ہم لوگ سب کچھ بھول گئے!! محمد صابر حسین ندوی

ہم لوگ سب کچھ بھول گئے!!

 

 

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]

7987972043

 

 

تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا

عرش والوں پہ بھی کھُلتا نہیں یہ راز ہے کیا!

تا سرِ عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا!

آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا!

غافل آداب سے سُکّانِ زمیں کیسے ہیں

شوخ و گُستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں!

ہم بھول گئے کہ ہماری رگوں میں ان مقدس ہستیوں کاخون دوڑتا ہے جنہوں نے دنیا کو نیزے پر رکھا، بادشاہت، سلطنت اور قوت و طاقت کو تلوار کی نوک پر رکھتے ہوئے دنیا کو سرنگو کردیا، انہوں نے روایات کی پاسداری کی، عزت و توقیر کو بحال کیا، انسانیت کی عظمت اور محبت و مودت سے دنیا کو روشناس کروایا، انہوں نے دین الہی کیلئے جنگلوں کو خالی کروایا، سمندر میں گھوڑے ڈال دئے، فتح کا علم لیکر قلعوں میں گھس گئے، خیبر کی مضبوط دیواروں کو توڑنے کے ساتھ یہ سلسلہ شروع ہو کر کہاں کہاں نہ پہونچا، قسطنطنیہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی، جس کو دنیا غیر معمولی سمجھ کر اس کی طرف آنکھ اٹھانے کو حماقت سمجھتی تھی، صلیبی و صہیونیوں کے جالوں کو توڑا، بھید بھاؤ اور چھوت چھات کے مرض کو دور کیا، دنیا کو ایک ایسا گہوارہ بنیادیا کہ فرشتے بھی رشک کریں، انسانی چہرے مسکراہٹ سے کھل جائیں، چشم فلک دیکھ کر مسکرائے، بھائی بھائی کا دوست بنا، دشمن کیلئے تلوار سونتی گئی، باطل کو ریزہ ریزہ کیا گیا، شیطان کے پھندے کاٹے گیے، دنیا کا سحر توڑا گیا، اس جادو کو بھی پاش پاش کیا گیا جس کو لیکر پاپائیت نے دنیا کو غلام بنایا تھا، اور برہمنیت نے معاشرے کو ٹکڑوں میں بدل دیا، اور انسانی سروں کو بعض اوہام میں الجھا کر اور اپنی استعماریت و سرمایہ داری کےضابطے میں قید کر کے حقیر و فقیر بنا دیا تھا، انسان جینے کے بجائے ناجائز ٹیکس کے تلے دب کر مرنے کو ترجیح دینے لگا تھا، بہت سی جگہوں پر مذہب کا رنگ لیکر مذہب کو ہی ہتھیار بنانے کی کوشش کی گئی اور تقدس کا ایک ایسا ہالہ بنایا گیا کہ دنیا دنگ رہ گئی، مگر ہمارے آباء و اجداد کی جد و جہد اور جہاد نے سب کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دیا اور دنیا کو اس کے حقیقی نقطہ پر لاکھڑا کیا.

ہم بھول گئے کہ دنیا ہمارے سامنے ناک رگڑتے پوئے آئی تھی، ایران و روم کی گدیاں ہمارے جوتے کی نوک پر رکھے دئے گئے تھے، شہنشاہیت کو پارہ پارہ کرنے والے ہم ہی تھے، تاج و تخت کو نوچ کر انسانیت کو اٹھان دینے والے اور کلیساؤں کے ظلم سے سبھی کو بچا کر ایک باپ و ماں کے دھاگے میں پرونے والے ہم ہی تھے، آج دنیا میں ہماری حیثیت کیا ہے؟ ہم ایک اپاہج، لنگڑے لولہے کی زندگی جی رہے ہیں جو ہر چیز کیلئے محتاج ہے، جو یورپ کی طرف نگاہ اٹھاتا ہے، اس کی پھینکی ہوئی روٹی سے شکم سیر ہوتا ہے، اور اپنے پرائے کا غم زمین دوز کرجاتا ہے، اب انسانیت کی رسوائی ہوتی ہے، اس کی بےعزتی ہوتی ہے، دنیا کو ہتھیاروں کا بازار، فحش کا اڈہ اور منشیات کا مرکز بنا دیا ہے؛ کیونکہ ہم بھول گئے کہ یہ دنیا ہمارے ہی کردار سے اور ہماری ہمت و عزیمت اور استقلال سے صحیح ڈھنگ پر آگے بڑھے گی، اس کے کل پرزے تبھی درست ہوسکتے ہیں جب ہم اس کے اندر اسلامی و مذہبیت کا صحیح رنگ ڈال کر مخلوط کریں گے، حق کو بلند اور باطل کو پسپا کریں گے، کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج مسلمانوں کی زندگی کسی گلی کوچے سے شروع ہو کر اسی کہ تنگنائی و تاریکی میں ختم ہوجاتی ہے، وہ جانتا ہی نہیں ہے کہ دنیا کی سیادت و قیادت کا حقدار وہ ہے، جو قرآن کریم کی دولت اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ذخیرہ سے مالا مال ہے، جس طرح ماضی میں موت و دہشت اور دنیا کی لالچ کو پرے کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو سینہ سے لگا کر دنیا کو گہوارہ عشق اور گلش محبت بنا دیا تھا، اور آج بھی بناسکتے ہیں، فاشزم، سیکولرازم کے بتوں کو توڑا جاسکتا ہے، سرمایہ داروں کی سرمایہ داری مسمار کی جاسکتی ہے، یقیناً سب کچھ ہوسکتا ہے، بس ضرورت ہے کہ بھولا ہوا سبق یاد کریں، پلٹیں اور دیکھیں کہ ہمارے ترکش میں کیسے نایاب تیر موجود ہیں، جس کے سامنے دنیا سجدہ ریز ہونے کو تیار ہے، اور ظاہری و مادی صنم خانے کو ڈھاہ کر ایک خدا کی طرف لوٹنے کی حریص ہے.

 

Comments are closed.