خدمت خلق – اسلامی تعلیمات کا درخشندہ باب

 

مولانا شمیم اکرم رحمانی امارت شرعیہ،پٹنہ

اصطلاح شرع میں رضائے الہی کے حصول کے لئے جائز امور میں اللہ کی مخلوق کا تعاون کرنا خدمت خلق کہلاتاہے،آیات و روایات کے مطالعے سے پتہ چلتاہے کہ خدمت خلق نہ صرف صالح سماج کی تشکیل کا اہم ترین ذریعہ ہے بلکہ محبت الہی کا تقاضہ ،ایمان کی روح اور دنیا وآخرت کی سرخ روئی کاوسیلہ بھی ہے ،عام طور پر لوگ محض مالی امداد کو ہی خدمت خلق سمجھتے ہیں حالانکہ مالی امداد کے علاوہ کسی کی کفالت کرنا ، علم و ہنر سکھانا ،مفید مشوروں سے نوازنا ،بھٹکے ہوئے مسافر کو صحیح راہ دکھانا ،علمی سرپرستی کرنا ،تعلیمی ورفاہی ادارے قائم کرنا ،کسی کے دکھ درد میں شریک ہونا اور ان جیسے سیکڑوں دوسرے امور بھی خدمت خلق کی مختلف راہیں ہیں جن پر اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے ہرانسان چل سکتاہے۔اس کے لازمی معنی یہ ہوئے کہ خدمت خلق کی شاہ راہ پر چلنے کیلئے کسی لیڈر یا تحریک کے بجائے محض ایک مقدس جذبے کی ضرورت ہوتی ہے اور مقدس جذبہ ہی وہ شئی ہے جواللہ کے نزدیک کسی بھی انسان کو بیش قیمت بنادیتاہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر ایک اصول سے امت کو روشناس کراتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ’’دین خیر خواہی کانام ہے‘‘ظاہر ہے خیر خواہی بھی ایک مقدس جذبہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ جذبہ خیر خواہی جب درجہ کمال کو پہونچتاہے تو اعمال سے اس کااظہار مختلف شکلوں میں ہونے لگتاہے، جنہیں لوگوں کی نگاہیں دیکھتی ہیں اور زبانیں دعاؤں سے نوازنا شروع کر دیتی ہیں، نتیجتاًانسان بسا اوقات اس درجے پر فائز ہو جاتاہے جہاں دوسرے لوگ برسوں کی عبادت و ریاضت کے بعد بھی نہیں پہونچ سکتے ہیں ؛ایک بدکار عورت کے پیاسے کتے کو پانی پلاکر جنت میں جانے کا واقعہ اس حقیقت کی بہت واضح مثال ہے ۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسلام میں خدمت خلق جوکہ جذبۂ خیر خواہی کا اہم ترین نتیجہ ہے ،عظیم الشان عبادت کی حیثیت رکھتا ہے اور قرآن مجید میں جہاں تخلیق انسانی کا مقصد عبادت کو قرار دیاگیاہے، وہاں عبادت میں خدمت خلق بھی داخل ہے، اس لیے دیگر عبادتوں کی طرح یہاں بھی دنیوی اغراض پر نظررکھنے کے بجائے اخروی ا غراض پر ہی نظر رکھنے کی ضرورت ہے، ورنہ سخی ترین شخص کو منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینکے جانے کی وعید حدیث کی معتبر کتابوں میں موجود ہے، اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ خدمت خلق کے نتیجے میں حاصل ہونے والے دنیوی مفادات کو اسلام ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتاہے؛ اس لیے کہ نفع رساں چیزوں کے زمین میں جم جانے اور مضبو ط ہوجانے کی بات قرآن مجید میں موجود ہے۔ ’’وَاَمَّامَا یَنْفَعُ الْنَّاسَ فَیَمْکُثُ فِي الْاَرْضِ۔‘‘ (سورۃ الرعد/۱۷)
ترجمہ وہ چیزیں جو نفع بخش ہوتی ہیں زمین میں جم جاتی ہیں ۔
بات اتنی سی ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس بات کا پابند بناتاہے کہ وہ ہرکام محض رضائے الٰہی کے حصول کے لیے کرے ؛خواہ نتائج کچھ بھی ظاہر ہوں، اس حقیقت کا اظہار اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے ۔’’قُلْ اِنَّ صَلاَ تِیْ وَ نُسُکِي وَمَحْیَاْيَ وَ مَمَاتِيْلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن۔‘‘َ (سورۃ الانعام/۱۶۲)ترجمہ: آپ کہہ دیں کہ بلاشبہ میری نماز، میری قربانی ،میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے، جو سارے جہان کا پالنے والا ہے۔
