ مزاج، سادہ دل اور سادہ زبان، اچھے مقرر اور ان سے بڑھ کر مایہ ناز مصنف، زود قلم اور خوش رقم، زندگی بھر لوح و قلم کی رفاقت رکھی، اور مختلف موضوعات پر ہزاروں صفحات لکھے، وقت کی حفاظت کے باب میں علماء کیلئے اسوہ، اور سادہ و خاموش طریقہ پر علم و تحقیق کے کام کیلئے بہترین نمونہ، ان شمائل و خصائل کو اپنے ذہن میں ترتیب دیں، یہ ہیں مخدوم و محترم حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی۔
تاریخ پیدائش: آپ کی پیدائش21 شعبان المعظم 1344 بمطابق 7 مارچ 1926 میں دربھنگہ شہر سے پانچ کلومیٹر دور منشی شمس الدین صاحب کے گھر ہوئی۔ آپ کے والد محترم نہایت متقی و پرہیز گار تھے اور اسی وجہ سے علاقہ میں صوفی شمس الدین کے نام سے متعارف تھے۔
آغاز تعلیم: چار پانچ سال کی عمر میں گاؤں کے مکتب میں میاں جی محمد یوسف صاحب مرحوم کے پاس باضابطہ تعلیم کا آغاز ہوا۔ گاؤں کے دستور کے مطابق ابتداء میں آپ کو ہندی اور کچھ پہاڑے وغیرہ یاد کرائے گئے، اس کے بعد پھر قاعدہ بغدادی اور عم پارہ پڑھایا گیا۔ چند دنوں بعد آپ اپنے چچازاد بھائی امیر شریعت خامس مولانا عبد الرحمن کی معیت میں، جو ان دنوں نیپال کے ایک مدرسہ میں استاد تھے، تشریف لے گئے۔ پانچ سال کی عمر، لیکن اللہ نے آپ کو بلا کا ذہین بنایا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں قرآن مجید مکمل کرلیا۔ اور اردو کی متداول کتابیں مولانا عبد الرحمن سے پڑھنے کا شرف ملا۔ دو ڈھائی سال بعد، جبکہ آپ سن شعور کو بھی نہیں پہنچے تھے، مدرسہ وارث العلوم چھپرہ منتقل ہوگئے۔ یہاں فارسی کی ابتدائی کتابیں اور عربی درجات کی کتابیں پڑھیں۔ وارث العلوم میں قیام کے دوران آپ نے طلباء کی تقریری انجمن کی بنیاد ڈالی، جس میں ہر ہفتہ مختلف طلباء اپنی تقاریر پیش کیا کرتے تھے۔ علاوہ ازیں، آپ نے القاسم نام سے ایک پرچہ نکالنا شروع کیا، جس میں طلباء حصہ لیتے تھے۔ آپ کے انہی ذوق و شوق کی بنا پر اللہ نے آپ کو باکمال خطیب اور بے مثال محرر بنا دیا تھا۔
مفتاح العلوم مئو میں: 9 شوال 1359 بمطابق 1940 میں آپ اعلی تعلیم کے حصول کیلئے مفتاح العلوم تشریف لے گئے۔ اس زمانہ میں مولانا حبیب الرحمن اعظمی محدث اعظمی کا علم حدیث میں ہر طرف شور و غوغا تھا۔ آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کیلئے دور دراز سے طلباء آلام و مصائب برداشت کرکے پہنچا کرتے تھے۔ محدث اعظمی کی صحبت اور نظر عنایت کا اثر تا دمِ حیات آپ کے ساتھ قائم رہا۔ زندگی کے ہر موڑ پر آپ نے اپنے استاد محترم کو اپنے ساتھ پایا، اگر کبھی خطوط وغیرہ بھیجنے میں تاخیر ہوجاتی تو حضرت محدث اعظمی صاحب خود خطوط کے ذریعہ حال و احوال دریافت کیا کرتے تھے اور ہمیشہ اتباع سنت اور خلوص نیت کی تلقین فرماتے تھے۔
