یہ امتیازی سلوک ناقابل برداشت نور اللہ نور

یہ امتیازی سلوک ناقابل برداشت
نور اللہ نور
گزشتہ دو تین قبل ایک سب انسپکٹر "انتشار ” کو صرف اس وجہ سے ان کی نوکری سے باہری کا راستہ دکھا دیا گیا کہ وہ مذہبی شناخت کے ساتھ اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے ان کو نوکری سے صرف اس لیے دستبردار ہونا پڑا کہ ان کے چہرے پر داڑھی تھی اور اعلی افسران نے ان کو یہ الٹی میٹم دیا کہ اگر آپ نوکری واپس چاہتے ہیں تو اپنی شناخت سے ہاتھ دھو کر آئیں۔
آخر کار جس چیز کے متمنی تھے اور جیسا وہ چاہتے تھے ویسے ہی ہوا اور وہ صاحب رزق کے خوف سے اپنی شناخت کو داؤ پر لگا دیا ہمیں ایسا لگ رہا ہے کہ صرف ایک انسپکٹر کی مذہبی شناخت سے چھیڑ چھاڑ ہوئی ہے ان کے ذاتی معاملے میں دخل اندازی ہوئی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ محض ان کی شناخت کو نہیں مٹایا گیا ہے بلکہ قانون کے اوراق میں وہ سطر جس میں ہر ایک کے لئے مساوی حقوق رقم ہے اس کو مٹایا گیا ؛ ایک طبقے کے وقار کو ٹھیس پہچائی گئی ہے؛ اور یہ باور کرایا جا رہا ہے اب یہاں قانون کی نہیں بلکہ ہماری چلے گی اور قانون کے اس مسودے کی ہمارے نزدیک کوئی وقعت نہیں ہے یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب اونچے عہدے پر بیٹھے افسران نے اپنی طاقت کا غلط استعمال کر کے قانون کو ٹھینگا دکھایا ہو بلکہ بارہا انہوں نے ایسی جرات کی ہے مگر افسوس ہوتا ہے سماج کے ان منصف مزاج اور انصاف پسند لوگوں پر جو ایک طبقے کو تو تحمل کا درس دیتے ہیں مگر جب ان پر افتاد آن پڑتی ہے تو وہ لب پر بندش لگا لیتے ہیں ایک لفظ بولنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے اور چپی سادھے ہوئے ہیں۔
بات صرف یہ نہیں ہے کہ کسی کے مذہبی شعائر کے ساتھ نازیبا رویہ اختیار کیا گیا ہے بات یہ ہے کہ وہ مساوات کا نعرہ جو اخوت و محبت کے اسٹیج سے لگایا جاتا ہے ان کے اندر انصاف ہے یا نہیں میرا دوست ماتھے پر تلک لگا کر ہاتھ میں دھاگہ باندھ کر اپنی مذہبی آزادی کے ساتھ اپنی نوکری کر سکتا ہے مگر بات جب ہماری آتی ہے تو سارے قاعدے و قوانین پٹارے سے باہر آجاتے ہیں اور ہم ٹوپی کرتا تو دور داڑھی بھی نہیں رکھ سکتے ؛ عدلیہ میں بیٹھے منصفوں کو قانون کی یہ پامالی نظر نہیں آتی سماج میں موجود منصف مزاج لوگوں کو یہ نا انصافی نہیں دکھائی دیتے حد ہے یار!
اگر داڑھی رکھنے سے کام کا حرج ہوتا ہے تو سب سے پہلے ہمارے پردھان منتری جی سے باز پرس ہونی چاہیئے اور ان کو اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہونا چاہیے کیونکہ ان کی داڑھی تو انتشار عالم سے کہیں زیادہ لمبی ہے اور ان کے علاوہ بھی سرکاری دفاتر میں لمبی مونچھیں اور دراز تر داڑھی والے افراد ہیں تو ان پر بھی یہ قانون نافذ ہو اور جس طرح ان کو یہ کہا گیا کہ آن ڈیوٹی آپ مذہب کے فالو نہیں کرسکتے یہی چیز سب کے لیے مساوی ہو کیونکہ تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے ۔
سارے چیزیں قابل برداشت ہے مگر مذہبی آزادی کے معاملے میں دخل اندازی بر داشت نہیں اگر سکھ بھائی تلوار آزادانہ طور پر رکھ سکتے ہیں برادران وطن ٹیکا لگاسگتے ہیں تو ہمیں بھی اپنے طور پر جینے کا حق دیا جائے اور اس نا انصافی اور دریدہ دہنی پر سماج کے ہر ذمہ دار شخص کو بولنا چاہیے ورنہ یہ سماج دشمن آج داڑھی پر انگشت نمائی کی ہے اور کوئی بعید نہیں کہ یہ اپنے مفاد کی تکمیل کے لیے تلک پر بھی زباں دراز کرے اور دست دراز کرے اس لئے یہ ہمارے معاشرے کے لیے یہ امتیازی سلوک بہت ہی مہلک اور ناقابل برداشت ہے۔
Comments are closed.