خدمت خلق سماج کی ضرورت بھی ہے ،جس سے راہ فرار اختیار کرنے کے نتیجے میں سماج جہنم کے دہانے پر کھڑاہوجاتاہے۔ ارسطو کا مشہور قول ہے کہ’’ انسان ایک سماجی جانور ہے ۔‘‘جس کے معنی یہ ہیں کہ انسانوں کے لیے سماج سے الگ ہٹ کرزندگی گزارنا دشوار ؛بلکہ محال ہے، اس لیے کہ انسانوں کو اپنی زندگیوں میں مختلف طرح کے چیلنجز کا سامنا کرناہوتاہے، جن کا حل سماج ہی پیش کرسکتاہے یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مال ودولت کی وسعتوں اور بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے،جس کاازالہ آپسی تعاون ،ہمدردی ،خیر خواہی ،ایک دوسرے سے مل جل کررہنے اور ایک دوسرے کی ضرورتوں کا خیال رکھنے سے ہی ہوسکتاہے۔
اسی لئے میرا خیال ہے کہ جس سماج میں خدمت خلق کا رواج نہ ہو وہ سماج اسلامی سماج تو دور انسانی سماج کہلانے کا حقدار بھی نہیں ہے، ممکن ہے میرے خیال سے کسی کو اختلاف ہو ،لیکن انسان کا لفظ ہمیں واضح طور پر اسی نتیجے تک پہونچاتاہے ،انسان کے مادے میں محبت و انسیت کا مفہوم داخل ہے جنہیں اگر انسان سے الگ کردیاجائے، تو حقیقی معنوں میں انسان انسان نہیں رہتا بلکہ شعور کی پست ترین سطح پر پہنچ کر انسانی معاشرے میں پلنے والا ایک جانور بن جاتاہے، جس کے لئے جائز اور ناجائز کے حدود کو پھلانگنا کوئی معنی نہیں رکھتا ؛بلکہ خواہشات نفس کی تکمیل کے لیے سب کچھ کرنا آسان ہوجاتاہے۔ اسی لیے اسلام نے حدود و تعزیرات کے ذریعے ایسی ذہنیت اورایسے افراد کی حوصلہ شکنی کی ہے، جو ذاتی مفادات اور خواہشات نفس کی تکمیل کے لئے دوسروں کے مفادات و خواہشات سے کھلواڑ کرنے کی جرأت کرتے ہیں اور ان افراد کی حوصلہ افزائی کی ہے جو سماج کے دوسرے ضرورت مندوں اور محتاجوں کا درد اپنے دلوں میں سمیٹنے کی قدرت رکھتے ہیں ،تنگ دستوں اور تہی دستوں کے مسائل کو حل کرنے کی فکر میں رہتے ہیں ،اپنے آرام کو تج کرکے دوسروں کی راحت رسانی میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں، بہ الفاظ دیگر خدمت خلق کے میدان میں کام کرتے ہیں۔ لوگوں کی نفع رسانی کے لیے کام کرنے والا شخص اسلام کی نگاہ میں بہترین شخص ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف صاف ارشاد فرمایا :’’خیرالناس من ینفع الناس‘‘ (کنزالعمال)ترجمہ: لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہونچائے۔
مذکورہ روایت میں نفع رسانی کے لئے کام کرنے کی ترغیب ہے اور بغیر کسی قید کے ساتھ ہے اس لیے کہ صرف مسلمانوں کے لئے نفع رسانی کا کام کرنے والا ہی اللہ کا محبوب نہیں ہے بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ نفع رسانی کا کام کرنے والا بھی اللہ کا محبوب ہے جس سے بڑی آسانی سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام نے خدمت خلق کے دائرہ کارکو صرف مسلمانوں تک محدود رکھنے کا حکم نہیں دیا ہے، بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی انسانی ہمدردی اور حسن سلوک کی ترغیب دی ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے وہیں تمام مخلوق کو اللہ کا کنبہ بھی قرار دیا ہے، جس کے نتیجے میں انسانیت کی تعمیر کے لئے آپسی ہمدردی ،باہمی تعاون اور بھائی چارے کی ایسی وسیع ترین بنیاد فراہم ہوئی ہے جس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی ،پڑوسیوں کے حقوق کی بات ہو، مریضوں کی تیمارداری کا معاملہ ہو ،غرباء کی امداد کا مسئلہ ہو یا انسانی حقوق کے دوسرے مرحلے ہوں؛ اسلام نے رنگ ونسل اور مذہب وملت کی تفریق کے بغیر سب کے ساتھ یکساں سلوک کو ضروری قرار دیا ہے، حیرت ہے ان لوگوں پر جنہوں نے مذہب اسلام کی من گھڑت تصویر پیش کرتے ہوئے یہاں تک کہا ہے کہ اسلام میں خدمت خلق کا کوئی جامع تصور موجود نہیں ہے، بلکہ اسلام نے مسلمانوں کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کریں، حالانکہ مذہب اسلام نے بنیادی عقائد کے بعد خدمت خلق کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے، اور اپنے ماننے والوں کو سب کے لیے خیر خواہی کا پابند بنایاہے۔ تبلیغ دین کے فریضے کو سرانجام دینے کا حکم بھی خیرخواہی کے جذبے کے تحت ہی ہے ،تاکہ انسانیت کو جہنم کے گڑھے میں جانے سے بچایاجاسکے ۔حتی کہ جب تک غیر مسلموں کی طرف سے صریح دشمنی کا اظہار نہ ہو، مسلمانوں کی مذہبی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کریں،قرآن مجید کی سورہ نساء میں مشرک قیدیوں کو کھانا کھلانے والوں کی تعریف موجود ہے ،جس سے اسلام کے خدمت خلق کے دائرہ کار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،علم حدیث سے واقفیت رکھنے والے علماء جانتے ہیں کہ فرامین نبوی کے ایک بڑے حصہ کا تعلق حقوق العباد اور خدمت خلق سے ہے ،طول کلامی سے اجتناب ان روایتوں کے تذکرے کی اجازت نہیں دیتا ہے ورنہ سینکڑوں روایتیں ذکر کی جاسکتی ہیں تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند مشہوراحادیث کا تذکرہ کردیاجائے۔
۱-تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا(ترمذی شریف)،۲۔قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتاہے (الجامع الصغیر للسیوطی)،۳۔اللہ اپنے بندے کی مدد میں اس وقت تک رہتا ہے ،جب تک بندہ اپنے بھائی کی مددکرتاہے(مسلم شریف)،۴۔ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن کامل نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے(مسلم شریف)،۵۔جو رحم نہیں کرتا ہے اس پر رحم نہیں کیاجاتا ہے (مسلم شریف)
مذکورہ روایات سے بسہولت کوئی بھی شخص خدمت خلق کے سلسلے میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے مزاج کا اندازہ لگاسکتاہے، پھر یہ کہ مذکورہ تعلیمات محض زبان خرچی نہیں ہے کہ کسی کو اعتراض کا حق حاصل ہو ،بلکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مطالعے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی بھی خدمت خلق سے لبریز ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی ذات سے دلچسپی رکھنے والا ہر شخص جانتاہے کہ بعثت سے قبل بھی آپ خدمت خلق میں خوب مشہور تھے، بعثت کے بعد تو خدمت خلق کے جذبہ میں مزید اضافہ ہوگیاتھا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ طیبہ میں ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تو ترجیحی بنیاد پرمعاشرے میں معاشی استحکام کے لیے اہل ثروت کو انفاق فی المال کی تلقین فرمائی اور باضابطہ نظام بیت المال قائم فرما کر مال و دولت کو یتیموں مسکینوں اور معاشرے کے دوسرے پست طبقات پر اس طرح خرچ فرمایا کہ ان کی معاشی دقتیں ختم ہوسکیںاور وہ معاشرہ میں مطلوبہ کردار سرانجام دے سکیں۔سیرت نگاروں کا اتفاق ہے کہ راست گوئی، امانت داری، مسکینوں کی دادرسی ،مفلوک الحال پر رحم وکرم ، محتاجوں ،بے کسوں اورکمزوروں کی مددآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے وہ نمایاں اوصاف تھے جن کی گواہی معاشرے میں ہر کوئی دیتاتھا ۔