بابری مسجد کی صدا اور مسلمانان ہند

محمد فاروق بن یعقوب حبیبی شاجاپور
۶ دسمبر کا دن ہم اور ہماری آنے والی نسلیں کبھی نہیں بھولیں گی، بابری مسجد کو ۶ دسمبر۱۹۹۲ کو فرقہ پرستوں نے شہید کر دیا، اور مسلمان دیکھتا ہی رہ گیا، بابری مسجد تو شہید ہوگئی، لیکن اس نے ایک بہت ہی بڑا درد بھرا پیغام اس قوم کو دیا:
میں بابری مسجد ہوں، میر باقر کی نشانی اور عہد بابر کی یادگار، فن تعمیر کی شاہکار، اور مسلمانان ہند کی عظمت کا نشان، میں بابری مسجد ہوں۔
سب سے پہلے تو میں ۹ نومبر ۲۰۱۹ کو فراموش نہیں کرسکتی، یہ دن میرے ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے، جس میں دن دہاڑے جمہوریت کو دفن کرکے انصاف کو قتل کر کے دلائل اور شواہد کو بالائے طاق رکھ کر میرے ملک کی عدالت عالیہ نے اکثریت کی چاہت، اور آستھا کی بنیاد پر میری جگہ پر رام مندر بنانے کا نا انصافی پر مبنی ظالمانہ فیصلہ صادر کیا. میں کر بھی کیا سکتی تھی؟ میرا کیا قصور ہے؟ کیونکہ اسی کا شہر، وہی مدعی، وہی منصف، مجھے یقین تھا میرا قصور نکلےگا،پھر ۵/ اگست ۲۰۲۰ کو مجھ پر ظلم و ستم کی انتہا ہوگئی، میرے شکستہ ڈھانچہ پر میرے نام نہاد سیکولر ملک کے زعفرانی وزیر اعظم کی زیر نگرانی رام جنم بھومی کی سنگ بنیاد رکھ دی گیئ، مجھ پر ہونے والے ظلم و ستم کی دلسوز داستان میں کس طرح بیان کروں؟ اپنی تکلیف کو میں کیسے بتاؤں؟ ظلم کی تاریخ اور بدعنوانی کا باب میں کیسے بیان کروں؟ میری آنکھ نم دیدہ، دل غم زدہ اور میری روح بے چین ہے۔
ساڑھے پانچ سو سال تک مسلمانوں کی مقدس جبینوں سے آباد ہونے والی میری خاک کفر و شرک کے نرغے میں جکڑی جاچکی ہے، تقریبا چھ صدیوں تک میں نے نعرۂ توحید بلند کیا، اذان اور اقامت کی صداؤں سے میرے مینارے گونجتے رہے ہیں، آج با اختیار طور پر رام مندر کی سنگ بنیاد میں بھجن کے شور سے مجھے خاموش اور بے دم کر دیا گیا۔
درد اتنا ہے کہ لفظوں میں نہیں آ سکتا
اس قدر غم ہے کہ اشکوں میں نہیں آ سکتا
چشم غیرت سے ٹپکتی ہیں لہو کی بوندیں
سوز ایسا ہے کہ چیخوں میں نہیں آسکتا
لٹ گئے کیسے گنبد و مینار تمہارے رہتے
یہ الم سسکیوں آہوں میں نہیں آسکتا
چھین لی ظلم نے خدا کی زمین بھی آخر
چین اب درد کے ماروں کو نہیں آسکتا
لاکھوں اشک فشاں چشم فریدی لیکن
غم کا سیلاب یہ آنکھوں میں نہیں آسکتا۔
لیکن اس وقت مجھے اپنی تعمیری اور تاریخی حیثیت و حقائق اور واقعات پر بات نہیں کرنی ہے، بلکہ مجھے زخمی دلوں پر مرہم، اور مایوس کن حالات میں ملت اسلامیہ کو اس بھنور سے نکالنا ہے، اور یہ حقیقت نسل در نسل منتقل کرنا ہے؛ کہ میں ایک مسجد تھی، مسجد ہوں، اور تا قیامت میں مسجد ہی رہوں گی۔
اے ملت اسلامیہ ہندیہ! میں بابری مسجد. میں جانتی ہوں تمہارے دل غمگین ہیں، تمہارا وجود میری مسمار کی وجہ سے بوجھل ہے، یہ وقت ایک آزمائش اور ابتلا کا ہے، لیکن کیا تم یہ بھول گئے کہ اسلام اور کفر کی معرکہ آرائی اور باہمی چبلقش روز اول سے جاری ہے؟ چراغ مصطفوی سے شر اور بو لہبی کی دسیسہ کاری یہ کوئی نئی بات نہیں ہے؟ تم جانتے ہو نا کہ ہر دور میں طاغوتی لشکروں نے اسلام اور اس کے ماننے والوں کو نیچا دکھانے کے سازشیں کی ہیں؟ کیا اس دنیا کی تکنیکی نظام میں "وتلك الأيام نداولها بين الناس” کی تاریخ جاری نہیں ہے؟
