تاریخ ہند کےسیاہ دن، یوم شہادت بابری مسجد

ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی
خادم التدریس
جامعہ نعمانیہ، ویکوٹہ، آندھرا پردیش
آج سے 28/سال قبل، آج ہی کی دن آج ہی کی تاریخ 6/دسمبر1992ءکو روئے زمین پر سب سے بڑا جمہوری ملک ہمارا پیارا دیش بھارت کی راجدھانی دہلی سے تقریباًچھ سو کیلومیٹر کے فاصلہ پر شہر ایودھیا میں واقع مسلم مغل حکمراں شہنشاہ بابر کے سنہرے دور کی تعمیر کردہ "مسجد بابری” کو دن دھاڑے بھگوا دہشت گردوں نے ملک کے سیکولر قوانین کو پاؤں تلے روندتے ہوئے شہید کر دی گئی۔
6/دسمبر کی تاریخ ہرسال مسلمانان ہند پر سایہ فگن ہوگر ایک خونچکاں حادثہ یاد دلاتی ہے، کیونکہ یہ عام حادثہ نہیں تھا کہ اسے بھولا دیا جائے فراموش کردیا جائے۔
کیونکہ اس تاریخ کو صرف ایک خانہ خدا (مسجد بابری) کو ہی شہید نہیں کیا گیا تھا، بلکہ ملک کے قانون کو ذبح کرنے کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں ہزاروں مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔
مزید برآں پھر یہ قضیہ نامرضیہ سپریم کورٹ پہنچا،اور مسلمانوں کی کمائی کا لاکھوں روپے اس کیس میں صرف ہوا،اور پھر سالوں کے بعد نام نہاد انصاف کے گھر کے علمبرداروں نے ”بابری مسجد“ کی جگہ کو جہاں کم و بیش تقریباً پانچ سو برس تک(اس کی بنیاد کی تاریخ 935/ھ ہے جبکہ عیسوی تاریخ 1528/ہے، شہنشاہ بابر کے دور اقتدار میں اودھ (اودھ کا علاقہ فیض آباد،لکھنؤ، ہردوئی وغیرہ ہے)کے حاکم ”میر باقی اصفہانی“ نے تعمیر کرائی تھی،اس وقت سے لے کر 1949تک بابری مسجد میں پنج وقتہ اور نماز جمعہ ہوتی رہی،اس کے آخری امام مولوی عبدالغفار رح تھے،کل ملا کر اس میں 421/برس مسلمان نماز ادا کرتے رہے ہیں)ایک وحدہ لاشریک لہ کی حمد و ثناء بیان کی گئی اور لاکھوں پیشانیاں سجدہ ریز ہوئیں تھیں اس جگہ کو یہاں کے دہشت گردوں کی جھولی میں ڈال دی گئی۔
اور پھر اس جگہ ایک خدا کے بجائے سیکڑوں جھوٹے خداؤں کی پرستش ہونے لگی۔
آج ہی ہمارے ضلع(دربھنگہ، بہار)کے ایک نامور فاضل مفتی آفتاب غازی صاحب قاسمی دامت برکاتہم نے بابری مسجد سے متعلق ایک اسٹیکر شائع کیا
جس میں مندرجہ ذیل باتیں تھیں:
*مؤرخ کا قلم انتظار میں ہے!*
کعبۃ اللہ کو *محمدﷺ* نے آزاد کرایا۔
مسجد اقصیٰ کو *صلاح الدین* ایوبی نے آزاد کرایا۔
مسجد ایا صوفیا کو *اردوغان* نے آزاد کرایا۔ بابری مسجد کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نے آزاد کرایا۔
مؤرخ کا قلم خالی جگہ بھرنے کو تیار ہے۔
اس جگہ پر آپ کی اولاد کا نام آجائے، اس کی کوشش کریں! آج عدالت کی بات مانی گئی ہے، *ان شاءاللہ ایک دن انصاف کی بالا دستی ہوگی!*
کاتب السطور نے اس پر مندرجہ ذیل کلمات لکھا:
*ماشاء اللہ*
*بہت عمدہ سوچ ہے، سب سے پہلے ہم اور آپ سوچیں کہ خالی جگہ پر ہمارا نام آئے، کیونکہ ہم سب بھی نوجوان ہیں، اللہ تعالی ہماری مدد و نصرت فرمائے، اگر اس میں ہم کامیاب نہ ہوسکیں تو ہماری اولاد کا نام آئے گا۔ ان شاءاللہ۔*
ان تمام چیزوں سے بڑھ کر اس وقت ہمیں یہ جائزہ لینی چاہیے کہ وہ کون سا سبب ہے کہ آج ہم اس ملک میں کھائے ہوئے بھوسوں کے مانند ہیں، ہماری یہاں کوئی حیثیت نہیں رہی، ہم بے جان اور لاشہ بنے ہوئے ہیں، اور دن بدن ہم تنزل کی جانب ہی رواں دواں ہیں۔
ہم اس وقت ”بابری مسجد“شہید ہونے سے پہلے کی کمی کوتاہیوں کا جائزہ لیں،اور دیکھیں کہ آخر ہمارے اندر کون سی خامیاں تھیں کہ اس ملک میں ہمارا وجود ہونے کے باوجود ہماری آنکھوں کے سامنے ہماری عبادت گاہ ”بابری مسجد“کو شہید کردی گئی، جس کمی کوتاہی سے ہم آگاہ ہوں اسے فوری دور کرنے کی سعی وکوشش کریں، اس کے بعد ہی ہم”بابری مسجد“ بازیافت کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ ان شاءاللہ
Comments are closed.