ملک کے موجودہ حالات میں سیرت پاک سے رہنمائی

 

 

 

ڈاکٹر سید عروج احمد

کھاچرود

 

وطن عزیز ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے کے لئے جہاں ایک طرف ملک کی ہر قوم نے جدوجہد کی، جس کے نتیجے میں وطن عزیز کو آزادی کا پروانہ ملا۔۔

دوسری طرف انگریز کے چاپلوس اور وفادار جن سنگھی ذہنیت کے لوگ تھےجو انگریزوں کی نمک حلالی میں غاصب حکومت کے استمرار واستحکام کاذریعہ بنے ہوئے تھے۔

ایک طرف ہم نے حضرت ٹیپو سلطان شہید کی سلطنت ،بہادر شاہ ظفر کے خاندان کو قربان کیا،مولانا محمد علی جوہر،علامہ مشرقی،مولانا فضل حق خیرآبادی کے ساتھ ساتھ بے شمار علماء اور مشائخ نے اپنے مادر وطن کو انگریز کے پنجے سے چھڑانے کے لیے تختہ دار کو اپنے پاکیزہ لبوں سے چوم لیا۔۔

لیکن آخرکار ۔۔جس کا ڈر تھا وہی سامنے آیا۔

آزادیِ وطن کےبعد ملک میں دونظریات سامنے آئے۔ ایک یہی جن سنگھی اور مہاسبھائی لوگ ملک کو ہندوراشٹر بناناچاہتے تھے۔

جبکہ دوسری سوچ سیکولر اورجمہوری ملک کےحق میں

تھی ۔مسلمان نہ صرف ثانی الذکرکے حامی تھے بلکہ سیکولراورجمہوری ملک بنوانے میں پیش پیش رہے۔۔

جسے فریق مخالف بھلانہ سکا۔

مسلمانوں کےابتلاء وآزمائش کادورتوآزادی کےمعابعد ہی شروع ہوچکاتھا مگر آئین کی بالادستی اور جمہوریت کی مضبوطی نے متعصبین ومتشددین کوموقع نہیں دیا۔مسلمان بھی خودکوتسلی دےلیتےکہ فسادات،وبلاسٹ،چندسرپھروں کی کارستانی ہے،جوملک کے امن وامان کوخراب کرناچاہتےہیں۔ لیکن حالیہ چند برسوں میں ملک کی جو تصویرابھر کر سامنے آئی ہے، اس نے دنیا کو حیران کر دیاہے کہ شرپسندوں کی پیٹھ پر کس کاہاتھ ہے ؟؟

مجرموں اوربلوائیوں کو شہ کون دےرہاہے ؟؟ بابری مسجد کی شہادت کےبعد ایسے کافی چہرےبےنقاب ہوچکےہیں ۔۔

مسلمانوں کو مسلسل ملک سے نکالنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔

فسطائیت اورفرقہ پرستی کا زہر پورے ملک کولپیٹ میں لےچکاہے،نفرت و تعصب کی چنگاری شعلہ بن چکی ہے۔

لوجہاد، گهرواپسی، گئو ہتیا،وندےماترم، بهارت ماتا،مشکوک راشٹرواد اورحب الوطنی کی نئی نئی تشریحات شب و روز نمایاں ہو رہی ہیں۔

آئین میں تحریف کی منصوبہ بندی،طلاقِ ثلاثہ پرنئے قانون کی منظوری اور یکساں سول کوڈ کی تیاری اس پربابری مسجد کامتنازع فیصلہ، این آرسی اورسی اے اےجیسے کالے قانون سےمسلمانوں کو الگ تھلگ کرکے دوئم درجےکا

شہری بنانے کی متعصبانہ پالیسی طشت ازبام ہوچکی ہے ۔۔۔تعلیمی ،معاشرتی،

تجارتی،سیاسی،اور قانونی سطح پر ہرطرح سے مسلمانوں کو ہراساں کرکے ان کی آواز دبانے کا گھنونہ کھیل سرکارکا مشن بن چکا ہے۔