تو یقین رکھئے کہ اللہ الجبار نے ان ظالموں کو نیست و نابود کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے، جو اس کے گھر کو مسمار کرتے ہیں قرآن کریم کا اعلان ہے
﴿وَمَنۡ أَظۡلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَـٰجِدَ اللہ أَن یُذۡكَرَ فِیهَا اسۡمُهُۥ وَسَعَىٰ فِی خَرَابِهَاۤۚ أُو۟لَـٰۤئكَ مَا كَانَ لَهُمۡ أَن یَدۡخُلُوهَاۤ إِلَّا خَاۤئفِینَۚ لَهُمۡ فِی ٱلدُّنۡیَا خِزۡیࣱ وَلَهُمۡ فِی ٱلۡاخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیمࣱ﴾ [البقرة: ١١٤]
میں بابری مسجد ہوں۔
اے ملت اسلامیہ ہندیہ! مجھے معلوم ہے کہ یہ کٹھن اور مشکل دور ہے، لیکن یہ وقت ناامیدی اور مایوسی کا نہیں، بلکہ یہ وقت اپنے آپ سے عہد کر کے اپنے ضمیر کو جھنجھوڑنے کا ہے. خواب غفلت سے بیدار ہو کر میری عظمت رفتہ کی بازیابی کے لیے انتھک جدوجہد کا ہے. اپنی غلطیوں کو درست کرکے متحد ہونے کا ہے۔
آج طاغوتی طاقتیں خوش ہیں کہ انہوں نے کامیابی حاصل کرلی ہے، اور اللہ کے مقدس گھر پر ظالمانہ اور جابرانہ طور پر قبضہ کرلیاہے۔
لیکن وہ اس کائنات کے سب سے پہلے مقدس گھر کی تاریخ نہیں جانتے ۳۶۰ بتوں کی کہانی اور صنم کدے سے مسجد حرام تک کے سفر سے وہ واقف نہیں ہیں، وہ آیا صوفیہ کی ہسٹری سے ناآشنا ہیں۔
۸۵سال تک اذان سے محروم آیا صوفیا ایک بار پھر اذان کی پاکیزہ صداؤں کے ذریعے مسلمانوں کو بیدار کر رہی ہیں، آج اگر میری مقدس سرزمین کو بت پرستی کا اڈہ بنایا جا رہا ہے؛ تو مجھے اپنے پروردگار پر یہ بھی یقین ہیکہ وہ دور بھی آ کر رہے گا؛ جب اسی جگہ پر دوبارہ میری شاندار تعمیر کی جائےگی، خدا کے سامنے سجدہ ریز ہونے والوں کی جبین نیاز پر پھر میری زمین بوسہ لے گی، اور پھر سے توحید و رسالت کے متوالے مجھے آباد کریں گے۔
اے ملت اسلامیہ ہندیہ! میں بابری مسجد ہوں. تمہیں مایوس اور ناامید نہیں ہونا ہے، مایوسی کفر ہے، اور نہ امیدی موت، تمہیں دل شکستہ ہونے کی ضرورت نہیں، حالات ہمیشہ کے لئے نہیں رہتے لیکن میرا ایک پیغام ہے کہ مجھے یاد رکھنا مجھے کسی صورت نہیں بھولنا، میری شہادت کے قصے نسل در نسل منتقل کرنا، میری تاریخ کو اپنے نصاب تعلیم میں شامل کرنا، میرے ماضی کو فراموش نہ کرنا۔
اے ملت اسلامیہ ہندیہ! میں بابری مسجد، میں تمہاری منتظر ہوں، مجھے کفر و شرک کی یہ آوازیں تکلیف دیتی ہیں، مجھے پوری شدت سے تمہارا انتظار ہے، مجھے شیطانی کارندوں اور ملعونی منحوسوں سے پاک کرنا، قانونی و جمہوری جدوجہد کرتے رہنا، اپنے دینی شعار اور مذہبی حقوق کے تحفظ کے لیے بیدار رہنا، مصالحت مفاد اور سیاست سے پرے میرے خاطر سرگرم رہنا۔
اے ملت اسلامیہ ہندیہ! میں بابری مسجد ہوں، میں ایک جگہ مسمار ہوئی ہوں، لیکن تمہارے اطراف واکناف میں میرا وجود ہوگا، اسے آباد کرنا۔
یاد رکھو میری بازیابی کے لیے آدھی محنت تمہیں صرف یہ کرنی ہے کہ تم اپنی مسجدوں کو آباد کرو، اگر ایسا نہیں کرو گے تو نہ جانے کتنے خانۂ خدا میری صف میں کھڑے ہوں گے، اور اگر میرے پیغام سے منہ موڑلو گے؛ تو پھر مجھے ڈر ہے کہ کہیں خدا کا قہر نہ نازل ہو جائے۔
