مرحوم عبد الفتاح ؒکی یاد میں  (سابق امیرحلقہ مغربی بنگال)         رضوان احمد اصلاحی، پٹنہ

مرحوم عبد الفتاح ؒکی یاد میں

(سابق امیرحلقہ مغربی بنگال)

رضوان احمد اصلاحی، پٹنہ

………………

بہار کا ایک علاقہ متھلانچل ہے،جہاں کی ایک خاص تہذیب ہے جسے عرف عام میں ”میتھل کلچر“ کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ زرخیز بھی ہے اور مردم خیز بھی۔بنابریں یہاں سے ملک کو بھی نامورشخصیات ملی ہیں تو ملت کوبھی مردان کارملے ہیں،تحریک اسلامی کو بھی اس خطہ سے خاص تعلق ہے،جماعت کی تشکیل کے کچھ ہی دنوں بعد یہاں بانی تحریک مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ تشریف لائے۔ یوں تو یہاں سے جماعت کو چھوٹے بڑے کئی کارکنان ملے،تاہم چندکیلومیٹرکے فاصلے پر تین گاوں سے تین اہم قائدین تحریک ملے،جن میں حسنین سید ؒ صاحب کا شمار تو بجاطور پر بانیان تحریک میں ہوتا ہے، ان ہی کی دعوت پر مولانا مودودیؒ دربھنگہ تشریف لائے تھے،مرحوم کا تعلق”کمہرولی“ گاؤں سے تھا۔

دوسری اہم شخصیت جناب عبد الفتاح ؒ صاحب کی ہے،جن کے گاؤں کا نام ”نظرا“ ہے، جو اب مدھوبنی ضلع میں آتا ہے۔مغربی بنگال میں ایک عرصہ دراز تک امیرحلقہ رہے،بنگال کے دوردراز علاقے تک تحریک کی دعوت پہنچانے کا شرف آپ کو حاصل ہوا۔موجودہ مدھوبنی ضلع میں ایک گاؤں ململ ہے جہاں سے لگاتار تین میقات تک تحریک اسلامی بہار کو امارت حلقہ کے لیے جناب قمرالہدیٰ صاحب کی خدمت میسر آئی۔

گذشتہ18اکتوبر کو متھلانچل کے انہی گاؤں میں سے ایک گاؤں ”نظرا“ میں قیام کا اتفاق ہوا۔ میرا جانا اصلا ًپڑوس کے گاوں ”برداہا“میں ہواتھا،لیکن مرحوم عبدالفتاحؒ سے غائبانہ عقیدت اور محبت کی وجہ سے ہم نے ”نظرا گاؤں“جانے کی آمادگی ظاہرکردی جسے مقامی ذمہ داران بالخصوص برادرمولانا محمدعلی صاحب نے نہ صرف قبول کیا بلکہ پرتباک استقبال کیا اور میرے اوقات کا مناسب استعمال کیا۔

رات طعام اور قیام کا نظم مولانا مرحوم کے گھر پررکھا گیا،کیوں کہ عبدالفتاح ؒصاحب کے بڑے صاحبزادے طارق عمر صاحب آج کل گاوں میں موجود ہیں اور مرحوم کے بڑے دامادجناب محمود صاحب بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے گاوں میں مقیم ہیں۔یہ دونوں حضرات خود بزرگ اور عمرداراز ہیں کم وبیش 70سال عمر ہوگی لیکن غیرمعمولی اپنائیت،خلوص اور محبت کے ساتھ سراپا خدمت بنے رہے،مجھے ان کی خدمت سے سبکی محسوس ہورہی تھی۔ان دونوں بزرگوں کو تحریک کے مزاج، ذمہ داران کے مقام و مرتبہ کے علاوہ ان سے تعلق اور برتاؤکے جتنے آداب ہوسکتے ہیں سب معلوم ہیں۔ خیر مجھے دونوں بزرگوں بالخصوص طارق عمر صاحب سے عبد الفتاح صاحب کے بارے میں غیر رسمی طور پرمختصراً جو معلومات حاصل ہوئیں،اسے ہم افادہ ئ عام کی غرض سے قلم بند کرتے ہیں۔

طارق عمرصاحب نے بتایا کہ ابااعلی تعلیم یافتہ تھے، انہوں نےBA,BTکررکھا تھا،ضلع اسکول ڈالٹین گنج (موجودہ جھارکھنڈ) میں جغرافیہ اور میتھس کے ٹیچر تھے۔طارق صاحب نے بتایا کہ میرے ایک استاذ پروفیسرڈی،این مکھرجی نے میتھس میں میری اچھی کارکردگی دیکھ کرپوچھا کہ اتنا اچھا تم کیسے کرتے ہوتو ہم نے بتایا کہ میرے والد صاحب میتھس کے ٹیچر ہیں۔ان کو ابا سے ملنے کا شوق پید ا ہوا،ایک دن میرے گھر آئے، والد صاحب سے علم ریاضی پر تفصیلی گفتگو کے بعد فرمایا”پہلی دفعہ کسی mathematicianسے ملاقات ہوئی ہے“۔گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مرحوم میتھس کے ٹیچر ہی نہیں بلکہ ریاضی داں تھے۔

