نوجوانوں سے گزارش از: محمد اللہ قیصر

نوجوانوں سے گزارش

از: محمد اللہ قیصر

الیکشن کا زمانہ ہے، وعدوں کا سیلاب ہے، ساتھ ہی ایک خاص نوعیت کے شکایات کی ایک فہرست ہے، اور سب کی نگاہ کہیں ٹکی ہے، تو وہ نوجوان ہیں، ہماری جان کے دشمن بھی ہماری قوم کے نوجوانوں کو مختلف طریقوں سے رجھانے کی کوشش کر رہے ہیں، ہر منافق خلوص

دوستانہ کا طلبگار بنا پھر رہا ہے،

زندگی! تجھ سا منافق کیا کوئی ہوگا

تیرا ہی شہکار ہوں اور تیرا ہی مارا ہوا ہوں

بڑی حیرت انگیز صورت حال ہے کہ ہم جن کے ڈسے ہوئے ہیں ان پر یقین بھی کرنے لگے ہیں۔

کل تک سر عام ہمیں ملک بدر کرنے کی دھمکی دینے والے بھی، ہمارے نوجوانوں کو کہہ رہے ہیں کہ "ادھر آؤ تمہارے لئے بہت کچھ ہے” اور اس سے بڑا کمال ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ ہیں جو "سر تسلیم خم” بھی کر رہے ہیں۔

ایک وقت تھا جب گاؤں کے بڑے بوڑھے جب کوئی حتمی فیصلہ کر دیتے، تو کسی کو اس سے اختلاف کی سکت نہیں ہوتی، لیکن سوشل میڈیا کے فروغ نے اس حصار میں شگاف پیدا کردیا، اب نوجوان خود آگے بڑھ کر اپنی قیادت سے سوال کرنا چاہتے ہیں، انہیں اپنے ذہن میں طوفان بن کر اٹھنے والے سوالات کے جوابات کی تلاش ہے، جو بعض ناحیہ سے ایک خوش کن رجحان ہے، ترقی پسند جذبہ ہے، اگر اس جذبہ میں سنجیدگی کی آمیزش زیادہ ہو، تو نور علی نور، لیکن کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا یہ جذبہ بے "وقت کی راگنی ” تو نہیں ؟ کہیں یہ احساس ایسے وقت میں بیدار تو نہیں ہوا جب نہیں ہونا چاہئے؟ ہمیں اس پر غور و فکر کے بعد خود پر قابو پانا ہوگا، ہمیں سوچنا ہوگا، کہ اپنے لیڈران یا سیکولر قیادت سے روٹھنے یا ان سے اظہار ناراضگی کا وقت موزوں ہے یا نہیں؟ کہیں اس "مخلصانہ ناراضگی” کے سبب ہمارے کسی قومی، ملی یا سماجی نقصان کا خطرہ تو نہیں،اظہار ناراضگی میں "ٹائمنگ” کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، ہم حق گوئی کے نام یا "محاسبہ قیادت” کے جذبہ سے مغلوب ہوکر اپنے دل کی باتیں کہہ تو دیتے ہیں، یہ سوچ کر دوری تو کرلیتے ہیں کہ شاید اس مقاطعہ سے قیادت میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہو، لیکن کبھی کبھی اس کا ایسا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے کہ یہ پوری قوم خون کے آنسو رونے پر مجبور ہو جا تی ہے، ایسی صورت میں ہمیں کرنا یہ ہے کہ "اپنے جذبہ کے اظہار” کی ٹائمنگ بدل دیں، یہ سب بعد میں کر لیں، اپنے جذبات و احساسات، اور شکایات، سب کا اظہار بعد میں کرلیں، اس وقت توجہ اس پر رہے، کہ فرقہ پرستی سے لڑنے والا جو مضبوط ہے، اسے مزید مضبوط کریں، اور اس کو مضبوط کرنے کیلئے، ہم سے جو کچھ بن پڑے کریں، شخصی اور مقامی مسائل خدا کے واسطے ایک طرف رکھ کر آگے بڑھیں، اور سیکولر ذہن رکھنے والے، سماجی ہم آہنگی کے محافظ” آپسی رواداری اور بھائی چارگی کو فروغ دینے والے کا دست و بازو بن کر انہیں مضبوط کرنے کی کوشش ہونی چاہئے۔

اب رہا سوال دیگر شکایات و سوالات کا تو جان لیں کہ کچھ سوالات "کمیونیکیشن گیپ” کی وجہ سے جنم لیتے ہیں،

اور میرا خیال ہے کہ 70 فیصد سوالات ایسے ہوتے ہیں جو "کمیونیکیشن گیپ” کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں، اگر بلا واسطہ گفتگو کی جائے تو وہ خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ نوجوانوں کو ہمیشہ اپنی قیادت سے ملنے کو کوشش کرنی چاہئے، اس انتظار میں رہنا کسی طرح مناسب نہیں کہ وہ ہمارے گھر آئیں، یا ہم بغیر وقت لئے ان کے یہاں پہونچیں اور وہ اپنی مشغولیت کی وجہ سے مل نہ سکیں، اسی بدنظمی کی کوکھ سے شکایات کا جنم ہوتا ہے، ہمیں ان کی مشغولیت کو پیش نظر رکھنا چاہئے، نیز ایسے مسائل جن کا تعلق اپنی ذات سے ہو، انہیں بالکل نظر انداز کردینا وقت کا تقاضا ہے، اس وقت جو سیاست چل رہی ہے، وہ ہمیں ہرگز ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اپنے یا گاؤں کے، چھوٹے موٹے مسائل کیلئے، اپنے لیڈران یا سیکولر ذہن رکھنے والوں کو کمزور کریں، وقت کا تقاضا ہے، کہ صرف اور صرف قومی سیاست کو پیش نظر رکھ کر ہی کوئی فیصلہ کریں، دوسروں کیلئے یہ انتخاب مقامی مسائل کی بنیاد پر ہو سکتا ہے، لیکن ہمارے لئے ایسا نہیں ہے، وقت کی نزاکت کو سمجھیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے روٹھنے کے نتیجہ میں ہماری تباہی کا پروانہ لکھنے والے بر سر اقتدار اجائیں، اگر اس پہلو پر غور کرکے قدم نہیں بڑھایا تو یقین جانئے، اگلی نسل ہمیں معاف نہیں کرے گی، کیونکہ مستقبل قریب میں آپ کے خلاف جو فیصلے ہوں گے انہیں سوچ کر ہی روح کانپ جاتی ہے۔

اور خیال رہے کہ بہار کا حالیہ الیکشن مستقبل کی قومی سیاست پر اثر انداز ہوگا، فرقہ پرستوں کے ساتھ سیکولر پارٹیاں بھی آئندہ کیلئے، اپنی راہ طے کریں گی،

لہذا موافقت یا مخالفت کرتے ہوئے اس پہلو کو نظر انداز نہ کریں، اور سوچ سمجھ کر قدم بڑھائیں۔

Comments are closed.