حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری قدس سرہ اور ان کی اصلاحی تنقیدات ( قسط سوم) خلیل الرحمن قاسمی برنی بنگلور

حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری قدس سرہ اور ان کی اصلاحی تنقیدات
( قسط سوم)
خلیل الرحمن قاسمی برنی بنگلور 9611021347
*بزرگوں کی قبروں پر جانا دیوبندیت نہیں*
آج کل امت میں بزرگان دین اور اولیاء کرام کی قبروں پر جانے کا جو سلسلہ ہے وہ بہت گمراہ کن اور دین کے لیے بہت بڑے خطرہ کی گھنٹی ہے. کئ لوگ اسی سے شرک کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں. مردوں سے زیادہ عورتوں کی بڑی تعدادمزاروں پر نظر آتی ہے. اور وہ اپنے لین مزاج کے باعث جلد خرافات کا شکار ہو جا تی ہیں.دیوبندی حلقے سے وابستہ ایک بڑا طبقہ بھی جب اس طرح کی خرافات میں مبتلا ہوتا نظر آیا تو اس پر آپ نے تنبیہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا :
اب لوگوں میں زیارت قبور کا سلسلہ تقریبا ختم ہوگیا ہے،سال گذر جاتا ہے، مگر قبرستان کوئی نہیں جاتا، زیارت قبور مامور بہ ہے، اس میں اموات کا بڑا فائدہ ہے، اور زندوں کا بھی فائدہ ہے، اپنی موت یاد آتی ہے، اور دنیا سے دل اکھڑتا ہے، پس گاہ بہ گاہ عام قبرستان میں جانا چاہئے، اس کی طرف سے غفلت ٹھیک نہیں۔اور یہ جو بزرگوں کی قبروں پر جانے کا سلسلہ بڑھتا جارہاہے، یہ دیوبندیت نہیں، یہی سلسلہ بڑھ کر قبر پرستی کی شکل اختیار کرے گا، پھر اس زیارت میں زندوں کا کوئی فائدہ نہیں، اولیاء کی قبور پر جاکر اپنی موت کو کوئی یاد نہیں کرتا، یہ مقصد تو(عام) قبرستان میں جا کر پورا ہوتا ہے، پس ہر مہینہ میں کم از کم ایک مرتبہ زیارت کے لئے جانا چاہئے۔(تحفۃ الالمعی ص 466ج3)
*قبروں پر مراقبہ، اور ذکر جہری یہ سب باتیں غیر ثابت ہیں*
حضرۃ الاستاذ علامہ محمدابراہیم صاحب بلیاوی قدس سرہ (صدر المدرسین دار العلوم دیوبند) کے ساتھ میں کئی مرتبہ قبرستان قاسمی میں گیا ہوں، جہاں سے قبرستان شروع ہوتا ہے حضرت بجلی کے کھمبے کے پاس رک جاتے تھے، اور تقریبا دس منٹ کھڑے ہو کر کچھ پڑھتے تھے پھر واپس لوٹ جاتے تھے، بس یہی سنت ہے۔
بعض لوگ قبروں پر مراقبہ کرتے ہیں، گھنٹوں سر جھکائے بیٹھے رہتے ہیں، اور بعض لوگ ذکر جہری کرتے ہیں، یہ سب باتیں غیر ثابت اور بدعت ہیں، ان سے احتراز کرنا چاہئے، اور اس سلسلہ میں کسی بھی بزرگ کا عمل حجت نہیں، حجت قرآن و حدیث اور قرون ثلاثہ کا تعامل ہے۔
جب حضرت حاجی امداد اللہ صاحب قدس سرہ کا رسالہ ”فیصلہ ہفت مسئلہ“ چھپا اور وہ حضرت گنگوہی قدس سرہ کی خدمت میں پہنچایا گیا تو آپ نے اس کو ہاتھ نہیں لگایا،بلکہ طالب علم سے فرمایا: اس کو حمام میں جھونک دو، اور فرمایا:”ہم نے حاجی صاحب کے ہاتھ پر بیعت طریقت میں کی ہے شریعت میں نہیں کی“۔