تحریک آزادی میں حصہ داری: مفتاح العلوم کی طالب علمی کے زمانے میں ہی، 1942 میں ہندوستان چھوڑو تحریک اپنے شباب کو پہنچ چکی تھی۔ ہر جانب آزادی اور غلامی سے خلاصی کی تدابیر اپنائی جارہی تھی، شہر شہر قریہ قریہ آزادی کے متوالے جوش و خروش کے ساتھ سفید فام حکومت کی مخالفت کررہے تھے، آپ نے بھی شوق سے اس میں حصہ لیا۔ مئو کے اسکولی طلباء اور مدارس کے طلباء سب آپ کی زیر قیادت اس تحریک میں حصہ لے رہے تھے۔ مختلف جلوس نکالے گئے، کئی دیگر ایسے کام انجام دیئے گئے جن کی وجہ سے کئی لوگوں کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری ہوگیا۔ نتیجتاً آپ کو تعلیمی سلسلہ ترک کرکے ایک سال کیلئے گھر بیٹھنا پڑا۔
ایک سال بعد جب وارنٹ منسوخ ہوگیا تو دوبارہ آپ مئو تشریف لے گئے اور حضرت محدث اعظمی کی زیر سرپرستی 1944 میں دورہ حدیث کی تکمیل فرمائی۔
تدریس کا آغاز: 1364 ہجری میں، محدث اعظمی کی درخواست پر آپ کو باضابطہ مفتاح العلوم کیلئے بحیثیت استاد منتخب کیا گیا، علاوہ ازیں، فتویٰ نویسی اور دیگر اہم امور بھی آپ کو تفویض کئے گئے۔ محنت، جفا کشی، تندہی، کتاب دوستی، تحقیق و جستجو کی فکر مندی نے آپ کو قلیل مدت میں طلباء کے درمیان مقبول بنا دیا۔ طلباء کا رجوع عام آپ کی جانب ہونے لگا۔ تقریر و تحریر دونوں میدانوں میں آپ ہر ممکنہ طور پر طلباء کی راہنمائی فرماتے تھے۔
ندوہ العلماء میں داخلہ: سال کی تکمیل کے بعد آپ وطن تشریف لے گئے، رمضان بعد واپسی ہوئی، بعض وجوہات کی بنا پر مدرسہ سے علیحدگی کی اختیار کرلی اور اپنے استاد محترم کے مشورہ سے ندوہ العلماء میں داخلہ لینے کا ارادہ کرلیا۔ علامہ سید سلیمان ندوی کی شفقت اور ان کی دعائیں شامل حال تھی۔ 1945 میں آپ نے جب ندوہ العلماء میں داخلہ لیا تو اس وقت تقریباً سو طلباء زیر تعلیم تھے۔ آپ نے حضرت شاہ حلیم عطا، مولانا حمید الدین، مولانا محمد ناظم صاحب اور مولانا اسحاق رحمہم اللّٰہ سے کسب فیض کیا۔ حضرت علی میاں ندوی سے استفادہ کا خصوصی موقع میسر ہوا، لیکن ندوہ العلماء میں قیام کی مدت بہت مختصر رہی۔
نگرام کا سفر: ندوہ العلماء کے استاد مولانا اویس ندوی صاحب جو مفتی صاحب کے احوال و کوائف سے واقف تھے انہوں نے اصرار کیا کہ آپ فراغت کے بعد مزید وقت دے رہے ہیں جبکہ ہمارے مدرسہ کیلئے ایک ایسے عالم کی ضرورت ہے جو صدر مدرس کے عہدہ اور مشکوہ شریف وغیرہ کے اسباق کے ساتھ انصاف کرسکیں۔ میری نظر میں آپ مناسب ہیں۔ ان کا اصرار بڑھتا رہا، بالآخر علامہ سلیمان ندوی اور استاد محترم حضرت محدث اعظمی کے مشورہ سے نگرام منتقل ہوگئے۔ نگرام میں قیام کے دوران، عہدہ صدارت، مسجد کی امامت، جمعہ کی خطابت اور طلباء کی تربیت تمام امور بحسن وخوبی انجام دیا۔ اسی زمانہ میں آپ نے اپنی مشہور تصنیف” اسلام کا نظام مساجد” کو مرتب کرنا شروع کیا۔ آپ کی یہ پہلی کاوش تھی، لیکن اس کام کیلئے آپ نے بالاستیعاب مکمل قرآن مجید اور مشکوہ شریف کا از سر نو مطالعہ کیا تاکہ مسجد سے متعلق تمام آیات و احادیث کو یکجا کیا جائے۔ آپ کی اس کاوش کو علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا مناظر احسن گیلانی، محدث اعظمی، مولانا علی میاں ندوی جیسے جبال علم نے سراہا ہے اور بیش قیمتی مشوروں سے نوازا ہے۔ دو سال بعد 1947 میں جب ملک آزاد ہوا تو حالات کے پر خطر ہونے کی وجہ سے آپ دسمبر 1947 میں وطن واپس ہوگئے۔
مدرسہ معینیہ سانحہ کی مدرسی: ملک کے پرآشوب اور ہنگامہ خیز حالات اس بات کی اجازت نہیں دے رہے تھے کہ، دور دراز کے علاقوں کا سفر کیا جائے۔ دوسری جانب اہل خانہ کا اصرار، ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت محدث اعظمی کے مشورہ سے 16 جنوری 1948 کو آپ مونگیر کیلئے روانہ ہوگئے۔ سانحہ نامی اس گاؤں میں مدرسہ نہیں بلکہ مدرسہ معینیہ ایک مکتب تھا، جس میں علاقہ کے چند طلباء ناظرہ اور حفظ کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ دو اساتذہ تھے، اور تعلیم علاقہ کے ایک صاحب ثروت دیندار فاضل بابو کے گھر کے چبوترے پر ہوتی تھی۔ مشکوہ شریف اور ہدایہ وغیرہ پڑھانے کے بعد یکدم فارسی کی ابتدا کرنا مفتی صاحب کیلئے صبر آزما ثابت ہوا، آپ نے استقامت کے ساتھ تدریسی سلسلہ کو جاری رکھا۔ سانحہ میں قیام کے دوران آپ نے تدریس کے علاوہ تقریر و خطابت کے ذریعہ عوام الناس کی راہنمائی کا شغل جاری رکھا۔ چند دنوں میں آپ کی مقبولیت عروج پر تھی۔ ہر کوئی آپ کی محنت شاقہ اور خلوص کی بنا پر آپ کا دلدادہ تھا۔ اسی اثناء میں آپ کو حضرت محدث اعظمی کی جانب سے ڈابھیل جانے کی پیشکش ہوئی۔ اس وقت ڈابھیل میں حضرت مولانا یوسف بنوری صدر المدرسین تھے۔
مدرسہ تعلیم الدین ڈابھیل کی درسگاہ میں: آپ 1 محرم 1368 ہجری کو ڈابھیل پہنچے۔ مولانا اسلام الحق اعظمی اور مولانا اطہر مبارک پوری سے قدیم شناسائی تھی جو وہاں پہلے سے موجود تھے۔ آپ کے ذمہ جلالین شریف، ہدایہ، مشکوہ شریف اور ابن ماجہ کے اسباق دیئے گئے۔ نوجوانی کا عالم تھا، مفتی صاحب اپنی سوانح میں لکھتے ہیں کہ طلباء میری عمر سے کچھ ہی کم ہوں گے۔ تقریباً ایک ماہ بعد آپ کی طبیعت خراب ہوگئی۔ علاج و معالجہ سے کچھ افاقہ نہیں ہوا۔ مولانا یوسف صاحب بنوری جو خود طبیب حاذق تھے، انہوں نے بھی کئے نسخے لکھ کر دیئے لیکن”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی” بالآخر آپ نے علامہ سید سلیمان ندوی اور اپنے استاد محترم محدث اعظمی کے مشورہ سے ڈابھیل چھوڑ دیا اور دوبارہ سانحہ تشریف لے آئے۔