آج غاصب سامراجی تسلط کےخلاف آزادئ وطن کی خاطر بھاری قیمت چکا نے والی مسلم قوم کی قربانی،وفاداری اور روشن تاریخ پرسیاہیاں پوتی جارہی ہیں ۔ملک کی اقلیت بلکہ دوسری بڑی اکثریت دلت اور آدیواسی کی مٹی پلید کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایاجارہاہے۔

ان کی خواہش ہےکہ ملک کی تمام اقلیتیں خاص طور سے مسلمان ان کے ساتھ ضم ہوجائیں یاپهرملک چهوڑدیں۔

 

سیرت پاک کی روشنی میں ہمارا لائحہ عمل

ان حالات میں ملک میں مسلمانوں کا مستقبل کیساہوگا ؟یہ خودمسلمانوں پرمنحصر ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کےپاس ہرزمانے کے ہر چیلنج کامقابلہ کرنےکا آیئڈیا اور تھیوری موجود ہے۔

اور وہ ہے قرآن حکیم کی روشنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح ہدایات،آپ کا نمونہ زندگی اور آپ کی سیرت پاک کے روشن پہلو۔جن پر عمل پیرا ہوکر ہم نہ صرف محفوظ ومامون ہوسکتےہیں بلکہ ملک کی تقدیربھی بدلی جاسکتی ہے۔

 

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ

سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

یہ صحیح ہے کہ اس وقت مسلمان خود اپنے وطن میں مختلف قسم کے مصائب وآلام،آفات وبلیات اور ظلم و تشدد کا شکار ہیں۔جان ومال،عزت وآبرو، دین وایمان ہرچیزداؤپرلگی ہوئی ہے،مخالفین نےہر طرف سے گھیرا بندی کرلی ہے،بدقسمتی سے اس وقت فرقہ پرستانہ سوچ رکھنے والی قوتوں کاغلبہ بھی ہے۔

لیکن خداکاشکر ہے کہ آج بھی ملک میں انھیں قبول نہیں کیاگیاہے، سیکولر طبقےکی طرف سے برابر وہ ہدف تنقید ہیں ۔اس لیےمسلمانوں کوبھی گھبرانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ کی

سیرت پاک کا پیغام ہے کہ۔۔

” اللہ نے تمہارےمقدرمیں جتنانفع و نقصان لکھ دیا ہے ساری دنیاکے لوگ مل کر بھی اس سے زیادہ تم کونفع یا نقصان پہنچاناچاہیں تو نہیں پہنچاسکتے”

اس لئے حالات کتنے ہی مخالف اور خوفناک ہوجائیں بحیثیت مسلمان ہمیں امید اورصبر کادامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔حوصلےکمزوراورہمتیں پست نہیں ہونی چاہئیں۔ایک خداکی عبادت ،ایک اللہ کی وحدانیت اوراس عقیدے پرقائم رہنےوالوں کوہردورمیں مخالفت کاسامنارہاہے اور رہے گا،

خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمانوں کی مکی زندگی کےحالات دیکھئے وہ توبڑے سخت تھے کل اور آج میں کوئی مقابلہ نہیں۔ ہاں ملک میں مسلمانوں کےحالات مکی زندگی کےاحوال میں ایک گونہ مماثلت ضرورہے۔

کیامکہ میں مسلمان اقلیت میں نہیں تھے؟

کیا انھیں مشرکین مکہ کی مخالفت کاسامنا نہیں تھا؟

کیا مسلمان مال واسباب میں مشرکین کے مقابلہ میں کم ترنہیں تھے ؟

کیاکمزورمسلمانوں کی لنچنگ نہیں ہوئی؟

کیا مسلمانوں کامعاشرتی وتجارتی بائیکاٹ نہیں کیاگیا؟کیارسول اللہﷺ کےقتل کی پلاننگ نہیں ہوئی؟کیا انھیں اوران کےجاں نثاروں کےلئے سرزمینِ مکہ تنگ نہیں کی گئی؟ کیا ہم شعبہ ابی طالب کی آزمائش اور جبر و تشدد کو بھول گئے۔۔یہاں تک کہ ہجرت کرنی پڑی۔۔!!