اور یہ واقعہ ہے کہ بعض حضرات انتہائی کبر سنی میں کچھ بدعات کی طرف مائل ہوجاتے ہیں، اس لئے اگر بزرگوں کا عمل کتاب و سنت کے مطابق ہے تو سر آنکھوں پر، ورنہ ع
کالائے بد بہ ریش خاوند
(تحفۃ الالمعی ص 462ج۳)
*دیوبندیت کا امتیاز مٹ رہا ہے،اکابر کی قبروں پر کتبوں کا رواج*
آج مسلمانوں کے قبرستان عیسائیوں کے قبرستان کے مثل نظر آتے ہیں. جہاں دیکھو کتبے پکی قبریں. اور تو اور دیوبند میں بھی اکابر کے مزارات کتبوں سے پر نظر آتے ہیں.اکابر کے ساتھ لوگوں کے اس رویہ اور ان کےمزارات پر کتبوں پر آپ بہت برہم ہوتے اور گاہ بگاہ اس پر تنقید فرماتے. چنانچہ (جلسہ تعزیت کاشرعی حکم )نامی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں:
دیوبندیت کا امتیاز انبیاء، اولیاء اور ان کی قبور کو صحیح مقام دینا ہے، ان کے بارے میں غلو سے بچنا ہے، مگر اب ہم بھی اولیاء کی قبور کے ساتھ وہی معاملہ کرنے لگے ہیں جن کو بدعات کے دائرے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اکابر کی قبروں پر کتبوں کا رواج عام ہوگیا ہے، جبکہ ”ترمذی شریف“ میں حسن صحیح حدیث ہے، اس میں قبروں پر لکھنے سے منع کیا گیا ہے، ہاں یہ جزئیہ فقہ میں ضرور ہے کہ بڑوں کی قبر پر لکھ سکتے ہیں، مگر بڑا کون ہے؟ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ پس ماندگان کے نزدیک تو ان کا مرحوم بڑا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ نہ مقبرہ قاسمی میں کوئی کتبہ تھا، نہ حضرت گنگوہی قدس سرہ کی قبر پر، نہ حضرت تھانوی قدس سرہ کی قبر پر، مگر اب مقبرہ قاسمی میں ہم جاتے ہیں تو عیسائیوں کے قبرستان کا سماں نظر آتا ہے۔
(جلسہئ تعزیت کا شرعی حکم ص:۹۳/۰۴)
*مسجد کے احاطہ اور مدرسہ میں بزرگوں کی تدفین منع ہے*
اب دیوبندیوں میں بزرگوں کی مسجد میں تدفین کاا ور مدارس کے بانیان کا مدرسہ میں تدفین کا عام رواج ہوچلا ہے، جبکہ حدیث شریف میں اس کی صاف ممانعت ہے، اپنی ملکیت میں تدفین تو جائز ہے، یا گور غریباں میں تدفین ہو، مسجد اور مدرسہ کسی کی ملکیت نہیں مدرسہ اس کے بانی کا ذاتی وقف نہیں، چندے سے قائم کیا گیا ہے، پھر بانی کی مدرسہ میں تدفین کا کیا مطلب؟ کل جب جہالت کا دور شروع ہوگا تو انہی قبروں کی پوجا شروع ہوجائے گی۔(جلسہئ تعزیت کا شرعی حکم ص:۱۴)
*فجر و عصر میں ائمہ کو مقتدیوں کی طرف پوری طرح منہ کرکے بیٹھنا چاہئے*
نماز کے بعد مقتدیوں کی طرف منہ کرکے بیٹھنے کا طریقہ عرب ائمہ کا صحیح ہے،وہ پوری طرح گھوم کر لوگوں کی طرف منہ کرکے بیٹھتے ہیں، اور ہمارے یہاں جو طریقہ ہے وہ کعبہ کے احترام میں اور اس کے ادب میں ایساکرتے ہیں، دائیں بائیں مڑ کر بیٹھتے ہیں تاکہ کعبہ کی طرف پیٹھ نہ ہو، حالانکہ کعبہ کی طرف پیٹھ کرنے کی ممانعت صرف مخصوص حالات میں ہے،پس عصر و فجرکے بعد ائمہ کو لوگوں کی طرف پوری طرح متوجہ ہوکر بیٹھنا چاہئے۔ (تحفۃ القاری ص۲۵۳ج۳)
