کیا کارپوریٹ گھرانے اب اپنا بینک چلائیں گے؟

سراج الدین فلاحی
حال ہی میں ملک کے مرکزی بینک ریزروبینک آف انڈیا (آربی آئی) کےانٹرنل ورکنگ گروپ (Internal working group) نے سفارش کی ہے کہ انڈیا میں بڑے کارپوریٹ گھرانوں کو بینکوں کاپروموٹر بنا دینا چاہیے۔ ورکنگ کمیٹی کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں جو بڑے کاروباری ہیں انہیں ہر وقت پونجی کی ضرورت ہوتی ہے اور کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ انہیں پونجی آسانی سے دستیاب نہیں ہو پاتی۔ اگر ان کا اپنا بینک ہو گا تو پونجی کا انتظام کرنا ان کے لئے بہت آسان ہو جائے گا۔ اس لئے اب ان کو اپنا بینک کھولنے کا لائسنس ملنا چاہیے جو کہ اب تک انہیں حاصل نہیں تھا۔ اس سلسلے میں قابل غور بات یہ ہے کہ گذشتہ پچاس سالوں سے آربی آئی اس طرح کی سفارشات کی مخالفت کرتا رہا ہے لیکن اب آربی آئی کے ورکنگ گروپ ہی سے اس طرح کے مشورے آرہے ہیں۔ چنانچہ اس پر آربی آئی کے سابق گورنر رگھورام راجن اور ڈپٹی گورنر وی اچاریہ نے یہ کہتے ہوئے کافی تنقید کی ہے کہ یہ ملک اور معیشت کے لئے بہت خطرناک قدم ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ اپوزیشن پارٹیوں نے بھی ہنگامہ کیا ہے۔ بڑے کارپوریٹ کا مطلب بڑے کاروباری ہوتے ہیں جیسے ٹاٹا، برلا، اڈانی، امبانی، مودی، مہندرا، کوٹک، بجاج وغیرہ۔ ان بڑے کاروباریوں کو اپنا بینک کھولنے کی اجازت دینے کا مطلب یہ ہوا کہ ڈپوزٹ آپ کا ہو اور بینک سیٹھ جی کا ہو تاکہ سیٹھ جی خود کو آسانی سے قرض دے سکیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کے بڑے کارپوریٹ گھرانوں کے ہاتھوں بینک کے شعبے کا سونپ دیا جانا اور ان کو بینکوں کا پروموٹر بنا دینا ملک کے لئے مناسب ہوگا؟ اگر ان سفارشات پر عمل کیا گیا تو اس سے معیشت اور عوام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
ہم بہت دنوں سے سن رہے ہیں کہ سرکاری بینک پرائیویٹ ہاتھوں میں دیے جائیں گے۔ ورکنگ گروپ کی یہ سفارشات اس سے بھی دو قدم آگے کی باتیں ہیں۔ ابھی تک آربی آئی یہ کہہ کر ان گھرانوں کو بینک کھولنے کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ پروموٹر کا مطلب اصل مالک ہوتا ہے جو بینکوں سے متعلق تمام فیصلے کر سکتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بڑے کارپوریٹ گھرانے مالک بن کر تمام مالیاتی فیصلے اپنے حق میں کرنے لگیں۔ اب اگر ورکنگ گروپ کی یہ سفارشات مان لی گئیں اور ان گھرانوں کو بینک کا لائسنس مل گیا تو عوام کا پیسہ دھنا سیٹھ کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔ اس سے ملک کی معاشی طاقت چند ہاتھوں میں سمٹ کر آ جائے گی اور ان چند ہاتھوں کو جب بھی پیسوں کی ضرورت ہو گی تو چونکہ یہ بینکوں کے مالک ہوں گے اس لئے یہ آسانی سے جب چاہیں گے اور جتنی مقدار میں چاہیں گے قرض لے سکیں گے۔ اس سے غلط لینڈنگ شروع ہو جائے گی، غلط لینڈنگ سے بیڈ لون بڑھے گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ مزید بڑھ جائے گا۔
جس طرح انسانی جسم کو خون کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح کاروباریوں کو پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر بڑے کارپوریٹ گھرانوں کو بینک کے مالکانہ حقوق دے دئے جائیں تو چھوٹے کاروباریوں کو قرض ملنا مشکل ہو جائے گا۔ آپ ذرا تصور کیجیے کہ اگر قرض دہندہ اور قرض لینے والا (Lender & Borrower ) ایک ہی ہو جائیں تو عوام کی بچت جو بینکوں میں ہے اس کا کیا ہوگا؟ ظاہر ہے نقصان عوام کا ہی ہوگا۔ گذشتہ کچھ مہینوں میں کارپوریٹ جگت کے کچھ لوگ بینکوں سے عوام کا ہزاروں لاکھوں کروڑ روپیہ لے کر بھاگ گئے اور سرکار انہیں پکڑنے میں ناکام رہی ہے۔