مدرسہ معینیہ کی تعمیر: ڈابھیل سے واپسی کے بعد آپ نے سانحہ میں مستقل قیام کا ارادہ فرما لیا۔ آپ نے مدرسہ کی تعمیر کیلئے جد وجہد شروع کی اور چند دنوں میں زمین اور دیگر ضروریات جمع ہوگئے۔ 12 دسمبر 1949 کو باضابطہ مدرسہ کی بنیاد رکھی گئی۔ آپ نے چھٹی کے اوقات کو بھی مدرسہ کی تعمیر و ترقی کے نظر کردیا تھا۔ مسلسل کوشش اور سعی پیہم کے نتیجہ میں دو کشادہ کمرے، ایک آفس اور ایک وسیع و عریض چبوترہ کا کام مکمل ہوگیا۔ سانحہ میں قیام کے دوران علامہ سلیمان ندوی کے توسط سے مولانا منت اللہ رحمانی سے گہرا تعلق پیدا ہوگیا۔ آپ وقتا فوقتاً خانقاہ میں حاضر ہوا کرتے تھے اور وہاں موجود کتابوں سے بھر پور استفادہ کیا کرتے تھے۔ چنانچہ 1952 میں جب مدرسہ معینیہ کی پختہ عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا تو اس وقت شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی مونگیر میں قیام پذیر تھے۔ مولانا منت اللہ رحمانی اور شیخ الاسلام کے دست مبارک سے اس نیک کام کو شروع کیا گیا۔
کتب خانہ رحمانی کے افتتاحی پروگرام میں شرکت: مونگیر میں حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی نے کتب خانہ کی افتتاحی تقریب میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی اور حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب کو مدعو کیا تھا۔ مفتی صاحب نے اس پروگرام میں کتب خانے کی اہمیت و افادیت پر ایک بیش قیمتی مقالہ پیش کیا۔ آپ کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ یہ مقالہ مستقبل کیلئے کیا حیثیت رکھتا ہے۔ پروگرام کے اختتام پر آپ مدرسہ تشریف لے آئے۔ اسی درمیان رمضان المبارک کی چھٹی گزارنے کیلئے آپ اپنے وطن مالوف روانہ ہوگئے۔
سانحہ میں رمضان المبارک میں دارالعلوم دیوبند سے ایک سفیر پہنچے، انہوں نے علاقے کے مختلف افراد سے مفتی ظفیر الدین صاحب کے متعلق معلومات اکٹھا کرنا شروع کردیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب اس علاقہ میں دیوبند سے کوئی سفیر بھیجا گیا ہو، لوگ حیرت زدہ تھے کہ یہ کیوں مفتی صاحب کے متعلق استفسار کرتے پھر رہے ہیں۔ 1375 ہجری ذیقعدہ کے دوسرے ہفتہ میں آپ کو دارالعلوم دیوبند کا خط ملا، جس میں دارالعلوم کے لیٹر پیڈ پر آپ کا نام جلی حروف میں لکھا ہوا تھا۔ حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کا خط تھا جس میں آپ کو دارالعلوم دیوبند کی جانب سے پیشکش کی گئی تھی، اور آپ سے آپ کی تصانیف اور مقالات بھیجنے کی درخواست تھی۔ ان امور کی انجام دہی کے بعد 1 ستمبر 1956 کو حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب کا دوسرا دستی خط موصول ہوا کہ آپ کی تقرری ہوچکی ہے۔ آپ دیوبند تشریف لے آئیں۔
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
دارالعلوم دیوبند کو آپ نے اپنی زندگی کے تقریباً پچاس سال دیئے، ان ایام میں آپ نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دارالعلوم میں آپ کی کیا خدمات ہیں اور آپ کن کن شعبوں سے وابستہ رہے ہیں یہ ان شاءاللہ دوسری قسط میں پیش کیا جائے گا۔
Comments are closed.