محترم دوستو! بابری مسجد کا درد ہر مسلمان اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، ایک تاریخی مسجد ڈھا دینے کی تکلیف یقیناً ہوتی ہے؛ لیکن بابری مسجد کا ایک پیغام ہندوستان کے ہر مسلمان کو بالخصوص خاموش زبان میں یہ بھی ہے کہ اپنی مسجدوں کو آباد کریں، اپنے محلے میں قائم مسجدوں میں نمازوں کی ادائیگی کے ذریعے ان کی فکر کریں، ہم مسجدوں میں نمازیں ادا کریں گے؛تو ہماری مسجدیں آباد بھی رہیں گی، اور محفوظ بھی رہیں گی، ایسے سخت حالات میں تو ہماری ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ ہم اپنے تعلق کو اپنے پروردگار سے مضبوط کریں، اپنی مساجد کو آباد رکھیں، دعاؤں و مناجات کے ذریعہ مدد و نصرت کے طلبگار رہیں، احکام شریعت پر پوری پابندی کے ساتھ عمل کریں؛ تاکہ ہمارے دشمن ہماری عملی کمزوریوں کو دیکھ کر احکام اسلام پر قدغن لگانے کا مطالبہ نہ کر سکیں، ہماری ایمانی کمیوں کو دیکھ کر اسلام کے خلاف سازش نہ کرسکیں۔
مسجدیں ہمارے لئے ایمانی قوت و طاقت کے مرکز ہیں، اصلاح اور ہدایت کے سر چشمے ہیں، مسجدوں سے اگر ہم مربوط رہیں گے؛ تو ان شاءاللہ اصلاح و ہدایت کا فیض بھی ہم کو ملتا رہے گا، احساس عبدیت اور بندگی بھی ہروقت تازہ رہیں گے، اعمال کے انجام دینے میں فکر مندی رہے گی، قرآن و سنت کی تعلیمات بھی زندگیوں میں آئیں گی، اخوت و محبت ایثار و ہمدردی کا مزاج بھی پروان چڑھے گا، دنیا اور مسلمانوں کے حالات سے بھی باخبر رہیں گے، اور حالات و تقاضوں کے لحاظ سے لائحۂ عمل طے کر نے کی راہیں بھی سامنے آئیں گی۔
ہم جائزہ لے کر دیکھیں کہ کتنے مسلمان ہیں جو ہفتہ میں صرف ایک بار جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لئے مسجد کو آتے ہیں، کچھ وہ بھی ہیں جو مہینوں میں ایک دو بار آ جاتے ہیں، کچھ وہ بھی ہیں جو رمضان عیدین اور متبرک راتوں میں حاضر ہو کر اپنی مسلمانی کا ثبوت دیتے ہیں۔
لیکن ایک مسلمان کے لئے دن میں پانچ مرتبہ مسجد کی حاضری ضروری ہے، وہ ہر نماز میں مسجد حاضر ہوکر عبادت و بندگی کرتا ہے، اور اپنی عبادت گاہ (مسجد) سے اپنے والہانہ تعلق کا ثبوت دیتا ہے، نمازوں سے غفلت کی وجہ سے ہم بھی مسجدوں کو ویران کرنے والے شمار کئے جائیں گے، بلکہ کیے جا رہے ہیں، آج کتنی مسجدیں ہیں جن میں نماز پڑھنے والا نہیں؟ جب کہ وہاں مسلم آبادی بھی ہے، نوجوان بھی ہیں، اور بوڑھے بھی بچے بھی ہیں، نمازوں میں دیکھیں ہزاروں کی آبادی والے محلے میں گنتی کے چند لوگ نماز پڑھنے کے لیے آتے ہیں، کیا ہم قصور وار نہیں ہیں؟ کیا ہم اپنی مسجدوں کو ویران کر رہے؟ اور ان کی ناقدری کے مرتکب ہو رہے ہیں؟
حالات اور واقعات ہمیں سبق دے رہیں، اور پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنی اصلاح کرلیں، سدھار لے آئیں، زندگیوں سے غفلت کو دور کریں مسجد سے رشتے کو مضبوط کریں، مسجد کی آبادی کی فکر کریں، اور نمازوں کا خوب اہتمام کرنے والے بنیں، علامہ اقبال کا ایک مشہور شعر ہے:
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا.
آخر میں ہم دعا کرتے ہیں کہ جو لوگ بابری مسجد کے تعلق سے کوششیں کر رہے ہیں ان کی ہر کوشش کو اللہ تعالی قبول فرمائے، ان کی ہر طرح سے مدد و نصرت فرمائے اور ہم سب کو بابری مسجد کے ساتھ ساتھ ہر مسجد کو آباد کرنے والا بنائے۔
(آمین یا رب العالمین)
وصلی اللہ علی النبي الکریم وعلى آله وصحبه أجمعين.
Comments are closed.