بس انشراح صدر نہیں ہونا چاہیے,

محمد صابر حسین ندوی
7987972043
کسی بھی قانون و نظام کیلئے یہ بڑی عیب کی بات ہے کہ اس میں اضطراری کیفیات کیلئے رہنمائی موجود نہ ہو، انسانی زندگی کے کسی مرحلے میں اگر مجبوریوں سے دامن الجھ جائے اور گھٹا ٹوپ بادل سیاہ بن کر چھا جائیں؛ لیکن ضوابط کی لڑیاں روشنی دینے کے بجائے مزید شب دیجور کی باعث بن جائیں تو پھر ایسے قانون اور صبح بے نور کو دیوار سے دے مارنا چاہئے، اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، جب یہ کہا جاتا ہے تو اسے عملی طور پر ثابت بھی کیا جاتا ہے، اگر مسلمان اسلامی حکومت، خلافت یا پھر قوت و شوکت کے ساتھ کسی سرزمین پر موجود ہیں اور ان کے سامنے باطل ہیچ ہے تو پھر مدنی زندگی کا اسوہ سامنے ہے اور اگر باطل کی سربلندی، اقلیتی حیثیت اور مظلومیت ہے تو پھر مکی دور ہے تو وہیں معاندانہ زندگی ہو، مملکت کی سرپرستی میں ظلم نہ ہوتا ہو بلکہ قانونی اعتبار سے اقدامات کے دروازے کھلے ہوں تو پھر حبشہ کا دور زمانہ قابل تقلید ہے، غرض یہ کہ کوئی ایسا معیار نہیں جب اسلام انسان کو تنہا چھوڑ دے، خود قرآن کریم نے اس طرف رہنمائی کی ہے اور ایسے اصول فراہم کئے ہیں جن پر دفاتر قائم ہیں، قرآن مجید کی یہ آیت اور تفسیر پڑھ لینا ہی کافی ہے، ارشاد باری ہے: مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِہٖۤ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّۢ بِالْاِیْمَانِ وَ لٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ ۚ وَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ – (نحل:١٠٦) "جو ایمان لانے کے بعد اللہ کا انکار کرجائے ، سوائے اس شخص کے جس کو مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو ( کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہے )— لیکن ہاں جو لوگ دل سے کفر کا ارتکاب کریں تو ان لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔”
اسلام کی ایک بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے احکام انسان کی ضرورت و مصلحت کے مطابق ہیں، اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ انسان اگر غلطی سے بچنے پر قدرت رکھنے کے باوجود اراہ و اختیار سے غلطی کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ گنہگار بھی ہوتا ہے اور دنیا وآخرت میں سزا کا مستحق بھی ہوتا ہے، اور اگر اس میں اس کے ارادہ و اختیار کا دخل نہ ہو تو نہ وہ گنہگار ہوتا ہے اور نہ سزا کا مستحق، انسان کے ارادہ و اختیار سے محروم ہونے کی ایک صورت "جبر و اکراہ” ہے ، یعنی انسان کو کسی قول یا فعل پر اس طرح مجبور کردیا جائے کہ اگر وہ اس کو نہ کرے گا تو قتل کردیا جائے گا، یا اس کو کسی عضو سے محروم کردیا جائے گا، یا اس کو شدید نقصان پہنچایا جائے گا، (الدرالمختار : ۹؍۱۷۸) اس حالت میں اگر کوئی شخص کلمۂ کفر کہہ دے ، یا اپنی جان بچانے کے لئے کوئی ایسا فعل کرلے جو کفر کا ہوتو گناہ نہیں ہے — اس آیت کے نازل ہونے کا پس منظر یہ ہے کہ ایمان لانے کے بعد شروع شروع میں جن حضرات نے اپنے مسلمان ہونے کو ظاہر کیا، وہ سات تھے، رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر، حضرت بلال، حضرت خباب، حضرت صہیب، حضرت عمار اور حضرت سمیہ رضی اللہ عنہم، پھر رسول اللہ ﷺ کی طرف سے حضرت ابوطالب اور حضرت ابوبکر کی طرف سے ان کے خاندان کے لوگ ڈھال بن گئے، بقیہ یہ پانچوں غلام اور باندی تھے، ان میں حضرت عمار کے علاوہ بقیہ سب لوگ اپنی بات پر جمے رہے؛ چنانچہ ابوجہل نے حضرت سمیہ کے شوہر حضرت یاسر (جو ایمان لا چکے تھے) کو قتل کردیا، اور حضرت سمیہ کی دونوں ٹانگیں دو اونٹوں میں باندھ کر دو مخالف سمت میں بھگا دیا اور ان کی شرمگاہ میں اس طرح نیزہ مارا کہ وہ ان کے منھ کی طرف سے نکل آیا، حضرت سمیہ اور حضرت یاسر یہ دو پہلے مرد و عورت ہیں، جنھوں نے اسلام کے راستہ میں شہادت پائی، حضرت بلال ، حضرت صہیب اور حضرت خباب کو ناقابل برداشت تکلیفیں پہنچائی گئیں، ان سب کے باوجود حضرت بلال کلمۂ توحید پر قائم رہے، حضرت عمار نے حد سے بڑھی ہوئی ایذاء رسانی سے بچنے کے لئے زبان سے ان کے مطالبہ کے مطابق کلمۂ کفر کہہ دیا؛ لیکن دل میں ایمان کا جو پودا لگا ہوا تھا، اس میں کوئی کمزوری نہیں آئی، حضرت عمار روتے ہوئے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صورتِ حال بتائی، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: تم اپنے دل کو کیسا پاتے ہو؟ عرض کیا: دل ایمان پر مطمئن ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: پھر کچھ حرج نہیں، اگر دوبارہ ایسی نوبت آئے تو پھر کلمۂ کفر کہہ دینا، (تفسیرقرطبی: ۱۰؍۱۸۰-۱۸۱) ہاں، اگر خدا نخواستہ انسان کفر کی بات یا کفر کا باعث بننے والے فعل سے راضی ہوتو پھر وہ دائرۂ ایمان سے باہر نکل جائے گا، آیت میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اسی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی کفریہ بات کا صرف دل پر گزر ہوجائے اور اس خیال پر جماؤ اور یقین پیدا نہ ہو تو یہ کفر نہیں ہے۔
نیز اکراہ سے متعلق بہت سے احکام فقہاء نے بیان کئے ہیں ، ان کا حاصل یہ ہے کہ:
اگر کوئی شخص اکراہ کے باوجود کلمۂ کفر نہ کہے اور اپنی جان دے دے تو یہ گناہ نہیں ہے ؛ بلکہ اس کی زیادہ فضیلت ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں زیادہ اجر ہے۔(الہدایہ : ۲؍۳۵۰)
اگر اکراہ کا تعلق کفر کے علاوہ حقوق اللہ کے دوسرے احکام سے ہو ، جیسے : شراب پینا ، روزہ توڑدینا ، وغیرہ ، توجان بچانے کے لئے ان افعال کا ارتکاب نہ صرف جائز ؛ بلکہ واجب ہے ، اگر وہ اس کا ارتکاب نہ کرکے جان دے دے تو گناہ کا اندیشہ ہے۔ (الدرالمختار مع الرد : ۹؍۱۸۴)
اگر ایسے کسی فعل پر اکراہ کیا جائے ، جس کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہو ، اور اس کی تلافی کی صورت نہ ہو تو اس کے لئے اکراہ کی وجہ سے وہ فعل جائز نہیں ہے، جیسے: کسی دوسرے بے قصور شخص کو قتل کرنا۔(بدائع الصنائع: ۶؍۱۸۷، مع تحقیق: محمد عدنان بن یٰسین درویش)
اگر کسی مرد یا عورت کو زنا پر مجبور کیا جائے تو اس سے بچنا بہتر ہے؛ لیکن اگر جان بچانے کے لئے اس کا ارتکاب کرلے توگنہگار نہیں ہوگا اور نہ اس پر زنا کی سزا جاری ہوگی۔ (الفتاویٰ الہندیہ: ۵؍۸۴)
اکراہ کی حالت میں کسی چیز کے بیچنے پر مجبور کیا جائے اور وہ اسے بیچ دے یا خریدلے تو یہ خرید و فروخت معتبر نہیں ہے۔(بدائع الصنائع: ۶؍۲۰۰)
اکراہ کی حالت میں نکاح، طلاق اور رجعت ( طلاق کے بعد بیوی کو لوٹانا ) امام ابوحنیفہ کے نزدیک معتبر ہے، امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور اکثر کے فقہاء کے نزدیک اس حالت میں نکاح و طلاق کا اعتبار نہیں. (بدائع الصنائع : ۶؍۱۹۳)
جبر و اکراہ کے مختلف درجات ہیں اور مختلف اُمور میں ان کے احکام الگ الگ ہیں ، فقہ کی کتابوں میں "کتاب الاکراہ” کا مستقل باب آتا ہے، اس میں یہ ساری تفصیلات ذکر کی گئی ہیں، اہل علم وہاں مراجعت کرسکتے ہیں۔ (دیکھیے:آسان تفسیر قرآن مجید)
Comments are closed.