یَس بینک کا واقعہ زیادہ پرانہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے نیرو مودی، ماہل چوکسی، وجے مالیا کی خبریں مسلسل اخباروں کی زینت بنتی رہی ہیں کہ یہ لوگ کس طرح بینک آف بڑودا اور دیگر بینکوں سے ہزاروں کروڑ روپیہ کا لون لے کر بھاگ گئے۔ پی ایم سی گھوٹالہ کسی سے چھپا نہیں ہے۔آئی ایل اینڈ ایف ایس ( IL & FS ) گھوٹالہ بھی ابھی ذہنوں سے محو نہیں ہوا ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ بینکنگ سیکٹر میں اتنے گھوٹالوں کے باوجود اب آربی آئی انہیں کارپوریٹ گھرانوں کے ہاتھوں پورا کا پورا بینک ہی سوپنے کی بات کر رہا ہے۔ یعنی جن لوگوں کو پیسوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے یا جو پیسے لے کر بھاگ رہے ہیں اب انہیں سے کہا جا رہا ہے کہ آپ اپنا بینک کھول لیجیے۔ مطلب چور کو ہی کوتوال بنایا جا رہا ہے۔ تصور کیجیے اگر اس وقت ماہل چوکسی، نیرو مودی اور وجے مالیا وغیرہ کا اپنا بینک ہوتا تو ان بینکوں کا کیا حال ہوتا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ انڈیا میں اب قانون کی حکمرانی بچی ہی نہیں ہے۔ عجیب و غریب صورت حال ہے کہ بینکوں میں 73 فیصد این پی اے انہیں کارپوریٹ گھرانوں کی وجہ سے ہے، ماضی میں بینکوں سب سے زیادہ نقصان کو انہیں صنعت کاروں اور کارپوریٹ ہاؤسز نے پہنچایا ہے اور اب انہیں کو بینکنگ سیکٹر سوپنے کی باتیں کہی جا رہی ہے۔ اصول کے مطابق کھاتے دار کا پیسہ جب بینک میں جمع ہوتا ہے تو سرکار کی ایک طرح سے ذمہ داری ہو جاتی ہے کہ اگر بینک ڈوبے گا تو سرکار آ کر اسے بچائے گی۔ جب بینک ڈوب جاتے ہیں تو سرکار کا اسے بچانا اور اور قرض لے کر بھاگنے والوں کو سزا دینا اس کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ آر بی آئی کا ورکنگ گروپ صرف کارپوریٹ گھرانوں کو بینک سوپنے کی بات نہیں کر رہا ہے بلکہ مزید آگے بڑھ کر یہ بھی مشورہ دے رہا ہے کہ بینک میں پروموٹرس کےحصص یا شیئرز کو 15 فیصد سے بڑھا کر 26 فیصد کر دیا جائے تاکہ ان کو کسی بھی طرح کی فیصلہ سازی میں کوئی دقت نہ ہو۔ ظاہر ہے اس کا اثر یہ ہو گا کہ ان کو جب بھی قرض کی ضرورت ہوگی تو ان کو اپنے آپ کو قرض دینے میں کسی طرح کی کوئی دقت بھی نہیں ہوگی۔ گروپ کا مزید کہنا ہے کہ آربی آئی بینکنگ سے متعلق سخت قانون بنائے تاکہ بھاگنے والوں پر لگام لگائی جا سکے۔ سوال یہ ہے کہ سخت قوانین تو پہلے سے موجود ہیں۔ کیا ان سے پیسوں کی چوری رک گئی؟ اگر سخت قانون ہی اس کا حل ہے تو پہلے سے قانون کی موجودگی میں یہ سارے فراڈ کیوں کر ہوئے۔
بینکوں کی ملکیت کارپوریٹ گھرانوں کے ہاتھوں دینے میں دوسرا بڑا خطرہ یہ ہے کہ معاشی قوت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں چلا جائے گا۔ اوراگر کہیں یہ معاشی قوتیں سیاسی طاقتوں کے ساتھ مل جائیں یا سیاسی دباؤ میں آ جائیں تو عوام کا کیا ہوگا؟ کیا صنعت کاروں کو ایک بڑا فائدہ حاصل نہیں ہوگا؟ کیا کارپوریٹ سیکٹر پر برا وقت آنے پر وہ بلا روک ٹوک اپنے بینک سے قرض نہیں لیں گے؟ کیا بینکوں میں رکھی عوام کی گاڑھی کمائی کے لٹنے کا ڈر ہمیشہ نہیں رہے گا؟ اسی لئے امریکہ جیسے ملک میں بھی یہ قانون نہیں ہے کہ بینکنگ سیکٹر کارپوریٹ گھرانوں کے رحم کرم پر چھوڑ دیئے جائیں۔ لہذا سرکار اور ریزرو بینک آف انڈیا کو چاہیے کہ کارپوریٹ گھرانوں کو بینکنگ کے ساتھ بلا واسطہ طور پر نہیں جوڑنا چاہیے۔ اور یہ ہمارے ملک کی موجودہ صورت حال کے لئے کافی نقصان دہ ثابت ہوگا۔ اگر کل کوئی بھی کارپوریٹ پیسہ لے کر بھاگ گیا تو نقصان عوام کا ہی ہوگا۔ اگر سرکار ٹیکس دہندگان کے پیسے (Bailout Package) سے بینک کو بچانے کی کوشش کرئے گی تو وہ بیل آؤٹ پیکج کا استعمال کرئے گی تب بھی اس کا نقصان ہوگا اور یہ ملک کی معیشت کے لئے بہتر ثابت نہیں ہوگا۔
٭مضمون نگار دہلی میں معاشیات کے استاذ اور درسی کتاب ‘جزوی معاشیات’ کے مصنف ہیں۔
Comments are closed.