"کسان آندولن”: ایک احتجاج سے کہیں بڑھ کر

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043
کسانوں کے احتجاج نے ثابت کردیا ہے کہ اڑیل، ہٹ دھرم اور ضدی حکومت بھی جھک سکتی ہے، مطلق العنان حکمراں بھی نرم پڑ سکتے ہیں، خود کو ہی ملک و قانون کا ٹھیکیدار ماننے والے بھی عوامی تحریک کے آگے مجبور ہوسکتے ہیں، غور کرنے کی بات ہے کہ جنہوں نے نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور لاک ڈاؤن سے مرنے والوں پر کچھ نہیں بولا، شاہین باغ اور دیگر ملک گیر احتجاج پر کبھی انہیں معمولی توجہ تک نہیں اور ناہی باہمی گفت و شنید پر راضی ہوئے، ہزاروں اعتراضات کے باوجود کوئی صحیح معنوں میں پریس کانفرنس بھی نہیں کی گئی، انہوں نے کسانوں کیلئے میز لگائی اور بار بار ان کی بات سننے کیلئے آگے بڑھے، اعلی حکام نے خود ان کا تذکرہ کیا، وہ جمہوریت کی بات کرنے پر مجبور ہوئے، اپنے فیصلے پر دوبارہ، سہ بارہ سوچنے کا دروازہ کھولا، کسانوں کی خیر خواہی اور بھلائی کی تسبیح خوانی شروع کرنے لگے، عوام کے سامنے آکر ان کے آندولن اور احتجاج کی سنگینی کو تسلیم کیا، ہندو مسلم، خالصتانی، دہشتگرد، بیرونی فنڈنگ جیسے متعدد خود ساختہ بت بنانے کی کوشش کی گئی؛ لیکن سبھی شکستہ ہوگئے، جوش و ہوش کے بہترین سنگم نے سرمایہ داروں کی غلام جماعت بغلیں بجانے لگی ہے، سرکار کی چکاچوندھ اور ان کی عیاشی کا نشہ بھی توڑا جارہا ہے، کسانوں نے وگیان بھون میں چمچماتے فرش، عالیشان کھانے کی میز اور مصنوعی اکرام کو بھی ٹھوکر ماردی، اور یہ پیغام دیا گیا کہ تم ہمارے اگائے اناج کھاکر ہمیں ہی اپنے ماتحت نہیں کرسکتے، شاید یہ پہلا موقع ہے جب سرکار کو یہ احساس دلایا جارہا ہے کہ وہ فقط جمہوریت کے منتخب نمائندے ہیں، وہ راجا و مہاراجہ اور بادشاہ و ڈکٹیٹر نہیں ہیں، سرکاریں آتی اور جاتی ہیں؛ مگر لوگوں کی آزادی، ہمت اور ان کا اتحاد ہی ملک کو ایک نئی تصویر دیتا ہے، ترقی و تعمیر میں رنگ بھرتا ہے، ہندوستان کی سرزمین پر مذہبی فرقہ واریت اور انسانی امتیازات کی کوئی جگہ نہیں ہے، یہاں جو کچھ ہے وہ سب کچھ عوام کیلئے ہے، عوام ہیں تو سرکاریں ہیں اگر انہوں نے ٹھان لیا تو ان کا کوئی وجود نہیں ہے، تو وہیں یہ بھی باور کرایا جارہا ہے کہ احتجاج کا مطلب کیا ہوتا ہے، اور کس طرح عوام ایک دھاگے میں پرو کر حکومت کو ننگا کرسکتی ہے، واقعہ یہ ہے کہ ملک میں کسانوں کا یہ آندولن دوٹوک ثابت ہونے والا ہے، یہ ملک کی قسمت کا فیصلہ کرسکتا ہے، کسانوں نے ٨/دسمبر کو بھارت بند کا اعلان کیا ہے، اس پس منظر میں آج ڈاکٹر مولانا طارق ایوبی ندوی دامت برکاتہم نے بڑی فکر انگیز تحریر نقل کی ہے، جسے سمجھنے اور خوب عام کرنے کی ضرورت ہے، آپ رقم طراز ہیں:
"کسان آندولن” بھارت کی تاریخ کا اہم موڑ۔