ڈالٹین گنج ضلع اسکول میں ٹیچنگ کے دوران وہ کانگریس کے ہم خیال تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ مولانا ابوالکلام آزاد سے غیر معمولی متاثرتھے،کثیر المطالعہ تھے،ہرطرح کی چیزیں پڑھتے تھے،قیام ڈالٹین گنج ہی میں مولانا مودودی کارسالہ ”ترجمان القرآن“ مل گیا،اسی رسالے کے مطالعے سے مولانا مودودی ؒ کی فکر اور جماعت کے نصب العین سے واقف اور متاثر ہوئے جب کہ پورا گاؤں اور خود عبد الفتاحؒ صاحب کا پورا خاندان مسلکا ً اہل حدیث تھے اور ہیں، یہ غالبا1946 کی بات ہے،یوں تو سابق امیر حلقہ بہار جناب انیس الدین صاحب مرحوم اور عبد الفتاح ؒصاحب ضلع اسکول دربھنگہ میں ایک ہی ساتھ پڑھتے تھے۔مرحوم حسنین سید صاحب سے بھی تعلق خاطر تھا لیکن جماعت میں آنے کا اصل محرک رسالہ ترجما ن القرآن ہی بنا،مرحوم کی بیشتر تحریکی وتنظیمی سرگرمیاں مغربی بنگال میں رہیں،غالباً پہلے یاپھر دوسرے امیر حلقہ مغربی بنگال ہوئے اور ایک تواتر کے ساتھ کئی میقات تک امارت حلقہ کی ذمہ داری بنھالتے رہے،بنگال کے گاؤں گاؤں تک تحریک کو پہنچایا، یہ وہ زمانہ تھا جب بہار سے بڑی تعداد میں لوگ بنگال کام یا کاروبار کے لیے جاتے تھے اور عبد الفتاح صاحب مغربی بنگال اقامت دین کی ترویج واشاعت کے لیے گئے، جب اپنی ذمہ داریاں ادا کرچکے تو واپس آگئے ورنہ جو لوگ کاروبار یا نوکر ی کے لیے گئے تھے ان میں سے بیشتر لوگ آج بھی وہیں مقیم ہیں۔قمرالہدیٰ صاحب نے بتایا کہ جب عبد الفتاحؒ صاحب ذمہ داری سے فارغ ہوکر گھر(بہار) آگئے اور قدرے ضعیف ہوچکے تھے غالباً جعفر صاحب (موجودہ نائب امیر جماعت) کے دور امارت حلقہ میں کسی سیلاب کے موقع پر شوریٰ نے ریلیف انچارج بنانے کا فیصلہ کیا، اس کی اطلاع لے کر جعفر صاحب(امیر حلقہ)، قمرالہدیٰ صاحب اور سہیل احمد خانؒ صاحب عبد الفتاح ؒصاحب کے گھرنظرا پہنچے،ان کو آمدکا مقصد بتایا تو بلاتامل،کسی تاویل اور معذرت کے بغیر آمادگی ظاہر کردی،بولے ایسی بات ہے تو آپ لوگ دو منٹ بیٹھیں،اندر گئے اور چند منٹ میں تیار ہوکر آگئے۔جب کہ برسات کے موسم میں لوگوں کے سہارے گاڑی تک آئے،پھر ذمہ داری ادا کرنے کے لیے نہ بارش اور نہ ہی سیلاب کا پرواہ کیا۔

عبد الفتاح صاحب فنا فی التحریک تھے،اس کے لیے نوکری چھوڑی،زمین جائداد اور گھریلومسائل تک کو ایک حدتک خیر بادکہہ دیا جس کی تلافی آپ کی زوجہ محترمہ آمنہ خاتونؒ نے بحسن و خوبی نبھالیا،بلکہ آپ کی اہلیہ نے آپ کو ان مسائل سے فارغ کردیا کہ آپ ہمہ تن اقامت دین کا فریضہ انجام دیں۔طارق عمر صاحب نے بتایا کہ ہم بھائی بہنوں کی کفالت اور تعلیم وتربیت میں والدصاحب سے زیادہ اہم رول والدہ کا رہاہے، یہ بات کہتے ہوئے طارق صاحب کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے،انہوں نے بتایا کہ میری والدہ تہجد کے وقت سے لیکر ۸بجے صبح تک دیندار ہوتی تھیں اور ۸/بجے کے بعد طارق صاحب کی زبانی ”کسان“ بن جاتی تھیں،کھیت کھلیان سب کا نظم وانصرام خود کرتیں۔طارق صاحب نے بتایا کہ والدصاحب کی جائداد سے زیادہ جائداد کی مالک اماں تھیں۔

