جمہوری نظام شکوہ کناں ہے : الیکشن اے الیکشن تو نے تو رسوا کر دیا  تحریر: مسعود جاوید

جمہوری نظام شکوہ کناں ہے : الیکشن اے الیکشن تو نے تو رسوا کر دیا

 

تحریر: مسعود جاوید

 

جمہوریت کی تعریف definition تو یہ تھی کہ جمہوری ریاست جمہوری نظام اور جمہوری حکومت عوام کے لیے ہو عوام کے ذریعے تشکیل دی گئی ہو اور عوام ہی اپنے نمائندوں کے ذریعے اسے چلاۓ۔ لیکن کیا ایسا ہو رہا ہے؟

جمہوری نظام کی روح آزادانہ انتخابات ہے اس کا بہترین مظاہرہ متعینہ مدت میں انتخابات کا ہونا ہے۔ یا یوں کہیں کہ انتخابات کے دن عوام کو اپنی حقیقی جمہوری طاقت کے استعمال کا موقع ملتا ہے۔ یعنی عوام ایک دن کے لئے بادشاہ ہوتی ہے جو طے کرتی ہے کہ زمام اقتدار کسے سونپا جائے ‌۔

لیکن افسوس اس مقدس جمہوری عمل کو سیاسی بازیگروں نے بدنام کر دیا ہے۔ صاف ستھرے انتخابی عمل کا تصور آج کے دور میں عنقا ہے۔ پیسوں کے ریل پیل اور جھوٹے وعدوں کی جھڑیاں لگانا انتخابی مہم کا لازمی حصہ بن گیا ہے۔ ٹکٹ حاصل کرنے سے لے کر ووٹ دینے تک ہر جگہ پیسے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے میں بے بس عوام اپنے حقیقی نمائندوں کو پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں کس طرح بھیجیں۔ اور ظاہر ہے جب ان کے نمائندوں کی اکثریت ان ایوانوں میں اقلیت میں ہوگی تو اکثریت کی حکومت بنے گی جب اکثریت کی حکومت بنے گی اور اقلیت کمزور اپوزیشن ہوگی تو قوانین اکثریت کی مرضی کے بنیں گے۔ اسی لئے پولیٹیکل سائنس کے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ مطلق اکثریت absolute majority مطلق العنانیت dictatorship میں تحویل ہو جاتی ہے۔ کیا ایسی صورت میں پارلیمنٹ اور اسمبلیز میں مخصوص نظریہ رکھنے والوں کی اکثریت کا سواد اعظم کی نمائندگی کا دعویٰ کرنا درست ہوتا ہے ؟ ظاہر ہے نہیں۔

اب سے کچھ سال قبل تک پیسوں اور جات پات کی بنیاد پر الیکشن جیتے جاتے تھے۔ اس سے مخصوص نظریہ والوں کے مقاصد پورے نہیں ہو رہے تھے اسی لئے انہوں نے سب سے موثر حربہ مذہب کا استعمال کیا اور فرقہ پرستی کا زہر پورے سماج میں گھول دیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ دوسری تمام پارٹیاں مقامی ایشوز مدعوں کی بات کر رہی ہیں تو مخصوص نظریہ والے کسی نہ کسی طرح سماج کو مذہب کے نام پر بانٹنے کے درپے ہیں۔

لیکن موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ بہار کے انتخابی مہم میں بی جے پی کے وہ روایتی ہتھکنڈے کارگر نہیں ہو رہے ہیں۔ خود بی جے پی کی حلیف پارٹی کے ترجمان اس بیانیہ کے خلاف ہیں جو بی جے پی کے ریاستی صدر نے کہا کہ اگر راجد کی حکومت بنتی ہے تو کشمیری دہشت گر گھس آئیں گے۔ سیاسی حلقوں میں اس کی مذمت ہو رہی ہے اور عوام مطالبہ کر رہی کہ بہار الیکشن میں بہار کے حقیقی مسائل پر گفتگو ہو نہ کہ دہشتگردی اور پاکستان پر۔

این ڈی اے کی طرف سے جو سنہرے خواب دیکھاۓ جا رہے ہیں عوام اس پر کان دھرنے کو راضی نہیں۔ عوام پوچھ رہی ہے کہ ٢٠١٦ میں بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے کے وعدے کا کیا ہوا؟ بہار کو ڈرامائی انداز میں بولی لگا کر ١٢٥ سو کروڑ دینے کے وعدے کا کیا ہوا؟ پچھلے ١٥ سالوں میں ترقیاتی کام کیوں نہیں ہوۓ ؟ غیر منصوبہ بند لاک ڈاؤن کے نتیجے میں مہاجر مزدوروں کی واپسی کے تعلق سے مرکز اور نیتیش حکومت کا غیر انسانی رویہ کیوں تھا ؟

بی جے پی اور نیتیش کمار پر لوگوں کا اعتماد نہیں رہا اور لوگ چراغ پاسوان کی حرکتوں کو بھی بی جے پی کا خفیہ منصوبہ سمجھ رہے ہیں۔

تیجسوی اور راہل کے جلوس میں جو مجمع نظر آتا ہے وہ اس بات کا واضح اشارہ دے رہا ہے کہ اس بار بہار میں این ڈی اے کی حکومت نہیں بنے گی الا یہ کہ آخر وقت میں ووٹنگ ہندو مسلم کے ایشو پر ہو جائے۔

Comments are closed.