ذہین آدمی کا فتنہ

محمد صابر حسین ندوی
7987972043
اس دنیا میں اگر کوئی متوسط یا اس سے کم فکر کا بھی حامل ہے تب بھی اس کی زندگی آسان ہے، ایسے لوگ اپنا دائرہ عمل طے کرتے ہیں یا کروا دئے جاتے ہیں اور ان کا سارا انحصار انہیں پر قائم ہوجاتا ہے، خود میں ایک اضمحلال اور عام شخص گردان کر وہ انتھک کوشش کرتے ہیں اور کچھ کر گزرنے کا تہیہ کیے ہوئے مقصد کے حصول کی جنگ کرتے ہیں، مگر ایک ذہین آدمی بہت بڑا بیوقوف یا بہت بڑا جینیس ثابت ہوتا ہے؛ اس دنیا میں کوئی ایسا میدان نہیں جہاں ذہین شخص کا وجود نہ ہو لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ذہین ذاتی طور پر ایک ایسی ارتقا کا مالک ہوتا ہے جس سے پوری سوسائٹی متاثر ہوتی ہے، چنانچہ اگر اس کی تربیت، فکر اور سمجھ بوجھ نے تعمیری راہ میں پروان پائی ہو اور اس کے اندرونی اور بیرونی سرمایے میں مثبت اثاثہ کی کثرت ہو تو پھر وہ دنیا کا سب سے زیادہ مفید شخص ہوتا ہے، اس سے ایک عالم فائدہ اٹھاتا ہے، دنیا میں آج جتنی بھی ترقی ہے اور اس نے جو کچھ کامیابیاں پائی ہیں بلاشبہ ان میں انہیں مہان دماغوں کا دخل ہے؛ لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے چنانچہ اگر کوئی ذہین تخریب کا عادی ہو اور اس نے دماغی طور پر ایسے عناصر پائے ہوں جو اسے مادیت اور اپنی خواہشوں پر چلنے کو ہی کافی سمجھے تو اس سے نہ صرف اس کی ذاتی زندگی تباہ ہوتی ہے؛ بلکہ ایک عالم اس کی کوفت محسوس کرتا ہے، آج اگر ترقیاں ان کی بدولت ہیں تو ان ترقیوں پر قدغن لگانے والے اور سماج کو دقتوں میں ڈال کر اپنی مرضی پوری کرنے والے بھی یہی لوگ ہیں، اور صحیح بات یہ ہے کہ آج جرائم میں کسی جاہل کی کوئی جگہ نہیں ہے وہ بہت معمولی نقصان پہنچا سکتا ہے، قتل و غارت گری اور چوری کر سکتا ہے؛ لیکن امید ہے کہ وہ قانونی شکنجہ میں آجائے، مگر ذہین افراد نہ صرف ملک و ملت کو تباہ کیے جاتے ہیں بلکہ ان کا کوئی سراغ تک نہیں لگا پاتا ہے، بہرحال ایک ذہین شخص اپنی حساسيت، لطافت اور باریکی کی وجہ سے بھی بے چینی کا سامنا ہے، مولانا وحیدالدین خان کی "ذہین آدمی کا فتنہ” کے عنوان پر ایک عمدہ تحریر موجود ہے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، آپ رقم طراز ہیں:
"ذہانت ایک عظیم نعمت ہے۔ مگر اِسی کے ساتھ ذہانت ایک عظیم فتنہ بھی ہے۔ جو آدمی زیادہ ذہین ہو، اُس کے اندر بہت جلد اپنے بارے میں شعوری یا غیر شعوری طورپر، برتری کا احساس (superiority) پیدا ہوجاتا ہے۔ اِس احساسِ برتری کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص کا اعتراف نہیں کرپاتا۔ اِس بے اعترافی کی مختلف صورتیں ہیں۔ اِس بے اعترافی کی بنا پر بعض افراد کایہ حال ہوتا ہے کہ اُن سے کوئی بات کہی جائے تو فوراً وہ اس کے لیے اپنا کوئی ذاتی حوالہ ڈھنڈ لیں گے۔ وہ کہیں گے کہ میں نے بھی فلاں موقع پر یہ بات کہی تھی۔ کچھ افراد اپنے اِس مزاج کی بنا پر ایسا کرتے ہیں کہ جب اُن سے کوئی بات کہی جائے تو وہ فوراً اُس کو کاٹ دیں گے اور پھر اُسی بات کو خود اپنے لفظوں میں بیان کریں گے۔ اِسی طرح بعض افراد پوری بات کو نظر انداز کرکے ایک شوشہ نکال لیں گے، اور پھر وہ اِس شوشے پر اِس طرح تقریر کریںگے، جیسے کہ یہی شوشہ اصل ہے اور بقیہ باتوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ ایک اور قسم اُن افراد کی ہے جن کے سامنے کچھ باتیں کہی جائیں تو وہ اُس کو مثبت ذہن کے ساتھ نہیں سنیںگے۔ اُن کا ذہن اِس تلاش میں رہے گا کہ مختلف باتوں میںسے وہ کوئی ایک بات ڈھونڈ لیں جس میں بظاہر کوئی کم زور پہلو موجود ہو، اور پھر اِسی ایک بات کو لے کر وہ بقیہ کہی ہوئی تمام باتوں کو رد کردیں گے۔ اِس مزاج کا یہ نقصان ذہین آدمی کے حصے میں آتا ہے کہ اس کا ذہنی ارتقا صرف محدود طورپر ہوتاہے، وسیع تر انداز میں اس کا ذہنی ارتقا نہیں ہوتا۔ جو چیزیں اُس کے لیے ذاتی انٹرسٹ کی حیثیت رکھتی ہیں، مثلاً اپنا جاب (Job) یا اپنے بچوں کا مستقبل، اس طرح کے معاملے میں وہ پوری طرح سنجیدہ ہوتا ہے۔ اِس لیے ایسے معاملے میںاس کا ذہن اچھی طرح کام کرتا ہے۔ بقیہ معاملات میں وہ سنجیدہ نہیں ہوتا، اِس لیے بقیہ اعتبار سے اس کا ذہنی ارتقا بھی نہیں ہوتا۔ اِس طرح عملاً وہ ایک ذہین بے وقوف، یا بے وقوف ذہین بن کر رہ جاتا ہے۔” (الرسالہ اپریل: 2009)
Comments are closed.