بہار اسمبلی الیکشن 2015 کی تاریخ دوہرائی جائے گی؟ شکیل رشید

بہار اسمبلی الیکشن
2015 کی تاریخ دوہرائی جائے گی؟
شکیل رشید
سشاسن بابو کو غضب کا غصہ چڑھ گیا!
اتنے غضب کا کہ وہ چیخ پڑے ‘ووٹ نہیں دینا ہے تو نہ دو’ ۔ بات بہار کے وزیر اعلیٰ، متحدہ جنتا دل (جدیو) کے سربراہ، بی جے پی کے ساتھی نتیش کمار کی ہو رہی ہے، جو بہاراسمبلی الیکشن 2020ء کے اس موسم میں خفا خفا، ناراض ناراض سے نظر آ رہے ہیں ۔ اور یہ ناراضگی ان ہی لوگوں سے ہے جن کے ووٹ پانچ سال پہلے حاصل کر کے انہوں نے ان کے سامنے روزی روزگار کی فراہمی، ملازمتوں میں اضافے اور بہار کی ترقی کے لیے اقدامات کی بڑی خوبصورت تھالی پروسی تھی، وعدوں کی ایک جھڑی لگا دی تھی ۔ یہ جو آج نتیش کمار پر چوری اور کرپشن کے الزامات لگا رہے ہیں پانچ برس پہلے ان کی جیت پر کتنے خوش تھے، جیسے انہیں قیمتی تحفہ مل گیا ہو ۔ تو بھلا ایسا کیا ہوگیا کہ نتیش کمار اُن ہی کو ڈانٹ ڈپٹ رہے ہیں اور ان ہی سے کہہ رہے ہیں کہ ووٹ نہیں دینا ہے تو نہ دو !! تو جان لیں کہ جنہیں ڈانٹا جارہا ہے، یعنی جنتا، وہ نتیش کمار کے غصے سے کہیں زیادہ خود غصے میں ہے ۔ اور نتیش یہ جان رہے ہیں کہ اب ان کے ووٹ انہیں شاید ہی ملیں، اسی لیے وہ خود ہی ووٹ مانگنے سے انکار کر رہے ہیں ۔
اس روز کی بات سن لیںں اور جان لیں کہ کیا ہوا تھا جب نتیش کمار آپے سے باہر ہو گئے تھے ۔ بات 21 اکتوبر کی ہے، وزیراعلیٰ ضلع سارن پہنچے تھے چندریکا رائے کے لیے پرچار کرنے ۔ یہ چندریکا رائے پہلے لالو پرساد یادو کی پارٹی راشٹریہ جنتا دل (راجد) میں تھے، اب نتیش کی پارٹی میں ہیں ۔ یہ ایشوریہ رائے کے والد ہیں، وہی ایشوریہ رائے جو لالو کے بیٹے تیج پرتاپ یادو سے بیاہی تھیں اور اب طلاق کے لیے عدالت میں مقدمہ قائم کر کے سب جگہ یہ کہتے ہوئے گھوم رہی ہیں کہ نتیش کمار کو لوگ ووٹ دیں ۔ تو الیکشن ریلی میں لالو پرساد یادو زندہ باد کے نعرے لگ اٹھے اور لوگ وزیراعلیٰ کو چور چور کہنے لگے، اسی پر نتیش بھڑک اٹھے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا ہوا کیوں؟ کیوں نتیش کمار بھی کرپشن کے الزام کی زد میں آ گئے؟ بات دراصل یہ ہے کہ بہار کی ترقی کی جو منصوبہ بندی کی گئی تھی اور یہ یقین دلایا گیا تھا کہ اس منصوبہ بندی پر عمل ہونا ہی ہونا ہے، اس میں بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ کی خبر ہے ۔ خبر یا اس الزام میں صداقت ہو نہ ہو لوگوں کو انگلی اٹھانے کا ایک موقع حاصل ہو گیا ہے ۔ اگر ترقی کے کچھ کام ہوئے ہوتے تو شاید نتیش کمار کو اتنی باتیں نہ سننی پڑتیں لیکن جتنی ترقی ہوئی ہے بہار اس کے مقابلے کہیں پیچھے چلا گیا ہے، کچھ تو انتظامی خامیوں کے سبب اور کچھ مرکزی سرکار کی لاپروائی کی بنا پر ۔ جو کسر بچی تھی وہ کورونا کی مار نے پوری کر دی ہے ، لہذا نتیش کمار خالی جھولی لے کر ریلیوں میں پہنچ رہے ہیں، پرانے وعدوں کو دوہرا رہے ہیں اور جنتا کی بھلی بری سننے کے لیے مجبور ہو رہے ہیں ۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے خود بہار میں نوکریوں کی کمی کا اعتراف کیا ہے لیکن سارا الزام ‘ سمندر’ پر ڈال دیا ہے ! نتیش کمار کی مانیں تو بہار میں بڑی صنعتوں کے نہ آنے کی وجہ بہار میں سمندر کا نہ ہونا ہے ۔ ان کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ بہار میں سمندر نہیں ہے اس وجہ سے کوئی بندرگاہ بھی نہیں ہے لہٰذا بڑی صنعتیں بہار میں قدم رکھنے سے کتراتی ہیں ۔ ممکن ہے یہ سچ ہو، مگر ترقی کے لیے بہار میں سمندر کیسے لایا جائے، اور کیا بغیر سمندر کے بہار ترقی کر ہی نہیں سکتا؟ اگر ایسا ہے تو گویا کہ نتیش کمار جنتا کو آگاہ کر رہے ہیں کہ یہ ترقی کا، نوکری اور ملازمت کا سپنا اس وقت تک نہ دیکھا جائے جب تک کہ بہار میں سمندر نہ آ جائے ۔ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی ۔ نتیش کمار سے لوگوں کی ناراضگی کا، کم از کم مسلمانوں اور یادوؤں نیز دلتوں کی ناراضگی کا، ایک سبب ان کا لالو پرساد یادو کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر بی جے پی یا سیدھے لفظوں میں کہیں تو وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کا دامن تھامنا ہے ۔ جب راجد، جدیو اور کانگریس کے اتحاد نے اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کو پٹخنی دی تھی تب نتیش کمار نے سب سے اہم کردار نبھایا تھا ۔ جیت 2014ء کے عام انتخابات کے فوراً بعد حاصل ہوئی تھی جب مودی لہر چل رہی تھی ۔ اتحاد برقرار رہتا تو شاید ملک میں سیاست کے رنگ ڈھنگ کچھ اور ہوتے، مگر نتیش کمار نے بی جے پی کا دامن تھام کر راجد کو اور اس کے ساتھ تیجسوی یادو کو، جو بہار کے نائب وزیراعلیٰ تھے، کنارے کیا، بی جے پی کو اقتدار میں ساجھیدار بنایا اور بھاجپائی سشیل کمار نائب وزیراعلیٰ بن گئے ۔ جنتا نے جنہیں اقتدار کی کرسی پر بٹھانا ضروری نہیں سمجھا تھا انہیں جنتا کی مرضی کے بغیر اقتدار حاصل ہو گیا ۔ نتیش کمار نے یہ کھیل بار بار کھیلا ہے ۔ وہ آر ایس ایس کے منظور نظر رہے ہیں، اور کچھ اتنے منظور نظر کہ 2002ء کے گجرات مسلم کش فسادات کے بعد بھی، جب رام ولاس پاسوان تک نے این ڈی اے کو تج دیا تھا یہ اس سے چمٹے ہوئے تھے ۔ نتیش کمار کو ملک کے وزیراعظم کی گدی کا اہل سمجھا جاتا تھا لیکن وہ بہار کا وزیراعلیٰ بنے رہنے میں ہی اپنا بھلا سمجھتے رہے ۔ خیر وزیر اعلیٰ تو وہ بنتے رہے مگر بہار کا کوئی بڑا بھلا نہیں کر پائے، اسے خصوصی ریاست کا درجہ تک نہیں دلوا سکے ۔ اور نہ ہی مرکزی سرکار کے اعلان کردہ پیکیج دلوا سکے ۔ وزیراعظم بنتے تو یہ سب ممکن تھا، لیکن یہ راہ انہوں نے، بغیر کسی جدوجہد کے، مودی کے لیے چھوڑ دی ۔ دوسری جانب بی جے پی نے ان سے بہت سے کام لیے، جیسے کہ زعفرانی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا کام ۔ اب یہی دیکھ لیں کہ راجیہ سبھا میں شری نتیش کمار جی کی پارٹی نے سی اے اے کے حق میں ووٹنگ کر دی !! بی جے پی نے نتیش کمار کے کندھے پر سوار ہو کر بہار کی انتظامیہ پر اپنی پکڑ مضبوط کی، اپنے من پسند افسروں کی من چاہی جگہوں پر تعیناتی کی اور نفرت کے پرچار کے لیے ماحول تیار کرنے کا کام کیا ۔ چونکہ نتیش کمار ان کے رحم و کرم پر ہیں اس لیے وہ بس ٹُکُر ٹُکُر دیکھتے رہے کچھ نہ کر سکے ۔ نتیجہ سامنے ہے، جنتا ناراض ہے، ایسی ناراض کہ جدیو اور بھاجپا کے کئی امیدواروں کو پرچار کے دوران ان کے غصے سے بچنے کے لیے سر پر پیر رکھ کر بھاگنا پڑا ہے، ان پر گوبر تک پھینکا گیا ہے ۔
نتیش کمار کے لیے کورونا کی وباء شاید سب سے بڑی پریشانی لے کر آئی ہے ۔ نہ کورونا کی وباء ہوتی نہ بہاری مزدور، مہاجروں کی طرح ممبئی، احمدآباد اور دہلی وغیرہ سے بھاگتے ۔ بےبس اور سرکاری نظر کرم کے لیے ترستے ہوئے ۔ سڑکوں پر ہزار ہزار کلو میٹر پیدل چلتے، بھوک پیاس اور گاڑیوں کی زد میں آکر کٹتے اور مرتے ہوئے ۔ کوئی ان کا پرسان حال نہیں تھا، نہ مودی اور نہ نتیش کمار ۔ سرکاروں سے کہیں زیادہ امداد تو عوام اور این جی اوز نے کر دی تھی ۔ بہار کے مزدور یہ سب بھلا نہیں سکے ہیں ۔ نہ بھلا پانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بہار پہنچ کر بھی یہ لاچار ہی رہے، سرکاری بے توجہی کے شکار ۔ یہ مہاجر مزدور اب نہیں لگتا کہ این ڈی اے کے جھانسے میں آئیں گے، ان میں یادو، مسلمان، دلت اور پچھڑے طبقات شامل ہیں. بہار میں یادو 14 فیصد اورمسلمان 18 فیصد ہیں، یہ ووٹ بی جے پی اور جدیو سے کٹ رہے ہیں، ان میں چار فیصد دلت اور مہادلت ووٹ بھی شامل کر لیں تو یہ 36 فیصد ووٹ ہو جاتے ہیں ۔ نتیش سے ناراض تیجسوی کی طرف مائل ان ووٹوں کے چند فیصد کوبھی اپنے خیمے میں کھینچنے میں نتیش کمار اور نریندر مودی کو پسینہ آجائے گا ۔ یادؤں کی ناراضگی کی ایک وجہ لالو پرساد یادو ہیں ۔ جیل میں رہ کر لالو نے اتنی ہمدردیاں بٹوریں اور نتیش کمار کے خلاف ایسی ہوا بنائی ہے کہ باہر رہتے تو ممکن نہ ہوتا ۔ گویا کہ لالو کا قید ہونا ان کے لیے فائدہ مند اور نتیش کمار کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا نظر آ رہا ہے ۔ مسلمان اور دلت اپنے اوپر ہونے والے ستم سے ناراض ہیں ۔ ہجومی تشدد کے واقعات اور اقتدار میں ساجھیدار بنانے کے سوال پر اگر مگر نے ناراضگی کو بڑھایا ہے ۔ سی اے اے کامسئلہ تو پہلے سے ہے ہی اب بی جے پی نے پھر سے اس کے نفاذ کا راگ الاپنا شروع کر دیا ہے، اور نتیش ہیں کہ بی جے پی کے سی اے اے راگ پر چپی سادھے ہیں ۔ اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ نتیش کمار خود یہ چاہتے ہیں کہ سی اے اے لاگو ہو جائے ۔ اور اگر ایسا وہ نہیں چاہتے، جیسے کہ ان چیلے چپاٹے کہہ رہے ہیں، تو سوال یہ ہے کہ وہ سی اے اے کی مخالفت میں بیان کیوں نہیں دے دیتے؟ ایک مسئلہ اردو زبان کا ہے، اسے بہار میں اب ہائی اسکولوں میں لازمی کی بجائے اختیاری مضمون قرار دے دیا گیا ہے ۔ چونکہ اردو بہار کی دوسری سرکاری زبان ہے اس لیے بھی اور بہتوں کی بالخصوص مسلمانوں کی مادری زبان ہے اس لیے بھی لازمی مضمون کی حشیت حاصل تھی، لیکن نتیش کمار نے اس حیثیت کو ختم کرنے کے لیے جو کام کیا ہے اس سے مسلمان ناراض ہیں ۔ یہ ناراضگی ایک تو اردو زبان کو نقصان پہنچانے کے لیے ہے اور اس لیے بھی ہے کہ اگر یہ اختیاری مضمون کی حیثیت پختہ ہو گئی تو اردو کے اساتذہ کی ملازمتیں خطرے میں پڑ جائیں گی ۔ نتیش کمار کو اس الیکشن میں اسی لیے مسلمانوں کے سوالات کے جواب دینا مشکل پڑ رہا ہے ۔
