ہندوستان ہندو راشٹر کی طرف

 

 

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]

7987972043

 

 

ایک سیکولر ملک کا وزیراعظم بھگوا رنگ کو سینے سے لگانے لگے، مذہبی روپ دھرنے لگے، مکھوٹا پہن کر ہندوؤں کا راجہ لگنے لگے، خود مندر کی بنیاد رکھے، خود اکثریت کے معبود کی تعریفیں کرے، نعرے لگائے، آستھا اور عقیدہ ظاہر کرے، اسی بنیاد پر ووٹ کی سیاست کرے، دنگے فساد اور جمہوریت کو لخت لخت کرتا پھرے تو اسے آخر کیسے سیکولر کہا جائے؟ کانگریس نے در پردہ منصوبے بنے، مسلم حمایت کی صورت میں مخالفت کی چالیں چلیں، ان کی نسلوں کو سرکاری محکموں سے دور کیا، تعلیمی میدانوں سے پرے کیا، زمینداروں سے زمینیں چھین کر انہیں کنگال کیا، اوقاف کی ملکیت پر ڈاکہ ڈالا، مسلمانوں کی وراثت کو لوٹا، ان کی علامات کو بھی مسخ کیا، اور پھر سرکاری اسکیموں سے استفادہ کے نام نام پر مسلمانوں کا استحصال کیا اور خود بابری مسجد کو متنازع بنا کر ہندو کمیٹی کو ہندتوا کا رخ دیا، ملک میں دو دھارے اور دو نطریے کا تعارف کرایا، ورنہ سوچئے! گاندھی جی کے قتل کے بعد ناتھورام گوڈسے اور متشدد ہندوؤں اور ہندتوا کے ایجنڈے پر لگام لگانے کی کوشش کی گئی تھی؛ لیکن پھر کس نے انہیں پنپے دیا، گوڈسے کی فکر کو کس نے پلنے دیا؟ یقیناً کانگریس ہی وہ چہرہ تھا جس نے دیوار کے پیچھے سے کام کیا، مسلمانوں کو فسادات کی زد میں لاکر انہیں لاچار و مجبور بنایا گیا، انہیں غربت کی بھٹی میں جھونک کر رفتہ رفتہ ایک خاص طبقہ کو تقویت دی گئی، اعلی عہدیداروں میں انہیں لوگوں کو شامل کیا گیا، جس نے ہندتوا کو دلوں میں دبائے رکھا تھا، یہی وجہ ہے کہ جب ہندتوا کا کھلا چیرہ بی جے پی کی صورت میں اقتدار پر براجمان ہوئی تو اس نے ان کے تمام ہندوانہ پروجیکٹ کو سپورٹ کیا، ایسے میں وہ ملک کی کل طاقت کے ساتھ رونما ہوئے، مسلمانوں کو نشانہ بنا کر ملک میں تشدد کا ماحول بنایا، ہندو خطرے میں ہے کا نعرہ لگا کر تمام ہندوؤں کو ایک طرف اور بقیہ آبادی کو دوسری طرف کردیا، ایسے میں غیر جمہوری قوانین پاس کئے گئے، اور سیکولرازم کو کھرچ کھرچ کر نکالا گیا، البتہ اس کا بھرم قائم رکھنے کیلئے جھوٹ اور ملمع سازی کا سہارا لیا گیا، شاندار اور مسحور کن تقاریر و پروگرام اور ایجنڈے کے ساتھ ملک کی تمام ایجنسیوں اور سبھی شعبوں کو اپنے قبضہ میں لے لیا، اور وہ دن آیا کہ جسے قومی شرمندگی کہا گیا تھا وہی تیس سال بعد قومی چمک کا خطاب پاگیا۔

ایسا نہیں ہے کہ یہ قصہ طویل صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے؛ بلکہ کچھ نہ کچھ اس آگ کی لپٹ یا پھر دھواں ملک کی دیگر اقلیتوں تک بھی پہونچا ہے، دلتوں ہندو راشٹر اور غلامانہ فکر میں خموشی برتی، تو وہیں دوسرے خود کفیل اور اصحاب فکر اقلیت کو بھی گھیرا گیا، اس وقت کسان آندولن بھی اسی کا ایک حصہ ہے، ابھی باری ملک میں ریڑھ کی ہڈی توڑنے کی ہے، سکھوں نے اگرچہ ہندوستان میں اپنی موجودگی درج کروائی ہے؛ لیکن اب وہ فیصلہ کن مرحلے میں ہیں، آج بھارت بند تھا؛ لیکن رپورٹس سے ہندوستانی منظر نامہ صاف صاف دکھاتا ہے کہ وہ عوام اور مجبوروں سے کہیں بلند ہوچکی ہے، یہاں صرف ایک ہی سوچ اور ایک ہی فکر چلے گی، صحیح بات تو یہ ہے کہ یہ مشکل کی گھڑی ہے، یہ وقت ہے کہ اب بھارت کو سیکولرازم کا دامن چاہئے یا نہیں؟ یہ لمحہ ہر شخص کیلئے قابل غور ہے جو ملک کو ایک سیکولر دیکھنا چاہتا ہے؟ ویسے بھی جب رام مندر کی بنیاد رکھنے کیلئے رواں وزیر اعظم جارہے تھے تو مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسدالدین اویسی نے کہا تھا کہ یہ دراصل ہندو راشٹر کی بنیاد رکھی جارہی ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس قدم پر سوائے مجلس اور کمیونسٹ پارٹی کے اور کسی نے مخالفت نہ کی؛ بلکہ ہر کسی نے قصیدہ کہنے شروع کردیئے، صدیوں سے سیکولرازم کا نقاب اوڑھے ہوئے بھی بے نقاب ہوگئے، پورا ملک اور پوری ذرائع ابلاغ پر بس ایک ہی رنگ نظر آتا تھا؛ خود ماہرین اب یہ مانتے ہیں کہ موجودہ گورنمنٹ کا اگلا قدم یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنا ہے، پرسنل لا کی حقیقت ختم کی جائے گی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اقلیت بے معنی ہوجائیں گے، ریزرویشن کی بھی کوئی اہمیت نہ ہوگی، بلکہ یہ بھی جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ٢٠٢٤ سے قبل ہوگا، اگرچہ کسانوں کی بیداری اور نوجوانوں کے نعرے ایک امید کی جوت جگاتے ہیں؛ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہندوؤں کی اکثریت ایک مذہبی نشہ سے دوچار ہے، انہیں مودی کی شخصیت کی ہندو راشٹر ہی نظر آتا ہے، ان کا ہر قدم رام راجیہ کی عبارت سے تعبیر ہوتا ہے، لوگوں نے اس کیلئے اپنی جان تک دینے اور کسی بھی مرحلے تک جانے کی کوشش کی جارہی ہے، وقت ہے کہ اصحاب عقل و فکر ہوش کے ناخن لیں اور سر جوڑ کر بیٹھیں، ورنہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا وہ سورج کی روشنی سے بھی زیادہ عیاں ہے۔

 

 

Comments are closed.