شریف النفس کانگریسی رہنما احمد پٹیل کا انتقال تحریر : مسعود جاوید

شریف النفس کانگریسی رہنما احمد پٹیل کا انتقال

 

تحریر : مسعود جاوید

 

ایک ایسے وقت میں جب کانگریس پارٹی میں اعلیٰ قیادت اور طریقہ کار پر متصادم افکار والی شخصیات کو پارٹی کے ہدف حقیقی کی دہائی دے کر اتفاق رائے بنانے کی سخت ضرورت ہے، اس دشوار گزار راہ کے سب سے زیادہ تجربہ کار اور قابل اعتماد شخص احمد پٹیل کا انتقال کانگریس کے لئے اور بالخصوص مسز سونیا گاندھی کے لئے بلا شبہ بہت بڑا خسارہ ہے۔

مختلف سوچ رکھنے والی شخصیات، پارٹی کے قدآور لیڈر ہوں یا دوسری سیکولر پارٹیوں کے سربراہان، کو کسی ایک اہم نقطہ پر آنے کے لئے راضی کرنا احمد پٹیل صاحب کی سب بڑی خصوصیت تھی۔ اس کی ایک تازہ مثال مہاراشٹر میں اتحادی حکومت ہے۔ جو ناممکن تھا اسے احمد پٹیل "احمد بھائی” یا "بابو بھائی” نے ممکن بنادیا تھا۔ مہاراشٹر میں انتخابات کے نتائج آنے کے بعد برسراقتدار بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا ایک ہی راستہ تھا کہ کانگریس شیو سینا اور این سی پی کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دے۔ مگر کئی ہفتے گزرنے کے بعد بھی ایسے کسی اتحاد پر اتفاق نہیں ہو پایا۔ شردپوار نے مسز سونیا گاندھی سے ملاقات کی ادھو ٹھاکرے بھی مل لۓ لیکن خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا تو کانگریس کے سینیئر رہنماؤں اور شردپوار کی نظر احمد پٹیل کی طرف اٹھی کہ وہی ایک شخص مسز سونیا گاندھی کو قائل کر سکتا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا احمد پٹیل نے مسز گاندھی کو سمجھایا کہ بی جے پی کو اقتدار سے باہر کرنے کے لئے یہ سب سے اچھی ترکیب ہے ان کی بات سے مطمئن ہونے کے بعد مسز گاندھی نے ازلی حریف شیو سینا کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے لئے رضامندی ظاہر کی اس طرح اگر یہ کہا جائے کہ مہاراشٹر میں ناممکن کو ممکن بنا کر حکومت کی تشکیل احمد پٹیل مرحوم کی دین ہے تو شاید مبالغہ نہیں ہوگا۔ اس طرح بے شمار مواقع قابل ذکر ہیں جن میں احمد پٹیل صاحب نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور آنجہانی راجیو گاندھی سے لے کر مسز سونیا گاندھی تک کانگریس صدور کے سب سے زیادہ معتمد خاص رہے۔ اور کیوں نہ ہوں ۔ انہوں نے بے غرض بے لوث خدمت کی جو مثال پیش کی ہے اس کی نظیر آج کے ٹرن کوٹ کے دور میں تصور نہیں کیا جاسکتا۔ پہلی بار ١٩٧٦ میں مقامی الیکشن میں فتحیاب ہوۓ اس کے بعد ١٩٧٧ میں مسز اندرا گاندھی کی ایماء پر جنرل الیکشن میں حصہ لیا اور فتح حاصل کر کے سب سے کم عمر ممبر پارلیمنٹ کی حیثیت سے لوک سبھا پہنچے۔ اس کے بعد ٨٠, ٨٤ اور ٨٩ میں منتخب ہوتے رہے۔ ١٩٩٣ سے لےکر ٢٠٢٠ یعنی اپنی آخری سانس تک راجیہ سبھا کے ممبر رہے۔

صلاحیتوں کی پرکھ، اور لیاقتوں کو بروئے کار لانے کی صلاحیت اور جذبہ راجیو گاندھی میں بدرجہ اتم موجود تھا اور سیاسی گلیاروں سے دور رہنے کی وجہ سے ان اقتدار میں آنے کے بعد اچھے لوگوں کی ضرورت بھی تھی۔ ہندوستان میں ٹیلی کمیونیکیشن اور آئی ٹی میں انقلاب کی شروعات کا سہرا راجیو گاندھی کے سر ہے انہوں نے امریکہ سے سام پٹروڈا کو لا کر اس فیلڈ کو ڈیویلپ کرنے کا کام سونپا چنانچہ بیس لاکھ ٹیلی فون کنکشن ڈیجیٹلائزیشن کے بعد ایک سو بیس لاکھ ہو گۓ۔ اسی جوہر شناس یا ملک کو تعمیر وترقی کی راہ پر لے جانے کے جذبہ والے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے لئے تین معتمد خاص کا انتخاب کیا ؛ احمد پٹیل، آسکر فرنانڈیز اور اپنے دون اسکول میں تعلیم کے دوران کے دوست ارون سںگھ۔ ۔۔۔۔ احمد پٹیل گو، میڈیا سے دور رہتے اور اپنی شخصیت اور حیثیت نمایاں نہیں کرتے تھے، سیاسی سماجی اور ملی قائدین کے لئے حلقہ وصل تھے۔۔۔ ملائم سنگھ یادو ہوں یا لالو پرساد، سیبو سورین ہوں یا کوئی اور مقامی پارٹی کے سربراہ ہر ایک کو احمد پٹیل کی تلاش رہتی تھی اس لئے کہ مسز سونیا گاندھی سے ملنے اور ان تک اپنی بات اچھی طرح پہنچانے کا سب سے بھروسہ مند واسطہ "احمد بھائی” تھے. کئی ملی لیڈروں سے سنا کہ کانگریس اعلی قیادت سے ملاقات یا بات پہنچانے میں سب سے زیادہ معاون احمد بھائی ہوتے ہیں۔ بہت سے سوشل ورکر علماء و غیر علماء کے لئے ان کا دروازہ کھلا رہتا تھا یعنی کسی کی پہنچ سے باہر نہیں تھے۔ easily accessible.

ان پر اعلی قیادت کو اس قدر بھروسہ اور اطمینان کا راز یہ ہے کہ غیر گاندھی خاندان کے اکیلے ایسے فرد تھے جنہوں نے اتنی طویل وابستگی کے باوجود وزارت وغیرہ کسی قسم کے عہدے کو قبول کرنے سے انکارکیا اور پارٹی کے لئے نام و نمود کی پرواہ کئے بغیر پردے کے پیچھے سے بے لوث خدمت کرتے رہے۔

 

میں سمجھتا ہوں جس بحران سے کانگریس اعلی قیادت آج گزر رہی ہے پارٹی صدر کے انتخاب سے لے کر پارٹی کے سینیئر رہنماؤں کے مابین توافق کی کمی اور ریاستوں میں طریقہ کار اور لائحہ عمل کا فقدان، ایسے وقت میں کانگریس اور خاص طور پر مسز گاندھی اس سنکٹ موچن کو بری طرح مس کر رہی ہوں گی۔ احمد پٹیل مرحوم کی موت واقعی مسز گاندھی اور کانگریس کے لئے بہت بڑا خسارہ ہے۔

Comments are closed.