چراغ پاسوان الگ انہیں ہرانے کے لیے میدان میں کود پڑے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ بی جے پی کے اشارہ پر ہی لوک جن شکتی پارٹی نے جدیو کے خلاف اپنے امیدوار کھڑے کیئے ہیں، مقصد نتیش کمار کو کمزور کرنا ہے ۔ حالانکہ امیت شاہ کا دعویٰ ہے کہ بھلے نتیش کی سیٹیں کم آئیں وزیر اعلیٰ وہی بنیں گے، لیکن اس وعدے پر ہمیں کیا خود نتیش کمار کو یقین نہیں آ رہا ہوگا ۔ ان کے سامنے مہاراشٹر، شیوسینا اور ادھو ٹھاکرے کی مثال ہو گی ۔ کہا تو یہی جاتا ہے کہ بی جے پی چاہتی ہے کہ جدیو کی سیٹیں کم آئیں تاکہ بی جے پی مکمل اختیارات کے ساتھ بہار پر راج کر سکے ۔ حالانکہ یہ ممکن نہیں ہے ۔ یقیناً چراغ پاسوان نتیش کمار کے ہاتھ جلا دیں گے لیکن اس سے شاید بی جے پی کو کوئی فائدہ نہ پہنچ سکے ۔ بی جے پی کی حالت خود خراب ہے ۔ تیجسوی یادو کی ریلیوں میں بھیڑ اور ان کے اور ان کے پتا لالو کے حق میں لگنے والے نعروں نے ایسا جادو کیا ہے کہ سشیل کمار مودی سے لے کر دیویندر فڈنویس تک بڑے بڑے بھاجپائی لیڈر کورونا پازیٹو ہو رہے ہیں، اس طرح وہ بہار جانے سے بچیں گے اور ہار کا ٹھیکرا ان کے سر پر نہیں پھوڑا جائے گا ۔ جو بی جے پی کے لیڈر ریلیوں میں جا رہے ہیں وہ بھی کان پکڑ رہے ہیں کیونکہ جنتا کسی کو خاطر میں نہیں لا رہی ہے ۔ بی جے پی کو ہار سامنے کھڑی نظر آ رہی ہے، ایسے میں وہ اسی راستے پر چل پڑی ہے جو اس کا جانا پہچانا ہے، فرقہ پرستی کی راہ ۔ ریاستی اسمبلی کے الیکشن کی مہم میں مقامی مسائل کو چھوڑ کر بات رام مندر کی کی جا رہی ہے ۔ چین کا اور بہار رجیمینٹ کا ذکر ہو رہا ہے ۔ کشمیر کے دہشت گردوں کے بہار میں گھس آنے کی خوفناک تصویر دکھائی جا رہی ہے ۔ آرٹیکل 370 کی بات ہو رہی ہے ۔ لیکن دال گل نہیں رہی ہے کیونکہ بہار کی عوام کا سوال روزی روزگار اور ملازمتوں و نوکریوں کے بارے میں ہے، ترقی کے بارے میں ہے، وہ پوچھ رہے ہیں کہ سماجی اور معاشی نابرابری کیوں ختم نہیں ہو سکی ہے کیوں آج بھی بہار کےلوگ بدحال ہیں ۔ ان سوالوں کے جواب نہ نتیش کمار کے پاس ہیں نہ نریندر مودی کے پاس ہیں، جنہوں نے جمعہ کو پہلی ریلی سے خطاب کیا مگر بات بہار کے مسائل پر نہیں کی ۔ تیجسوی سوالوں کے جواب دے رہے ہیں، وہ سماجی اور معاشی نابرابری کے خاتمے کی بات بھی کر رہے ہیں اور نوکریوں کی فراہمی کی بھی ۔ بہار کے لوگ فی الحال دھرم کی راج نیتی کے چکر میں پھنستے نہیں دکھتے ۔ ویسے بھی جب بی جے پی پر 2014ء کی تاریخی جیت کے بعد بہار ہی نے روک لگائی تھی، اس بار بھی لگ یہی رہا ہے کہ تاریخ دوہرائی جائے گی ۔
Comments are closed.