کیا ہم سب رنگی سے یک رنگی سماج کی سمت بڑھ رہے ہیں ؟ 

 

تحریر : مسعود جاوید

 

پچھلے دنوں میں نے پوچھا تھا کہ کیا ہم سب رنگی ملک سے یک رنگی ملک کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں تو کوئی خاص ردعمل پڑھنے کو نہیں ملا! تو خیال آیا کہ ممکن ہے ثقیل اردو میں میں نے لکھا اور مقبول عام زبان تو وہی ہے جو پڑھنے اور سننے والے کو بغیر کسی تامل و تردد کے فوراً سمجھ میں آ جائے۔۔۔۔ اسی لئے آل انڈیا ریڈیو کی اردو اور آکاش وانی کی ہندی پر تبصرہ کرتے ہوئے غالباً نہرو جی نے کہا تھا کہ اتنی گاڑھی ہندی سمجھنے کے لئے سنسکرت کا علم لازم ہے اور اتنی مسجع و مقفٰی نستعلیق اردو کے لئے عربی اور فارسی کا علم ضروری ہے تو کیوں نہ آپ لوگ ہندوستانی زبان میں نشریات پیش کریں تاکہ ریڈیو جو عوام تک خبریں وغیرہ پہنچانے کا سب سے تیز رفتار ذریعہ ابلاغ ہے اس سے عام آدمی ادیب و شاعر صحافی پروفیسر عالم مولوی مدرس طالب علم سے لے کر کسان مزدور اور رکشہ چالک بھی مستفید ہو سکے۔

زبان عام‌ فہم ہو ۔۔۔۔ دوسری زندہ زبانوں کی طرح اردو زبان کا دامن‌ بھی وسیع ہے اسی لئے اسٹیشن گرچہ انگریزی کا لفظ ہے پھر بھی بغیر کسی تردد اردو میں مستعمل ہے۔ ایک صاحب نے رکشہ پولر سے سچیوالیہ چلنے کو کہا اس نے منع کر دیا دوسرے نے بھی منع کر دیا تیسرے نے کہا صاحب صاف صاف کیوں نہیں بتاتے کہ آپ کو جانا کہاں ہے تو انہوں نے لینڈ مارک بتاتے ہوۓ سکریٹریٹ بتایا تو رکشہ پولر نے کہا اچھا تو صاف صاف ہندی میں کیوں نہیں بولتے کہ سیکریٹیریٹ جانا ہے۔

آمدم بر سر مطلب یہ کہ اگر #یک #رنگی اور #سب #رنگی سے مفہوم ادا نہیں ہوا تو صاف صاف اردو میں عرض ہے کہ کیا ہمارا ملک ون نیشن ون پارٹی ون لیڈر ون لینگویج ون فیتھ ون کلر ون فوڈ کی طرف جانے کی تیاری میں ہے ؟ کیا وہ ہندوستان کی جس خوبصورتی unity in diversity کی ساری دنیا تعریف کرتی ہے وہ اب ہندوستان کی اکثریت کو پسند نہیں یا کوئی مخصوص نظریہ والے یک رنگی سیاست اور نظریہ رائج کرنا چاہتے ہیں ؟ کیا अनेकता में एकता اور کثرت میں وحدت جیسی اصطلاحات مٹا دی جائیں گی۔ اس پر عمل کرنا اور اس کی بات کرنا معیوب ہوگا؟

Comments are closed.