*طلبہ مہمانان رسول ہیں یا سارے مسلمانوں کے مہمان ہیں* ؟
لوگوں میں مشہور ہے کہ طلبہ مہمانان رسول ہیں، حالانکہ”ترمذی شریف“ کی حدیث (۴۷۴۲) میں ان کو ”اضیاف اھل الاسلام“ مسلمانوں کا مہمان کہا گیا ہے، یعنی تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دین حاصل کرنے والوں کی کفالت کریں۔
(تحفۃ القاری ص۰۷۱ج۳)
*اب مسجدمیں ذراسی تاخیر پر بھی امام کا انتظار نہیں کرتے، یہ صحیح نہیں ہے*
ہمارے معاشرے کی ایک کوتاہی پر فرمایا:
اب ٹن کی نما زیں شروع ہوگئی ہیں جونہی گھڑی میں وقت ہوتا ہے امام کو نماز پڑھانی پڑتی ہے، وہ تاخیر نہیں کرسکتا، اور امام حاضر نہیں ہے تو کوئی بھی پڑھادیتا ہے، امام کا انتظار نہیں کرتے، یہ صحیح طریقہ نہیں۔ دور اول میں ائمہ کا مسجد پر کنٹرول تھا، ان کی مرضی کے خلاف نمازیں نہیں ہو سکتی تھیں، یہی سنت ہے۔(تحفۃ القاری ص ۵۲۴ ج۲)
*ہم نے سحری میں لوگوں کو بیدار کرنے کے لئے نبوی طریقہ چھوڑ دیا*
عہد رسالت میں رمضان المبارک کی راتوں میں جو دو اذانیں دی جاتی تھیں ان میں سے پہلی اذان سحری کے وقت کی اطلاع دینے کے لئے تھی، اوردوسری اذان فجر کے لئے تھی، ہم لوگ سحری میں لوگوں کو بیدار کرنے کے لئے دوسرے طریقے اختیار کرتے ہیں، اور جو طریقہ آپ ﷺ کا تھا اس پر عمل نہیں کرتے، یہ ٹھیک نہیں، گھنٹہ، ڈھول اور سائرن وغیرہ نہیں بجانا چاہئے، بلکہ آپ ﷺ کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔
(تحفۃ القاری ص 485ج2)
*نماز کے بعد دعا کا ترک صحیح نہیں ہے*
سلفی کہتے ہیں: اب نمازوں کے بعد دعا کا التزام ہوگیا ہے، ا س لئے اس کو بند کردینا ضروری ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ آپ لوگوں نے عدم دعا کا التزام شروع کردیا ہے، لہذا اس کو بھی بند کرنا ضروری ہے۔
اصلاح کا یہ طریقہ نہیں کہ اللہ تعالی سے مانگنا بند کر دیا جائے، یہ تو دوسری غلطی ہے، پہلی غلطی التزام دعا تھی، دوسری غلطی ترک دعا ہے، بلکہ اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ امام صاحب وقتاً فوقتاً لوگوں کو مسئلہ سمجھائیں، اور گاہ بہ گاہ اس پر عمل کرکے بھی دکھائیں، ان شاء اللہ ایسا کرنے سے لوگ صحیح بات سمجھ لیں گے۔(علمی خطبات ص۳۵ج۲)
*مدارس میں دار الافتاء کا جال*
آج کل ہمارے ملک اور پڑوس کے ملک دونوں میں دار الافتاء کا جال بچھا ہواہے، بلکہ اب نئے مدارس دار الافتاء سے شروع ہوتے ہیں، اور داخلہ کے لئے کوئی استعداد ضروری نہیں، ہر فارغ داخلہ لے سکتا ہے، اور چند ماہ میں مفتی بن جائے گا، اور خوش فہمی میں مبتلا ہوجائے گا کہ اسے سب کچھ آگیا۔ اور لوگ بھی اس سے مسائل پوچھنے لگیں گے اور وہ
