آج 6/دسمبر ہے جو ہندوستان کی تاریخ کا ایک سیاہ⚫ دن ہے

محمد قمر الزماں ندوی
چھ دسمبر ہندوستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن ہے، تاریخ کے باب میں لکھا جائے گا، اور ہر دور کا مورخ یہ لکھے گا کہ ایک مسجد جہاں چار سو سال سے زیادہ عرصہ تک نماز ہوئی، اللہ کی عبادت کی جاتی رہی، آج ہی کی تاریخ کو یعنی چھ دسمبر ۱۹۹۲ءکو ظالمانہ طریقہ سے ڈھا دیا گیا تھا، جب کہ خود یہاں کی عدالت کو آج بھی یہ اعتراف ہے کہ یہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی ٢٢ دسمبر ١٩٤٩ء تک اس میں پابندی سے نماز ہوتی رہی تھی، اس رات اس میں مورتیوں کا رکھا جانا غیر قانونی اور غیر دستوری عمل تھا، کچھ مہینوں قبل آستھا، اور طاقت کی بنیاد پر اور حکومت کی کوشش اور طاقت سے رام مندر کا سنگ بنیاد وزیر اعظم کے ہاتھوں رکھا جا چکا ہے، اب اس مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر جاری ہے ۔اس کے لیے جنگی پیمانے پر تیاری کی گئی تھی،اور وزیر اعظم جی اس دن کو ایک تاریخی اور یاد گار دن بنا چاہتے تھے، وہاں حکومت کی نگرانی میں لاک ڈاؤن کے اصول و ضوابط کی دھجیاں اڑائی گئی تھی ، اس کی فکر اور پرواہ کسی کو نہیں ہوئی تھی نہ حکومت کو اور نہ پبلک کو۔ ہندوستان کی موجودہ حکومت دستور و قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے یہ سب کچھ کر رہی تھی۔ اور اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی کوشش میں مصروف تھی۔اس دن بھی ہم مسلمانوں کا احساس تھا کہ اس ملک میں آج جمہوریت کا قتل ہو رہا ہے، آج کی تاریخ ہندوستان کے ماتھے پر ایک سیاہ دھبہ ہے، جو انسانیت اور جمہوریت کے قتل کے مترادف ہے، آج کا دن عدل و انصاف کی روح کو شرمسار کرنے والا دن ہے۔
ہم مسلمان قیامت تک اس جگہ کو بابری مسجد ہی کہیں گے، چاہے وہ وہاں جو بھی تعمیر کرلیں۔ کیونکہ جس جگہ پر ایک بار مسجد بن جاتی ہے وہ قیامت تک مسجد ہی رہتی ہے۔ اس لیے حالات جس قدر مشکل اور پیچیدہ اور ناگفتہ بہ ہوجائیں، ہم سب کو صبر اور ہمت سے کام لینا ہے، حوصلہ نہیں ہارنا ہے۔ ایک مسلمان کو ہمیشہ پر امید رہنا چاہیے اور ناامیدی کو اپنے قریب نہیں آنے دینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت اور طریقہ یہ ہے کہ وہ حالات کو بدلتے رہتے ہیں۔ آج اگر ان کے پاس طاقت و قوت ہے تو کل اللہ تعالیٰ ہمیں بھی طاقت و قوت اور شوکت و عظمت سے نوازیں گے ۔۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں۔ آج ہم بے بس اور کمزور ضرور ہیں مگر ہمارا ایمان اور عقیدہ ہے کہ حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے۔۔ آج آیا صوفیہ کی دلکش اور پرشکوہ عمارت تقریباً اسی سال کے بعد پھر مسجد کے طور پر آباد ہوگئی ، جس کو اتاترک نے میوزیم بنا دیا تھا، بعید نہیں سو فیصد خدا کی ذات پر یقین ہے کہ کل بابری مسجد،مسجد قرطبہ اور مسجد اقصیٰ بھی ہمارے سجدوں سے آباد ہوجائے، شرط یہ ہے کہ ہم مسلمان صحیح معنی میں مسلمان بن جائیں، آپس میں متحد ہوکر سیسہ پلائی دیوار بن جائیں، اپنے اندر سے بزدلی نکال پھیکنیں۔ اور عزم و ہمت کو اپنا شعار بنا لیں۔۔۔
