شیعیت (ابتدا، پس منظر اور حقیقت)

محمد قاسم اوجھاری
عہد نبوی میں ہی پورا جزیرة العرب اسلام کے زیر اقتدار آگیا تھا، وہاں کوئی دشمن طاقت ایسی باقی نہیں رہی تھی جو اسلام کا راستہ روک سکے، پھر عہد صدیقی و فاروقی میں مزید مضبوطی آئی، اس کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بھی اسلامی دعوت اور فتوحات کا سلسلہ برابر چلتا رہا، اور لوگ اپنے پرانے ادیان و مذاہب کو چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوتے رہے، لیکن کچھ لوگ اس منصوبے کے ساتھ بھی مسلمان ہو رہے تھے کہ ان کو جب کبھی موقع ملے گا وہ کوئی فتنہ برپا کرکے اسلام کو نقصان پہنچائیں گے اور طرح طرح کی سازشیں کر کے اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کریں گے۔
اسی طبقہ میں صنعاء کا ایک یہودی عالم عبد اللہ بن سبا بھی تھا، اس نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اپنے قبول اسلام کا اعلان کیا (بعد میں جو اس کا کردار سامنے آیا اس سے معلوم ہوگیا کہ اس کا اصل مقصد مسلمانوں میں شامل ہوکر اپنے خاص کرتبوں اور مکرو فریب سے ان میں مقبولیت حاصل کرکے اسلام کی جڑیں کاٹنا اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور شقاق پیدا کرکے فتنہ و فساد برپا کرنا تھا) اس نے دوسرے منافقین کے ساتھ مل کر نو مسلموں کو فریب دے کر اسلام کے مٹائے ہوئے خاندانی امتیاز اور نسلی عصبیت کو تعلیم اسلامیہ اور مقاصد ایمانیہ کے مقابلے میں زندہ کرنے کی خوب محنت کی۔ عبد اللہ بن سبا نے مدینہ، بصرہ، کوفہ، دمشق اور قاہرہ کے تمام مرکزی شہروں میں تھوڑے تھوڑے دنوں قیام کرکے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف نہایت چالاکی، ہوشیاری اور شرارت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حقدار خلافت ہونے کو نو مسلم لوگوں میں اشاعت دے کر بنی امیہ اور بنی ہاشم کی پرانی عداوت اور عصبیت کو جو مردہ ہو چکی تھی پھر زندہ کرنے کی خوب کوشش کی۔ سب سے پہلے وہ مدینہ پہنچا اور مدینہ منورہ کے مختصر قیام کے دوران اس نے اپنی ذہانت سے مسلمانوں کی کمزوری کو بھانپ لیا، اور یہاں اس نے اپنے شر انگیز خیالات کی اشاعت کرنی چاہی مگر چونکہ یہاں صحابہ کرام کی کثرت اور ان کا اثر غالب تھا، لہذا اس کو ناکامی ہوئی اور خود ہاشمیوں نے ہی اس کے خیالات کو سب سے زیادہ ملعون و مردود قرار دیا۔ مدینہ سے مایوس ہوکر وہ حکیم ابن جبلہ کے پاس بصرہ پہنچا، وہاں عراقی و ایرانی قبائل کے نو مسلموں میں اس نے کامیابی حاصل کی، اور چند لوگوں کو اپنا ہمنوا بنالیا، پھر وہ شام گیا، یہاں بھی اس نے تھوڑی سی شرارت پھیلائی، لیکن حضرت امیر معاویہ حاکم شام کے بر وقت مطلع ہوجانے سے زیادہ دنوں تک قیام نہ کر سکا، لہذا یہاں اس کو اپنے منصوبے کے مطابق کام کرنے کا موقع نہ ملا، اس کے بعد وہ مصر پہنچا، وہاں اس نے ایسے لوگوں کو پالیا جن کو وہ آلہ کار اور اپنی مفسدانہ مہم میں مددگار بنا سکے، چنانچہ اس نے اسلامی احکامات اور دیگر شرعی باتوں میں خوب مبالغہ آرائیاں، جعل سازیاں کیں، جس سے جاہلوں کا ایک بڑا طبقہ فریب کا شکار ہو گیا، اس کے بعد اس نے کہنا شروع کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت و امامت اور حکومت کی سربراہی دراصل حضرت علی کا حق تھا، اس لئے کہ ہر نبی کا ایک وصی ہوا ہے، اور وصی ہی نبی کے بعد اس کی جگہ امت کا سربراہ ہوتا ہے، اور حضور کے وصی حضرت علی تھے، لہذا خلافت کے حق دار بھی وہی تھے، لیکن حضور کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد لوگوں نے سازش کرکے ابوبکر کو خلیفہ بنا دیا، اور انہوں نے اپنے بعد عمر کو نامزد کر دیا، پھر ان کے بعد بھی آپ کے خلاف سازش ہوئی اور عثمان کو خلیفہ بنا دیا گیا، جو اس کے بالکل اہل نہ تھے، اس طرح کی سازشیں کرکے اور جھوٹے پروپیگنڈے پھیلاکے اس نے مصر کے علاوہ دوسرے بعض شہروں اور علاقوں میں بھی اپنے کچھ ہم خیال بنالیے، اس کے بعد اس نے بڑے پیمانے پر ایک خفیہ سازش کی اور بلوائیوں کا ایک بڑا لشکر لے کر مدینہ پہنچ گیا، عبد اللہ بن سبا کی من گھڑت باتوں اور مکاریوں میں پھنس کر بلوائیوں نے مدینہ والوں کو خوب خوفزدہ کیا، اور بالآخر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید بھی کردیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ -جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی حکومت کے فرما رواں تھے- اگر ان باغیوں کے خلاف طاقت استعمال کرنے کی صرف اجازت دے دیتے تو وہ ہرگز نہ ہوسکتا تھا جو ہوا، لیکن آپ نے نہیں چاہا کہ آپ کی جان کی حفاظت کے لیے کسی کلمہ گو کے خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر گرے، اور خود مظلومانہ شہید ہوکر اللہ کے حضور پہنچ گئے، دنیا میں مظلومانہ شہادت و قربانی کی ایک عظیم مثال قائم کر دی۔
اس خونی فضا میں چوتھے خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ منتخب ہوئے، لیکن حضرت عثمان غنی کی مظلومانہ شہادت کے نتیجے میں امت مسلمہ دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی، عبد اللہ ابن سبا کا پورا گروہ حضرت علی کی طرف داری میں تھا، جن کا ایک عقیدہ یہ بھی ہو گیا تھا کہ حضرت علی اس دنیا میں خدا کا روپ ہیں، اور ان کے قالب میں خداوندی روح ہے، گویا وہی خدا ہیں (نعوذ باللہ) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب عراق کے اندر کوفہ میں اپنا دار الحکومت بنایا تو یہ علاقہ اس گروہ کی سرگرمیوں کا خاص مرکز بن گیا، یہاں اس گروہ کو اپنے مشن میں زیادہ کامیابی حاصل ہوئی، اور عبد اللہ ابن سبا کا لگایا ہوا پودا خوب تناور ہوگیا جس کا سایہ نہایت ہی برا تھا، ان حضرات نے شریعت اسلامیہ کے خلاف خوب عقائد گھڑے حتی کہ صحابہ کرام کو گالیاں بھی دیں، بہت سے لوگوں نے ان ظاہر پرست مسلمانوں پر اعتماد کرلیا حالانکہ یہ لوگ اسلام کے نام لیواؤں کے قاتل بھی بنے اور محب بھی۔ بقول بعض: ع صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔ بعض روایات کے مطابق حضرت علی اور حضرت حسن رضی اللہ عنہما نے ان لوگوں کا کردار سامنے آنے پر ان کو سخت سزائیں دیں۔ اس فتنہ نے تیس ہجری سے چالیس ہجری تک مسلمانوں کو خانہ جنگی میں مصروف رکھ کر اسلام کو خوب نقصان پہنچایا۔ ان منافقین، تقیہ پرست اور اسلام دشمن گروہ کا نام شیعہ ہے، جس کی جڑیں یہودیت سے ملتی ہیں۔
Comments are closed.