کیایہی سب کچھ ملک میں نہیں ہو رہا ہے ؟

ہاں۔۔۔ ہو رہا ہے۔ لیکن تھوڑا سافرق ہے وہ یہ کہ۔۔۔

اُس دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی حکمت عملی تھی؟کس طرح انھوں نے ان کےظلم وجبر کا مقابلہ کیا؟

کفارِمکہ کی نفرت وحقارت اورشقاوت وعداوت کو کیسے محبت ورافت اورسخاوت والفت سے بدل دیا؟ یادرکھئے! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ،خاتم النبین ہیں،آپ صلی الله عليه وسلم کی زندگی میں اقصائے عالم کے میں موجود انسانو ں کے تمام شعبہائے زندگی کےلئے مکمل اسوہ موجود ہے۔ آپ کی حیات طیبہ تاقیامت مسلمانوں کےلئے مشعل راہ ہے۔سرسےپاؤں تک، گود سےگور ، ہرجگہ ، ہرشعبہ، میں آپ کاطریقہ واجب الاطاعۃ اور کامیابی کی ضمانت ہے۔سب سے بڑی بات یہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت,سیرت اوراسوہ اللہ کی رضاوخوشنودی کی شاہِ کلیدہے،مصائب وحوادث کےلئے نسخۂ اکسیرہے،

تیزوتندآندھیوں کے آگےسدسکندری،فتنوں کےدورمیں چراغ راہ اورخطرناک راہوں کارفیق سفر ہے۔ ع

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا سب لوح و قلم تیرے ہیں

اتباع نبوی کو اپنی زندگی کا مقصد بنانےوالوں کے دشمنوں کےقلوب میں اللہ خوف ڈالتاہے،فاسق وفاجر کے دلوں میں رعب بیٹھاتا ہے،فتنوں کےدورمیں دست گیری فرماتاہے۔

جب جب آپ کی تعلیمات کوحرزجاں بنایا گیا،اپنی نشست وبرخاست کو سنت کےمطابق ڈھالا گیا،تو تاریخ شاہدہے سیادت وقیادت باندی بن کرکھڑی ملی، مال ودولت قدموں میں ذلیل ہوکرآئے،بات طویل ہوگئی آئیے آخری بات لکھ کرموضوع بند کیاجائے۔۔۔

مختلف سیرت نگاروں اورمؤرخین کی تحریروں کوجب اختصارکاجامہ پہنایاجاتاہے تو ہمیں مکی دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور فتوحات کے چار أصول نمایاں طور پر معلوم ہوتے ہیں۔۔۔۔

 

پہلا: تعلیم وتربیت

آپ کی تعلیم و تربیت اس اندازکی تھی کہ مسلمان سب سے پہلے اللہ پر مکمل اعتماد کرے، جو کچھ ہورہاہےیاہونےوالاہے،

ہرحالت میں اللہ کی طاقت وقوت پربھروسہ رکھے،صبروشکر زندگی کاحصہ ہو،رجوع الی اللہ اورخشیتِ الہی مومن کا زیور ہو ۔۔

آج کےحالات میں ہمیں اپنے تعلیمی نظام قائم کرنے اور نہجِ نبوت کو اپنا کر مسلمانوں کو بلند کردار امت بنایا جائے۔۔۔موجودہ پستی کے حالات کا احتساب کر کے مثبت لائحہ عمل اختیاکرنا اشد ضروری ہے۔

 

دوسرا: وحدت

یعنی جو بھی دائرہ اسلام میں داخل ہو گیاوہ اپنابھائی ہے۔متحدہ فکر اور عمل کےلئےتمام مسلمانوں کااتحادضروری ہے۔