آج کی تاریخ میں ہم فیصلہ کرلیں کہ ہم حوصلہ اور عزت و خود داری والی زندگی جئیں گے اور اپنے رب کو راضی کرکے عظمت رفتہ کو بحال کریں گے، ہمت و صبر اور حکمت و دانشمندی سے حالات کا رخ بدلیں گے۔ یقین رکھئیے جیت حق کی ہوگی اور باطل کو ہار کا منھ دیکھنا ہوگا۔۔۔
بابری مسجد یقیناً شہید ہوگئی ہے، اس معاملے میں انصاف کا خون کیا گیا، جمہوریت کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ لیکن آج بھی اس مسجد کی سنگی، تختی چیخ چیخ کر انصاف کی مانگ کر رہی ہے، اور اپنے باقی رہنے کا خاموش مگر پرزور مطالبہ کر رہی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر میر باقی نے بابر بادشاہ کی یاد میں ۱۵۲۸ء میں کی تھی، اس مسجد کے کتبہ میں بھی انصاف کی بات اور دہائی موجود ہے۔ فارسی کتبہ کا ترجمہ ہے۔ بحکم شہنشاہ بابر جس کا انصاف چرخ گردوں تک وسیع ہے، نیک دل میر باقی نے فرشتوں کے اس آشیاں کو تعمیر کرایا، یہ خیر ہمیشہ باقی رہے اور اس کی تاریخ،، بود خیر باقی،، یعنی ۹۳۵ھج ہے۔۔
بابر نیک اور انصاف ور بادشاہ تھا وہ بردران وطن کا حد درجہ خیال رکھتا تھا انہوں نے اپنے فرزند ہمایوں کے لیے یہ وصیت تحریر کرایا تھا۔۔ : تمہارے لیے ضروری ہے کہ ہر قسم کی تنگ نظری سے گریز کرو، لوگوں پر انصاف کے ساتھ حکومت کرو، گائے کا گوشت کھانا ترک کر دو، تاکہ کے لوگوں کے دل جیت سکو، اس طرح وہ لوگ تمہاری حکومت کے ممنون رہیں گے، قانون کی پابندی کرنے والے لوگوں کے مذھبی مقامات کو کبھی منہدم نہ کرنا، اس طرح انصاف کرو کے لوگ اپنے بادشاہ سے محبت کرنے لگیں، اور بادشاہ عوام سے۔۔ بحوالہ تعمیر حیات /۱۰ نومبر ۱۹۸۴ء
ہمارا ایمان اور عقیدہ ہے اور ہمارا یہ احساس ہے کہ اگر چہ آج مسجد کی عمارت موجود نہیں ہے، مگر مسجد تو وہ مقام ہے جس پر مسجد کی عمارت رہی ہے، وہ قیامت تک باقی رہے گی اور بابری مسجد کے نام سے ہی پکاری جائے گی۔ اسلام کی تعلیم اور ہدایت یہ ہے کہ مسجد کسی مندر کی جگہ پر اور کسی غیر کی ملکیت پر نہیں بن سکتی، یہ حق کسی بادشاہ کو بھی نہیں ہے، جب اسلام کی تعلیم اتنی واضح ہے تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ بابر جیسا انصاف ور اور مذھبی رواداری برتنے والا بادشاہ جس نے اپنے بیٹے ہمایوں کے لیے اس طرح کی وصیت لکھوایا ہو وہ کسی مندر کو توڑ کر مسجد کی تعمیر کرائے۔۔۔ بابر ،جس پر مندر توڑ کر مسجد تعمیر کرنے کا بے بنیاد الزام ہے سچائی یہ ہے کہ نہ وہ کبھی ایودھیا گیا اور نہ ہی اس نے مسجد کی تعمیر کرائی۔ اس بات کو نہ تاریخ ثابت کرتی ہے اور نہ عدالت نے اس کو تسلیم کیا ہے۔کہ بابر نے مندر کو توڑ کر مسجد تعمیر کرائی تھی۔
Comments are closed.