عورتیں بھی آواز بلند کر سکتی ہیں۔

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]

7987972043

        عورتوں کو کمزور، لاچار اور اپنے پیروں کی دھول سمجھنے والے حیران و پریشان ہیں کہ اس وقت پوری دنیا ان کے بینر تلے کیوں آگئی ہے، قدامت پسندی، روایت پسندی اور تہذیب و ثقافت میں مغربی و مشرقی امتیاز کا دھونس جمانے والے بھی سمجھ نہیں پارہے ہیں؛ کہ جن عورتوں کو اطاعت کے سوا کچھ نہ سکھایا گیا، جنہیں زبان بندی میں ہی اصل عافیت بتائی، جن کو چہار دیواری میں قید کر کے انہیں باور کرایا کہ یہی ان کی دنیا ہے اور ان کے علاوہ سب کچھ ان کے دسترس سے باہر ہے، مگر ان سب کے باوجود آج کیسے مختلف احتجاجوں میں اپنی موجودگی درج کروا کے دنیا کو دنگ کئے جارہی ہیں، کسان آندولن میں اگرچہ مردوں کی تعداد زیادہ ہے؛ لیکن خواتین کی ایک تعداد، ان کی تیاریاں اور مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر سبھی کو دنگ کر رہی ہیں، میڈیا کو دوٹوک جواب دے کر ان کی بزرگ خواتین بھی دنیا کی توجہ کھینچ رہی ہیں، ان سے قبل ہندوستان میں سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کے مدعی میں صنف نازک کی قربانیاں مردوں سے میلوں آگے ہیں؛ بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ انہیں کے جھنڈے تلے اور انہیں کی قیادت میں یہ مسئلہ حل ہونے کی طرف بڑھ رہا تھا، پوری دنیا بیدار ان کی آواز گونجی، ہر جگہ انہیں کے چرچے رہے، آزاد ہند کی تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی جس میں عورتوں کی ایسی نمائندگی پائی جاتی ہو، جہاں اسباب عالم کا ہر ذرہ ان کے مخالف ہو تب بھی انہوں نے دنیا میں شور مچادیا ہو، ان کے انقلابی نعروں اور جذبوں کے پیچھے ہر کوئی کھڑا ہوگیا تھا، اب وقت آگیا ہے کہ ہر ایک سمجھ لے، عورت پر پردہ فرض ہے، حیاداری واجب ہے، اور تمام اسلامی تعلیمات کا خیال رکھنا ضروری ہے جنہیں ان پر لازم کیا گیا ہے؛ لیکن اندیشوں کا بہانا بنا کر، سماج و سوسائٹی کی آڑ لیکر انہیں انگوٹھے کے نیچے دبانا جائز نہیں ہے، قرآن کریم ظلم کے موقع پر ہر کسی کو آواز بلند کرنے کی اجازت دی ہے، احادیث میں اگر یہ کہا گیا ہے کہ مظلوم اپنی آواز بلند کر سکتا ہے تو ان احکام میں عورتیں بھی شامل ہیں۔

