شیئر بازار میں اچھال کیوں اور کیسے؟

 

 

سراج الدین فلاحی

 

آپ لوگوں میں سے جو لوگ اسٹاک مارکیٹ پر نظر رکھتے ہیں یا اس کا تجزیہ کرتے ہیں آج کل وہ اس بات کو لے کر کافی کنفیوز ہیں کہ ایک طرف GDP لگاتار نیچے کی طرف جا رہی ہے وہیں دوسری طرف شیئر مارکیٹ بطور خاص سنسیکس کیسے اپنی تاریخ کے سب سے اونچی سطح یعنی 44000 کو کراس کر گیا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا اس سال مارچ میں جب لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا تھا اس وقت شیئر مارکیٹ بہت تیزی سے ڈاؤن ہوا تھا اور گر کر کافی نیچے 25000 تک آ گیا تھا لیکن اس کے بعد اس میں لگاتار Recovery ہوئی ہے اور اس ماہ (نومبر) کی ابتدا سے تو اس میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ کافی کنفیوزن پیدا کر رہا ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ معیشت کا گروتھ ریٹ منفی ہے لیکن اسٹاک مارکیٹ میں لگاتار ریکارڈ اچھال دیکھنے کو مل رہا ہے۔

 

سب سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ اسٹاک مارکیٹ کیا ہوتا ہے؟ اسٹاک مارکیٹ ایک ایسی آن لائن مارکیٹ ہوتی ہے جس کے اندر کمپنیوں کے شیئرز کی خریدوفروخت ہوتی ہے۔ پبلک ان شیئرز کو خریدتی ہے اور اس میں اپنا پیسہ لگاتی ہے۔ اب سوال ہے کہ شیئر کیا ہے؟ اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ فرض کرتے ہیں ایک کمپنی ہے اگر اس کو سو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور اس کا ایک حصہ آپ کو دے دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایک فیصد شیئر کے مالک ہیں۔ کمپنیوں کے شیئرز کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ اچھی کمپنیوں کے شیئرز کی تعداد دس بیس لاکھ یا اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ان شیئرز کی ایک قیمت ہوتی ہے اور انہیں قیمتوں کی وجہ سے اس کمپنی کی حیثیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ملک میں سنسیکس اور نفٹی دو مشہور شیئر بازار ہیں۔ Bombay Stock Exchange کے اندر جتنی بھی کمپنیاں Listed ہیں جن کے شیئرز کی خریدوفروخت ہوتی ہےاس میں جو ٹاپ 30 کمپنیاں ہیں ان کو سنسیکس کہتے ہیں۔ یہ 30 کمپنیاں وقت وقت پر بدلتی رہتی ہیں۔ اسی طرح National Stock Exchange کے اندر جو کمپنیاں Listed ہیں ان میں ٹاپ 50 کمپنیوں کو نفٹی کہتے ہیں۔

 

اس سال مارچ میں جیسے ہی لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا اسٹاک مارکیٹ کو زبردست دھچکا لگا اور سنسیکس گر کر 25000 تک آ گیا لیکن اس کے بعد اس میں اضافہ ہوا اور یہ لگاتار بڑھتا ہی چلا گیا۔ اس وقت یہ اپنی تاریخ کی سب سے اونچی سطح یعنی 44000 کو بھی عبور کر چکا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ اکتوبر کے آواخر تک 39000 تھا لیکن صرف اس ماہ یعنی نومبر میں اس میں تقریبا 5000 پوانٹس کا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔اب آتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ معیشت ڈاؤن جا رہی ہے اور اسٹاک مارکیٹ میں بجلی کی سی تیزی ہے۔

 