مکی مسلمان مادی لحاظ سے لاکھ کمزورحالت میں تھے، لیکن اسلام کےنام پر آپس میں بقول کلام الٰہی۔۔ "سیسا پلائی ہوئی دیوار کی طرح” متحد تھےجنھیں مخالفین منتشرنہ کرسکے ۔

 

آج یہ سبق ہم مسلمان بھول چکے ہیں۔ملی وقومی مفاد میں بھی ہم ایک پیلٹ فارم پر دیر تک نہیں رہ پاتے، ایک جمہوری ملک کی منتخب حکومت کی تقدیرعوام کی انگلیوں میں بند ہوتی ہے۔

مگر الیکشن کےموقع پر مخالفین ہمیں منتشرکرکے

جونقصان پہنچاتےہیں وہ جگ ظاہر ہے۔

 

تیسرا: "دعوت”

یہ بہت وسیع ایجنڈہ ہے..یعنی اسلام کا پیغام عام کرنا, مکی دور میں جوحلقہ بگوش اسلام ہوتا وہ دین کاداعی اوراسلام کاسچاسپاہی بن جاتا,اس کی ہر ادا اسلام کاترجمان ہوتی،عشق رسول اوراتباع رسول اس کی انتہاہوتی۔۔

آج کےدورمیں سب سے زیادہ اسی کی ضرورت ہے،

اس کےاندرتعلیم ،فراست،سیاست ،اخلاقیات دفاع ،صداقت اورامانت داری سبھی کچھ موجود ہوں،اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ اسلام کی دعوت اوراس کےآفاقی پیغام کو عام کرنے کےلئے ہرمحاذ پرکام کریں۔۔جیسے۔۔ تعلیم کے ذریعے،اخلاق وکردار کے ذریعے،برقی وپرنٹ میڈیاکےذریعے،اسلام کی صحیح ترجمانی کی جاسکتی ہے۔

ضرورت ہے کہ اصلاح معاشرہ کےذریعہ مسلمانوں کوبھی سچامسلمان بنایاجائے اور غیروں کےہرطرح کےشکوک وشبہات اور بے جا اعتراضات کا ہرمحاذ سے سنجیدہ اور مدلل جواب دیاجائے۔۔

 

چوتھا: "خدمت”

انسانی بنیادپر بلاتفریق مذاہب، غیروں کےدکھ درد میں شرکت،وطنی اورانسانی بنیاد پر مظلوموں کےساتھ کھڑاہونا،ان کےساتھ مل کر امن وانصاف کی فضاہموارکرنا۔

الحمدللہ مسلمان بہت حد تک اس عمل کوانجام دےبھی رہےہیں۔ لیکن۔۔۔عیسائیوں اور سکھوں کی طرح مکمل پلاننگ یا منصوبہ بندی نہیں ہے،

آج ہندوستان میں اس کی سخت ضرورت ہے۔

دلت، آدیواسی اور چھوٹی ذات کےغیرمسلم؛ برہمنوں کے جا ظلم اورنسلی تعصب کی وجہ سے پریشان ہیں،

ایسےگرم ماحول سے فائدہ اٹھا کر قومی یکجہتی،

مذاکرات اور انسانی ہمدردی کےنام پر ان کےدلوں کوجیتاجاسکتاہے۔پانی کتناہی گندہ ہوجائےمگرآگ بجھانےکی صلاحیت رکھتاہے۔ میرامانناہےکہ جس طرح آگ کو آگ سے نہیں بجھایا جاسکتا ،اسی طرح نفرت کونفرت سے کبھی ختم نہیں کیاجاسکتا۔

اس لیے ضرورت طریقِ محبت ومعاونت اختیار کرکے حالات کو امن و انصاف کے موافق بنایا جائے۔

 

اللہ تعالی تمام مسلمانوں کی جان، مال اور ایمان کی ہرطرح سے حفاظت فرمائے۔ آمین

Comments are closed.