        اسلام میں عدل ہے، ہم مساوات کا جھوٹا نعرہ نہیں دیتے؛ بلکہ انہیں ان کی ہمت و قدرت کے بقدر میدان عمل میں گنجائش دیتے ہیں، شریعت اسلامیہ نے اگرچہ گھر کو ان کیلئے افضل قرار دیا ہے؛ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ فضائل کو فرائض پر ترجیح نہیں ہے، جب ظلم کا لاوا پھٹ پڑا ہو اور ہر کوئی اس کی آگ میں جھلسنے کو تیار ہو، ملک کا چپہ چپہ اس کی آغوش میں آکر بھن جانے کیلئے بے تاب ہو تو بھلا کیسے فضیلت پر عمل کرنے کی تاکید کی جائے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب محسوس کیا کہ خلافت کا خلعہ اترنے کے دہانے پر ہے، قصاص عثمان کو خطرہ ہے، معاشرے میں غیر مناسب سیاست نے پیر پسار لئے ہیں اور اب حق گڈ مڈ ہوگیا ہے، تو بلا کسی تردد کے میدان جنگ میں کود پڑیں، انہوں نے خود قیادت کی، صفیں درست کروائیں، البتہ انہیں اخیر عمر اس کا قلق تھا کہ شاید مناسب طریقہ اختیار نہ کیا گیا، مگر صرف آپ ہی نہیں بلکہ متعدد اس کی مثالیں موجود ہیں، اسلام کی بہادر خواتین کے نام پر علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے ایک کتاب لکھی ہے اس سلسلہ میں اسے پڑھنا واقعی ذہن و دماغ کو کھول دیتا ہے. سیرت طیبہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بھی ہمیں کئی مثالیں ملتی ہیں، ازواج مطہرات میں تنافس کی بات سامنے آتی ہے، ان سب میں حضرت عائشہ کا برتر کردار معلوم ہوتا ہے، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کبھی بھی ازواج مطہرات کو قید و بند کی زندگی نہ دی، حتی کہ آپ اپنے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا بھی کھلا اختیار دیا، جائز امور میں کبھی ان کی حوصلہ شکنی نہ کی، ان کیلئے گھر کو افضل بتلاتے مگر حدوداللہ کا خیال کرتے ہوئے خارجی دنیا سے روکتے بھی نہ تھے۔

       یہی وجہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے ازواج بلا کسی جھجھک کے اپنی رائے رکھتی تھیں، انصار کی خواتین بھی آپ کے سامنے ہر طرح کے مسائل نقل کرتی تھیں، انس بن مالک کی والدہ تو اس میں خصوصی اہمیت رکھتی تھیں، نیز واقعہ ایلاء جس کی وجہ سے آپ نے تمام ازواج سے ایک مہینہ کیلئے علیحدگی اختیار کر لی تھی، وہ بھی دراصل ازواج کی بعض بے باکانہ انداز کی بنا پر ہی تھا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روکا نہیں، ادب سکھانا الگ بات ہے، خوف و ہراس میں مبتلا کرنا الگ بات ہے، آج عموما رشتے ڈر کی بنیاد پر قائم رہتے ہیں، ملکی قوانین، طلاق کا خوف اور سماج کی پابندیاں وغیرہ___ یہ واقعہ بھی یاد آتا ہے کہ شہد کھانے کے سلسلہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہی حضرت حفصہ کے ساتھ ملکر پلان بنایا تھا، تاکہ دوسری ازواج سے آپ اتنے قریب نہ جائیں اور ان کی چیزوں سے وہ لذت حاصل نہ کریں، دراصل حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عورتوں کو انسان کا درجہ دیا تھا، جنہیں غم و غصہ دونوں کا حق ہوتا ہے، جبکہ آج کی سوسائٹی نے دو کام کئے ہیں، ایک طبقہ نے کھلی ہوئی آزادی دے دی ہے، جس پر کوئی حد نہیں ہے، وہ لبرلزم اور جدید پسندی کے مارے ہوئے ہیں، جو دنیا میں پابندیوں کو ایک لعنت قرار دیتے ہیں؛ حالانکہ روئے زمین پر صرف انسان ہی ہے جو حدود کا پابند ہے اور اگر اس بندھن کو توڑ دیا جائے تو پھر وہ جانور بن جاتا ہے، تو وہیں ایک گروہ انہیں قید و بند ہی میں دیکھنا چاہتا ہے، جو قدامت پسندی اور متشددین کہلاتے ہیں، دونوں ہی افراط و تفرط میں مبتلا ہیں، اسلام چاہتا ہے کہ ان کے سبھوں کے ساتھ عدل ہو، ظلم کے خلاف مرد ہی نہیں بلکہ خواتین بھی اپنے حق کیلئے بولیں، انہیں بھی سماج میں ایک کردار نبھانے کی اجازت ہو، وہ محبت و ہمدردی میں برابری پائیں، عزت و توقیر میں بھی یکسانیت پائیں، ان کی بے عزتی نہ کی جائے، وہ ظلم کے خلاف کھڑی ہوئی تو اسے بغاوت نہ سمجھا جائے اور اگر سمجھا جائے تو یہ جان لیں کہ عورتیں بھی بغاوت کر سکتی ہیں۔

Comments are closed.