”ضلَّ و اضلَّ“ کا مصداق بن جائے گا، مگر مدارس میں استعداد سازی پر محنت کرنے والا کوئی نہیں، اس مدرسہ کو چھوٹا مدرسہ سمجھا جاتا ہے(جس میں دار الافتاء نہیں ہوتا) چندہ بھی اس کو کم ملتا ہے، اس لئے ہر شخص دورہ یا دارالافتاء کھول کر بیٹھ جاتا ہے، یہ جو طریقہ تیزی سے چل پڑا ہے یہ بھی تباہی کا پیش خیمہ نظر آتا ہے۔(علمی خطبات ص۰۷۲ج۲)
*ایک غلط نظریہ کی تردید*
لوگ یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ دار العلوم دیوبند امت کو متحد نہیں ہونے دیتا، اس پروپیگنڈہ کی کچھ حقیقت نہیں، دار العلوم دیوبند مسلک حق کا محافظ ہے، اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ کوئی بھی اشتباہ پیدا نہ ہونے دے تاکہ راہ حق کے راہ رو منزل مقصود تک پہنچ جائیں۔
اور اگر دار العلوم دیوبند کو یہ الزام دیا جاتا ہے تو یہ الزام تو آقائے مدنی ﷺ تک پہنچے گا، تہتر فرقوں والی حدیث میں یہی تفریق تو کی گئی ہے، پھر یہ الزام حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ تک پہنچے گا، آپ نے آیت کریمہ:(کنتم خیر امۃ اخرجت للناس) کی تفسیر میں فرمایا: ”خاصۃ فی اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم“یہ آیت کریمہ صرف صحابہ کرام کی شان میں نازل ہوئی ہے، اگر قیامت تک کی ساری امت مراد ہوتی تو اللہ تعالی ”انتم“ فرماتے ”کنتم‘‘نہ فرماتے، پھر فرمایا کہ: صحابہ کے بعد جو لوگ آئیں گے ان میں سے جو لوگ صحابہ کے عقائد و اعمال پر ہوں گے وہی آیت کا مصداق ہوں گے۔
(حیاۃا لصحابہ،ا ز: حضرت مولانا یوسف صاحب کاندھلوی، باب ثالث: در بیان آثار)
(حیاۃ الصحابہ عربی ص:۱۰۱/۲۰۱ ج۱، الآثار فی صفۃ الصحابۃ الکرام رضی اللہ عنہم، دار ابن کثیر
حیاۃ الصحابہ اردو ص۸۶ ج۱،ط: مکتبۃ العلم،کراچی)
پس حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے بھی امت میں تفریق کی ہے، یہ الزام تو ان کے سر بھی جائے گا۔
ملت کے اتحاد کی کیا صورت ہوگی؟
ایک سوال…… امت کا انتشار امت کی کمزوری کا باعث ہے، اور ان کا اتحاد ملت کی قوت کا سبب ہے، پھر ملت کے اتحاد کی کیا صورت ہوگی؟
جواب…… اس سلسلے میں یہ قاعدہ جاننا چاہئے کہ ملکی مسائل میں ملک کے تمام باشندوں کو مل کر بیٹھنا چاہئے، اور ملک کی سا لمیت کے لئے متفقہ فیصلہ کرناچاہئے، جنگ آزادی کے وقت ہندو مسلم اتحاد اس کی مثال ہے۔
اور ملی مسائل میں ملت کے تمام فرقوں کو مل کر بیٹھنا چاہئے، اور ملت کی سلامتی کے لئے ایک آواز بلند کرنی چاہئے، مسلم پرسنل لاء کا اتحاد ا س کی مثال ہے، مسلم پرسنل لاء میں قادیانیوں کے علاوہ تمام جما عتیں شامل ہیں۔
اور مسلک ومشرب کے اختلاف میں ہر ایک کو اپنی رائے پر رہ کر نزاع سے بچنا چاہئے، اس وقت زیر بحث یہ تیسری صورت ہے، حق اور باطل روشنی اور تاریکی، ہدایت اور گمراہی ایک ساتھ جمع ہوں گے تو نقصان اہل حق کا ہوگا، باطل فرقے اپنی دعوت جاری رکھیں گے اور اہل حق کا میدان تنگ ہوتا جائے گا۔(جلسہئ تعزیت کا شرعی حکم ص:۴۸/۵۸/۶۸)
Comments are closed.