طارق صاحب نے بتایا کہ اباہم لوگوں کے تئیں بہت نرم دل اور شفیق تھے،اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ہم سے پہلے ہمارے والدین کی پانچ اولادایک تسلسل کے ساتھ انتقال کرچکی تھیں،لیکن میری والدہ تربیت کے معاملے بہت سخت تھیں،ہماری ذراسی غلطی بھی ان کو نہیں بھاتیں، فوراً سرزنش کرتی تھیں،ایک مرتبہ کا واقعہ ہے دروازے کے اسی تالاب میں (تالاب آج بھی موجودہے) ہم نے ایک بچے کو دھکا دے دیا،بچے کو معمولی چوٹ آئی،ان کے گارجین شکایت لے کرفوراً ہمارے گھر پہنچے،ہمارے بڑے ابا عبد الغفار صاحب جو مجھ سے حددرجہ محبت کرتے تھے،ان کو کچھ کہہ سن کر بلکہ اُلٹے تنبیہ کرکے واپس کردیا،میری والدہ تک میری اس شرارت کی خبر پہنچ چکی تھی جیسے ہی میں آنگن میں داخل ہوا جلاون کی لکڑی لے کراس زور سے ماری کہ آج بھی اس کا نشان موجودہے،(زخم کا نشان دکھاتے ہوئے)میر ی تو چیخ نکل گئی،اب میری والدہ اور میرے بڑے اباعبدالغفارصاحب میں ٹھن گئی۔ میرے بڑے ابابہت ناراض ہوئے،میری والدہ پر غیر معمولی غصے کا اظہار فرمایا(واضح ہو کہ دونوں آپس میں ماموں زاد بھائی بہن تھے) یہ وہ عبد الغفار صاحب ہیں جن کے سامنے سے گاؤں کی کوئی خاتون گذرنے کی ہمت نہیں کرتی تھی،مولانا ابو اللیث اصلاحیؒ،سابق امیر جماعت اسلامی ہند ان کو پیارسے بھیا کہا کرتے تھے،جب ذرا غصہ ٹھنڈا ہوا تو میری والدہ نے بڑے ابا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ”مجھے اپنے بچوں کے لیے لوگوں کی بدعا نہیں چاہیے بلکہ دعا چاہیے“۔ بچوں کی تربیت کا یہ اعلیٰ تصور اس عظیم ہاؤس وائف کے ذہن میں تھا جو اچھے اچھے تعلیم یافتہ خاتون میں بھی نہیں پایا جاتا ہے۔کہنے والے نے سچ کہا کہ ”ہرکامیاب انسان کے پیچھے کسی نہ کسی خاتون کا رول ہوتا ہے“۔ سابق امیر حلقہ مغربی بنگال کی کامیابی کا ایک راز ان کی زوجہ محترمہ تھیں“۔

عبد الفتاح مرحوم کے اخلاق وکرداراور رعب دبدبہ کا مجھے کوئی علم نہیں ہے تاہم اتنی بات کئی ذرائع سے معلوم ہوئی ہے کہ 1964 میں دعوت اخبار کی کسی رپورٹ پر مرحوم کی گرفتاری کا حکم نامہ جاری ہوا،لیکن وزیر اعلی ٰ مغربی بنگال نے بذات خود عبد الفتاح صاحب سے گذارش کی کہ”آپ مجھے اس کام سے بچا لیجئے،میں آپ کو گرفتار نہیں کرسکتا“ امیر حلقہ نے جواب دیا آپ مجھے ضرورگرفتار کیجئے،یہ آپ کی ڈیوٹی ہے۔ایمرجنسی میں بھی آپ کی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی تھی، اس کے اسباب مجھے نہیں معلوم۔لیکن کئی بارجیل بھی گئے بلکہ جیل ہی میں نوپارے قرآن پاک حفظ کیا۔

عبد الفتاح صاحب میتھس،جغرافیہ کے علاوہ اردو،ہندی، انگریزی اور بنگلہ زبان اچھی طرح جانتے تھے،قرآن کی عربی سمجھنے میں انہیں کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی۔جس دن انتقال ہوا،اس سے قبل شام میں گاؤں کے معززین اور رشتہ داروں سے بلا کرملاقات کی،رات آرام سے سوئے،صبح فجرکی نماز آد ا کی اور اس کے بعد مالک حقیقی سے جاملے۔ اللہ غریق رحمت کرے آمین۔ان کے پسماندگان میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں،ان کے علاوہ پوتے،پوتیاں اور نواسے اور نواسیوں کی اچھی خاصی تعداد ہے، ماشاء اللہ سب کے سب نیک صالح بلکہ سب پردنیا اورا ٓخرت کی بھلائی کا سایہ نظرآتا ہے۔ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔ آمین یا رب العالمین۔

 

 

Comments are closed.