اسٹاک مارکیٹ میں FPI یعنی Foreign Portfolio Investment ایک اہم رول ادا کرتا ہے۔ اس وقت FPI میں زبردست اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ (غیر ملکی کمپنیوں کے ذریعے سیکورٹیز اور شیئرز میں کی گئی سرمایہ کاری جو صرف منافع کمانے کے مقصد سے کی جاتی ہے اسے Foreign Portfolio Investment کہتے ہیں) اگر ہم فارن پورٹیفولیو انویسٹر کی بات کریں تو اچھی بات یہ ہے کہ وہ اس وقت قلیل مدتی نہیں بلکہ طویل مدتی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ ان کے ذریعے صرف نومبر کے مہینے میں 44000 کروڑ سے بھی زیادہ کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ حالانکہ اس مالیاتی سال میں اب تک انہوں نے تقریبا 138000 کروڑ کی سرمایہ کاری کی ہے۔ ان کو دیکھ کر Domestic Investor بھی اپنا بھروسہ دیکھا رہے ہیں اور آہستہ آہستہ اپنا پیسہ اسٹاک مارکیٹ میں لگا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم سب جانتے ہیں کہ کووڈ کی وبا کی وجہ سے ملک کی زیادہ تر انڈسٹریز بند ہو گئیں تھیں جس کے سبب ملکی سرمایہ کاروں کو اپنا پیسہ اسٹاک مارکیٹ کے علاوہ دوسری جگہ لگانے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی لہذا انہوں نے شیئرز میں اپنا پیسہ انویسٹ کیا جس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ میں اچھال آیا۔

 

اسٹاک مارکیٹ کے لئے دوسری مثبت خبر امریکہ کا صدارتی الیکشن لے کر آیا ہے جس میں جیو بائیڈن نے جیت درج کی ہے۔ جیوبائیڈن کی کامیابی سے امریکہ سمیت دنیا کے تقریبا تمام ممالک کے شیئر بازاروں میں تیزی آئی ہے۔ ظاہر ہے اس کا اثر انڈیا کے شیئر مارکیٹ پر بھی پڑا ہے اور یہاں بھی سرمایہ کار اپنا پیسہ لگا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ کو معلوم ہوگا کہ بہت ساری کمپنیوں کے ذریعے کووڈ کے vaccine کا جس تیزی سے ٹرائل چل رہا ہے ایسا معلوم ہو رہاہے کہ اگلے دو ایک ماہ میں وہ ویکسن جاری کر سکتے ہیں۔ یہ بھی سرمایہ کاروں کے لئے ایک مثبت خبر ہے جس کی وجہ سے وہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں نتیجتا صرف اس ماہ ہمارے ملک کے شیئر بازار میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ لاک ڈاؤن کے بعد RBI نے معیشت میں کافی زیادہ Liquidity ڈالی تھی اس کا بھی شیئر بازار پر مثبت اثر پڑا ہے اور بازار میں تیزی دیکھنے کو ملی ہے۔

 

قابل غور بات یہ ہے کہ شیئر بازاروں میں اچھال پیدا کرنے اور اس کو گرانے کے یہ سب عوامل جو اوپر پیش کئے گئے ہیں بالکل سامنے کے عوامل ہیں جو ہمیں اور آپ کو نظر آ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پردے کے پیچھے کوئی اور ہوتا ہے جو سارا گیم کھیلتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس طرح کرکٹ کا میچ آج کل فکسڈ ہوتا ہے اسی طرح شیئر بازار بھی پہلے سے کافی حد تک طے شدہ ہوتے ہیں۔ بازار کے کھیل کو کون چلاتا ہے یا کون کنٹرول کرتا ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شیئر بازار کا سب سے پہلا کھلاڑی وہ ادارہ ہوتا ہے جس میں FII, Mutual Fund اور بڑے بروکرز شامل ہوتے ہیں۔ دوسرا کھلاڑی Promoter ہوتا ہے۔ یہ جس کمپنی کی اسٹاک مارکیٹ میں ٹریڈنگ ہوتی ہے اس کا مالک ہوتا ہے۔ تیسرا سب سے اہم کھلاڑی Operator ہوتا ہے۔ یہ کوئی بڑا آدمی یا گروپ نہیں ہوتا بلکہ یہ بہت سارےچھوٹے چھوٹے گروپس ہوتے ہیں جو انفرادی طور پر یا ایک ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ یہ سب ایک خاص کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں جو دوسرے گروپس کو اس گیم میں آسانی سے گھسنے نہیں دیتے۔ اس گروپ میں بہت زیادہ secrecy ہوتی ہے یعنی یہ معلومات کو خفیہ رکھتے ہیں کہ کس اسٹاک کو چلانا ہے اور کسے گرانا ہے۔ چوتھا گروپ منی لینڈرر کا ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس بھاری مقدار میں لاکا دھن ہوتا ہے۔ یہ لوگ اس کالے دھن کو شیئر بازار میں مختلف ترکیبوں سے لگاتے ہیں اور اسے وائٹ کر لیتے ہیں۔ ان سب کے علاوہ اور بھی بہت ساری لابیاں ہوتی ہیں جو شیئر بازاروں میں Manipulation کرتی ہیں۔