یہی وجہ تھی کہ پہلی وحی کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور نزول وحی کے دوران پیش آنے والے سخت ترین حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی جان کے سلسلے میں تحفظات کا اظہار فرمایا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے یہ کہتے ہوئے کہ ’’خدا آپ کو کبھی رسوا نہ کرے گا‘‘ خدمت خلق سے متعلق وہ کام شمار کرائے جوآپ اس وقت کرتے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تھا کہ آپ خوش ہو جائیے، خدا کی قسم، آپ کو خدا کبھی رسوا نہ کرے گا، آپ رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں،امانتیں ادا کرتے ہیں، بے سہاروں کا بار برداشت کرتے ہیں، نادار لوگوں کو کما کر دیتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور نیک کاموں میں دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔ سیرت طیبہ پر نگاہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباً بیس سال کی عمرمیں ہی واقعہ حلف الفضول میں شرکت فرمائی تھی جس میں مظلوموں کی حمایت ،غریبوں کی مدد، مسافروں کی حفاظت؛ جیسے مزید کچھ امور پر معاہدے ہوئے تھے ۔پھر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی جو جماعت تیار فرمائی تھی وہ جماعت بھی خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار تھی، حضرت ابوبکرؓکا تلاش کرکے غلاموں کو آزاد کرانا ،حضرت عمرفاروقؓ کا راتوں کولباس بدل کر خلق خدا کی دادرسی کے لئے نکلنا ،حضرت عثمانؓ کا پانی فروخت کرنے والے یہودی سے کنواں خرید کر مسلم وغیر مسلم سب کے لئے وقف کردینا ؛تاریخ کے مشہورترین واقعات میں سے ہے، انصار کا مہاجرین کے لئے مثالی تعاون بھی اسی زمرہ میں آتاہے، خدمت خلق کا یہ جذبہ مذکورہ چند صحابہ کرام میں ہی منحصر نہیں تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اصحاب کا یہی حال تھا،انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے نظام مصطفی کی سچی تصویر دنیا کے سامنے پیش کی تھی ،انہوں نے اپنے کردار سے سماجی فلاح وبہبود اور خدمت خلق کا وہ شاندار نقشہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ کردیا ہے جس کی نظیر دنیا کا کوئی نظام حیات کبھی پیش نہیں کرسکتا، یہ ملت اسلامیہ کی بدقسمتی ہے کہ اس نے نماز ،روزہ ،زکوٰ ۃ اور حج کو عبادات کا حدود اربعہ سمجھ رکھاہے اورمعاشرت،معاملات اور اخلاقیات کو مذہب سے باہر کردیا ہے ،جو بڑی تشویش ناک بات ہے۔
لہذافرقہ پرستی اوراخلاقی بحران کے اس دور میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ سماج کے بااثر افراد ،تنظیمیں اور ادارے خدمت خلق کے میدان میں آگے آئیں اور مضبوطی کے ساتھ اپنے قدم جمائیں ،دنیا کو اپنے عمل سے اسلام سکھائیں، لوگ اسلام کو کتابوں کے بجائے ہمارے اخلاق و کردار سے ہی سمجھناچاہتے ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے کچھ ادارے بہتر کام کررہے ہیں ، لیکن مزید بہتری لانے کی شدید ضرورت ہے، اپنے نجی اسکولوں اور مدارس کے نصابوں میں اخلاقیات کو بنیادی اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ عملی مشق کرائیں، تاکہ نئی نسلوں میں بھی خدمت خلق کا جذبہ پروان چڑھے۔ہمیں یادرکھناچاہیے کہ خدمت خلق صرف دلوں کے فتح کرنے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اسلام کی ترویج واشاعت کا موثر ہتھیار بھی ہے۔ خواجہ الطاف حسین حالی کی زبانی:
خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر
نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر
کسی کے گر آفت گزر جائے سر
پڑے غم کا سایہ نہ اس بے اثر پر
کرومہربانی تم اہل زمیں پر
خدامہرباں ہوگا عرش بریں پر

 

Comments are closed.