اویسی اور مجلس پر بے جا تنقید کرنے والوں کے لئے بری خبر

 

 

تحریر: مسعود جاوید

 

بی جے پی کے اپنے ووٹ ہیں۔ اس نے 151 سیٹ پر امیدوار اتارا ہے 2 دو گھنٹے قبل تک 2 سیٹ پر جیت اور 35 پر آگے۔ کانگریس 151 امیدوار ایک سیٹ پر جیت اور 2 پر آگے ہے۔ کیوں کیا یہاں بھی اویسی کے سر پر ٹھیکرا پھوڑے گی ؟یہاں تو اس ” سیکولر” سنٹرسٹ کانگریس کا ٹکر ” فرقہ پرست ” سنٹرسٹ بی جے پی سے ہے ۔ اتنا مایوس کن نتیجہ کیوں ؟ اس لئے کہ مارکیٹنگ کے لئے کانگریس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ مقامی انتخابات میں مقامی ایشوز اہم ہوتے ہیں یا فرقہ وارانہ صف بندی۔ اس کے پاس دو میں سے ایک بھی نہیں ہے۔

ٹی آر ایس نے مقامی ایشوز کو مدعا بنایا اور ان دونوں سے بہتر ہے۔

ایم آئی ایم (اویسی ) کل امیدوار 51 اب تک 20 سیٹوں پر جیت درج کرائی اور 30 پر آگے ۔۔۔۔۔ جن کے پیٹ میں اس بات کو لے کر درد ہو رہا تھا کہ اویسی اپنے گھر میں کامیاب نہیں ہوتے اور دوسری ریاستوں میں خواہ مخواہ کود پڑتے ہیں وہ اپنی سوچ پر نظر ثانی کریں۔

فائنل ریزلٹ آنے تک اگر پچاس فیصد سیٹ پر بھی مجلس جیت حاصل کرتی ہے تو یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں ہوگا کہ بی جے پی نے جتنی توانائی جھونکی ہے اس کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوا اور لوگوں کو یہ باور کرانے کے لئے کافی ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ، بی جے پی صدر اور یوگی جیسے لوگوں کے فرقہ پرستی کے نعروں کو اب لوگ سمجھنے لگے ہیں یا یوں کہیں کہ بہار اور اتر پردیش کی بہ نسبت جنوبی ہند کے لوگ اگر زیادہ تعلیم یافتہ ہیں تو ووٹ کے ذریعے اس کا ثبوت بھی دے رہے ہیں۔ وہاں کی عوام کو نہ اس سے مطلب ہے کہ اس کا نام حیدرآباد سے بدل کر بھاگیہ راج کر دیا جائے یا نظام اور نواب کا کلچر بدل دیا جائے۔

 

کسی نے سوچا تھا کہ لاک ڈاؤن سے سب سے متاثر بہار کے لوگ اپنے زخموں کو اتنی جلد بھول جائیں گے ! ہاں ہندی بیلٹ بالخصوص اترپردیش اور بہار میں یہ ممکن ہے۔

Comments are closed.