 

یہ سب مل کر مختلف طریقوں سے بازار کو چونا لگاتے ہیں۔ مثلاOperators بروکرس کےساتھ سانٹھ گانٹھ کر کے ایک ایسا اسٹاک چنتے ہیں جو ٹھیک کارکردگی نہیں دیکھا پاتا۔ یہ میڈیا اور سوشل میڈیا کا استعمال کر کے اس اسٹاک سے متعلق نیوز پیدا کرتے ہیں کہ یہ اسٹاک بہت اچھا ہے اس کے ریٹ بڑھنے والے ہیں۔ پھر یہ دونوں آپس میں خریدوفروخت کر کے اس اسٹاک کا ریٹ بڑھا دیتے ہیں۔ جب ہم اور آپ دیکھتے ہیں کہ یہ اسٹاک تو بہت اچھا ہے اس کا ریٹ دس روپیہ سے بڑھ کر تیس روپیہ ہو گیا ہے تو ہم لوگ لالچ میں آ کر ان شیئرز کو تیس روپیہ کے حساب سے خرید لیتے ہیں۔ آپریٹر اور بروکرز ابھی بازار سے نکلتے نہیں ہیں بلکہ وہ ان شیئرز کو ہم اور آپ سے پچاس روپیہ کے حساب سے خریدنے لگتے ہیں۔ ہم اور آپ خوش ہو جاتے ہیں کہ اس کا ریٹ بیس روپیہ بڑھ گیا۔ چنانچہ اسے ہولڈ کر کے یہ نیوز اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں پھیلانے لگتے ہیں۔ اس طرح ان کا آدھا کام میڈیا نے کیا تھا آدھا کام ہم اور آپ نے کر دیا۔ بالآخر ان شیئرز کی ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے اور اب وہ مہنگے ریٹ پر شیئر بیچ کر غائب ہو جاتے ہیں۔

 

معاشیات کا ایک بنیادی اصول ہے کہ جب کسی چیز کی ڈیمانڈ زیادہ ہوتی ہے تو اس کی قیمت بڑھتی ہے اور جب ڈیمانڈ سپلائی سے کم ہوتی ہے تو اس کی قیمت گھٹ جاتی ہے۔ ایک عام آدمی جب شیئر خریدتا ہے تو شیئر خریدتے وقت شیئر کا Volume یعنی buy order اور sell order ضرور دیکھتا ہے۔مثال کے طور پر اگر buy order ایک لاکھ شیئرز کا ہے اور sell order دو لاکھ شیئرز کا ہےتو ایک عام ریٹیلر یہ سمجھتا ہے کہ ڈیمانڈ سپلائی سے کم ہے اس لئے ان شیئرز کا ریٹ گرنے والا ہے۔ اس کے برخلاف اگر buy order دو لاکھ شیئرز کا ہے اور sell order ایک لاکھ شیئرز کا ہے تو ایک عام رجحان یہ بنتا ہے کہ ڈیمانڈ سپلائی سے زیادہ ہے اس لئے شیئرز کے ریٹ بڑھنے والے ہیں۔ یہاں جو بڑے بروکرز ہوتے ہیں وہ buy order اور sell order کے نمبروں میں تبدیلی کر کے manipulation کرتے ہیں اور شیئر بازار میں اتار چڑھاؤ کرتے ہیں۔ چنانچہ پردے کے پیچھے بیٹھ کر اس طرح کی تراکیب کا استعمال کر کے عام لوگوں کو چونا لگایا جاتا ہے۔

 

آج کل شیئر بازار میں جس طرح کا اچھال آیا ہے اس سلسلے میں ماہرین نے سرمایہ کاروں کو ہوشیار رہنے کی صلاح دی ہے۔ کیونکہ کبھی بھی منظر بدل سکتا ہے۔چونکہ اس وقت مارکیٹ میں Expectation اچھی ہے اس لئے سرمایہ کار اپنا پیسہ لگا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ اگر مارکیٹ میں Expectation ذرا بھی ڈگمگائی تو شیئرز کو نیچے آنے میں دیر نہیں لگے گی۔ کہا جاتا ہے کہ انڈیا میں کووڈ کی vaccine تقسیم کرنے میں کئی سال کا وقت لگ سکتا ہے تو vaccine کی خبر سے مارکیٹ میں جو اچھال آیا ہے وہ اچانک گر بھی سکتا ہے۔

Comments are closed.