# آندولن کی حمایت ہر حال میں ضروری۔
# ۸ دسمبرکو بھارت بند کا اثر نظر آنا بہت اہم۔
# بھاجپا کے کامیاب ہوتے ہندومسلم ایجنڈے کے نتیجہ میں اسکی بڑھتی ہوئی بدمستی کو یہ آندولن کچھ کمزور کر سکتا ہے۔
"کسانوں کا آندولن حق بجانب ہے، ان کے مطالبات معاملہ فہمی اور حقیقت کے ادراک پر مبنی ہیں، ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ کسان آندولن کی کامیابی وناکامی سے ملک کا رخ اور بھاجپا کا مستقبل طے ہوگا، اگر کسان آندولن ناکام ہوا تو نہ صرف بھاجپا بہت مضبوط ہو جائے گی بلکہ تمام مد مقابل ختم ہو جائیں گے اور اسکی حیثیت بدمست ہاتھی کی ہو گی، اور اگر کسان نے مطالبات منوانے میں کامیاب رہے تو شاید ایک بار پھر ملک سوچنے پر مجبور ہو جائے، بھاجپا کی پالیسی کو سب سے زیادہ موثر طریقہ سے کسانوں نے ہی ملک کے سامنے پیش کیا ہے اور وہی کر بھی سکتے تھے، کیونکہ ان کے آندولن کو بدنام و ناکام کرنے کا ہر بھاجپائی کارڈ ناکام ہو گیا ہے، ورنہ حقیقت یہ ہیکہ ملک لٹتا ہے لٹ جائے، کنگال ہوتا ہے ہوجائے، عام شہری روز ایک نئی لائن میں لگتا ہے لگ جائے مگر عام ہندو کو اس سے فرق نہیں پڑتا، مذہب کی افیم سر چڑھ کر بول رہی ہے، مودی کے نشے نے آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے، عام ہندو یہ سمجھ رہا ہے کہ پہلی بار بھارت میں ہندو راج قائم ہوا ہے، مودی ہمارا ایسا ہیرو ہے جسکی قیادت میں بالآخر ہر عام ہندو کو دیگر اقوام پر انفرادی برتری حاصل ہو گی، دلیل چاہیے تو کرونا کال اور لاک ڈاون کی مار کے بعد ہوئے بہار انتخاب کے نتائج دیکھ لیجئے اور ای وی ایم پر شبہ ہو تو حیدر آباد نگر نگم کے بیلٹ سے ہوئے چناؤ دیکھ لیجئے، تمام تر منفی ماحول کے باوجود ۴ سے ۴۸ سیٹوں کا حصول اس افیم کے اثرات دکھاتا ہے جو پلائی گئی ہے اور یہ واضح کرتا ہے کہ بھاجپا کا ہندو مسلم کارڈ کس تیزی کے ساتھ اپنا اثر دکھا رہا ہے، کانگریس مرتی ہے مر جائے بلا سے مگر ہر علاقائی جماعت (راجد ہو یا ٹی آر ایس یا کوئی اور) کا کمزور ہو جانا ملک اور سیکولرزم کے کمزور ہو جانے کیلئے انتہائی خطرناک ہے، سیمانچل کے مسلم ووٹ سے ۵ نشستوں کے حصول پر خوشی بجا مگر اس کا راست فائدہ حیدرآباد میں نظر آیا بلکہ خود سیمانچل کی دیگر نشستوں پر بھی دیکھا گیا اور اب بنگال میں مزید نظر آئے گا؛ بہر حال افیم کے اس نشے میں دھت ملک کی اکثریت کی آنکھ کھولنے کا ایک موقع کسانوں نے فراہم کیا ہے تو ذاتی مفاد اور نام نمود کی سیاست سے بالا ہو کر انھیں کامیاب کرنے کی ہر کوشش ضروری ہے، یہ ایشو یوں بھی بہت مضبوط ہے اس لئے کہ اسکا تعلق بلا تفریق ملت و مذہب اور ذات برادری عام شہریوں سے ہے، کسانوں نے ۸ تاریخ کو بھارت بند کا اعلان کیا ہے جس کو اب تک دس ٹریڈ یونین حمایت دے چکی ہیں، ہماری تنظیم بھی پرائیوٹائزیشن کو لاگو کرنے والے ان زرعی بلوں کے خلاف روز اول سے کسانوں کی حمایت میں ہے، ہم اپیل کرتے ہیں کہ ہر سطح پر کسان آندولن کا سپورٹ کیا جائے اور ان کے بھارت بند کی اپیل کو کامیاب کرنے کی ہر فرد اور ہر تنظیم اپنی سطح پر ہر ممکن کوشش کرے”.
Comments are closed.