خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

عمر فراھی ۔۔۔
امیت شاہ نے کلکتہ میں ایک سبھا سے خطاب کرتے ہوۓ کہا تھا کہ این آر سی سے ہندوؤں سکھوں جینیوں بدھسٹوں عیسائیوں اور ۔۔۔۔یہودیوں نہیں کہا۔۔۔ مگر ان کا کہنے کا مقصد بالکل صاف تھا کہ مسلمانوں کے سوا ہندوستان میں جتنی بھی قومیں ہیں ان پر این آر سی لاگو نہیں ہوگا۔امیت شاہ کی ذہنیت سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اور ان کے لوگ مسلمانوں کو برداشت نہیں کر پارہے ہیں ۔
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ جو لوگ پچیس کروڑ مسلمانوں کو برداشت نہیں کر پا رہے ہیں اگر بھارت میں ان پچیس کروڑ مسلمانوں کی بجائے صرف ایک کروڑ یہودی ہوتے تو کیا ہوتا ؟
مجھے یقین ہے کہ پارلیمنٹ میں ہندو ستانیوں کی اکثریت تو ضرورہوتی لیکن حکومت اصل میں یہودی ہی کرتے اور کیوں کرتے یہ بات مضمون کے آخر تک واضح ہو جائے گی ۔اگر میں غلط ہوں تو دیکھ لیجئے ابھی جو لوگ بھارت کے اقتدار پر قابض ہیں وہ بھی تو یہودیوں کی طرح اقلیت میں ہیں ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہودی بہت تعلیم یافتہ اور ذہین ہیں جبکہ یہ لوگ اپنی پیدائش سے ہی ذہین اور تعلیم یافتہ رہے ہیں ۔یہ لوگ اس وقت بھی تعلیم یافتہ تھے جب آخری رسول اپنے ساتھیوں کے ساتھ مکے سے ہجرت کرکے مدینے میں داخل ہوئے ۔مگر کوئی بتاۓ گا کہ مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کر کے جانے والا مسلمانون کا قافلہ کتنا تعلیم یافتہ تھا ؟
مسلمان تعلیم اور ذہانت کے معاملے میں یہودیوں کے مقابلے میں کسی مقام پر بھی نہیں تھا مگر تعلیم یافتہ یہودیوں اور مسلمانوں میں ایک فرق ضرور تھا اور وہ تھا حرام حلال کی تمیز اور نصب العین کا فرق ۔یہ نصب العین اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے جس کی طرف قرآن نے مسلمانوں کی نشاندھی کی ہے کہ
ہم نے اس رسول کو کتاب کے ساتھ اس لئے بھیجا ہے تاکہ اسلام کو تمام جنس دین پر غالب کردے ۔دنیا نے دیکھا کہ جب تک مسلمانوں کو اس کا احساس تھا یا ان کی اسلامی غیرت زندہ تھی یا وہ بے حس نہیں ہوئے تھےمسلمانوں پر منگولوں اور تاتاریوں کی شکل میں لاکھ مشکلیں اور مصیبتیں آئیں انہوں نے کبھی کسی قوم کا اقتدار تسلیم نہیں کیا جبکہ یہودیوں پر اس کا انکشاف اس وقت ہوا یا ان کی غیرت اس وقت بیدار ہوئی جب وہ عیسیائی سلطنتوں میں قتل عام سے تنگ آکر دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوئے اور پھر ایک یہودی دانشور کے ایک مضمون کہ جب تک یہودی اپنی ریاست اور اپنا اقتدار نہیں قائم کر لیتے وہ اسی طرح قتل ہوتے رہیں گے ۔یہ بات چند یہودی نوجوانوں کو سمجھ میں آئی اور پھر جو یہودی جرمنی میں 1940 اور 1942تک ہولو کاسٹ سے گزر رہے تھے 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد کوئی ان کی طرف آنکھ بھی اٹھا کر نہیں دیکھ سکا ۔عجیب اتفاق دیکھئے کہ وہ جن کا قبلہ درست نہیں انہوں نے رام جنم بھومی اور ہیکل سلیمانی کی شکل میں اپنا قبلہ درست کر لیا مگر 1857 کی غدر اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمے سے پہلے تک روۓ زمین پرجو معزز تھے وہ خوار ہوئے تو اس لئے کہ وہ اپنے قبلے اور قرآن کے عالم گیری تصور اور نصب العین سے غافل ہو گئے ۔
ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف جنھوں نے مسلسل اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا وہ کفیل شرجیل امام اور امام الہند ہی تھے اور ان کی اس جدوجہد کا مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ پھر سے مغربی طرز کی لبرل سیاست کے تحت جہالت کی حکمرانی چاہتے تھے ۔مسلمانوں کے علماء یہ دیکھ رہے تھے کہ انگریز ہندوستان میں لوگوں کے کھانوں میں حرام اشیاء ملا رہا ہے۔ سود جس کا تصور مغلوں کے دور میں تھا ہی نہیں اسے باقاعدہ بینکوں کی شکل میں تجارت کا حصہ بنایاجارہا ہے ۔اس کے علاوہ شہروں میں شراب کی دکانیں بیئر بار اور فحاشی کے اڈے تیزی کے ساتھ تعمیر کئے جارہے ہیں ۔مسلمانوں کے ذہن میں ہندوستان کی آزادی کا تصور یہ نہیں تھا کہ انہیں ایک وطن کی ضرورت تھی ۔آزادی کا تصور یہ تھا کہ انگریز ان کے وطن میں حرام و حلال کی آمیزش سے ان کے ایمان اور عقیدے پر حملہ آور تھے ۔مگر رفتہ رفتہ جب آزادی کے دن قریب آئے انگریزوں نے ہمیں یہ آزادی اسی لباس میں دیا بلکہ اس وقت سے زیادہ بے حیائی اور بدعنوانی اپنے عروج پر ہے اور اسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہے ۔حد تو یہ ہے کہ اب نہ صرف وہ اپنے ایمان اور عقیدے سے محروم ہوجانے کے تئیں مشکوک ہے پارلیمنٹ میں این آر سی بل کو پاس کرکے اس کی وطنیت پر بھی سوال کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی ۔
یہ کہانی صرف ہندوستان کی نہیں ہے اس وقت دنیا کی وہ تمام نوآبادیات جنھوں نے برطانیہ اور فرانس کے تسلط سے آزادی حاصل کی تھی ان کے پاس بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ جدید لبرل سرمایہ دارانہ طرز سیاست اور آئین کو قانون کے طور پر قبول نہ کریں ۔یہ سب اچانک نہیں ہوا ۔اس نئی تہذیب کے بانی نہ تو انگریز تھے نہ روسی اور نہ ہی فرانسیسی یا یوروپ کی کوئی دوسری قوم ۔اس کے بانی وہی لوگ ہیں جنھوں نے ہیکل سلیمانی کے نیچے دفن اپنے آباواجداد کا گمشدہ خزانہ تلاش کر لیا ہے ۔اور وہ خزانہ یہ تھا کہ انہیں کسی بھی صورت میں اقتدار کی طرف بڑھنا ہے ۔طاقت سے وہ یہ کام کر نہیں سکتے تھے اس لئے ان کے ربیوں نے مشورہ کیا اور یہ طئے پایا کہ انہیں زیادہ سے زیادہ تجارت کرنی چاہئے اور دنیا کی دولت پر قبضہ کرنے کیلئے اگر حرام کام بھی کرنا پڑے تو کریں یہاں تک کہ انہوں نے اپنی تربیت یافتہ لڑکیوں کو بھی عیسائی اور مسلم حکمرانوں کے نکاح میں شامل کروایا۔فرانس یوروپ کا پہلا ملک ہے جہاں عیسائیوں کے سب سے زیادہ بچے یہودی ماؤں کی پیٹ سے پیدا ہوتے ہیں ۔اس کے علاوہ انہوں نے عرب حکمرانوں کے حرم میں بھی اپنی عورتوں کو داخل کیا ۔وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں یہودیوں اور آر ایس ایس کے نقش قدم پر خود کو بیدار کرنا چاہئے تو میرا سوال ان سے صرف اتنا ہے کہ یہودیوں نے دنیا پر غالب آنے کیلئے صرف تعلیم کا ہی سہارا نہیں لیا ۔انہوں نے وہ سارے حرام کام کئے اور اپنے زرخرید غلام دانشوروں سے کروائے جو اہل ایمان کبھی نہیں کرسکتے ۔خود آر ایس ایس اور ان کی ملیٹننٹ تنظیمیں آزادی سے پہلے اور بعد میں کبھی مندر تو کبھی گودھرا گجرات اور دھماکوں کی سازش کے ذریعے ملک کو فساد اور خون میں غرق کرکے نفرت کی سیاست کرتی رہی ہیں اور آج وہ اسی کے سہارے اقتدار تک بھی پہنچی ہیں۔ کیا اہل ایمان بھی ایسا کر سکتے ہیں ؟ دنیا پر غالب آنے ترقی کرنے اور حکومت کرنے کا جو طریقہ باطل طاقتیں اختیار کرتی ہیں اور کر رہی ہیں ان کے خطرناک نتائج بھی ہم اکیسویں صدی میں دیکھ رہے ہیں ۔یہ اہل ایمان کا شعار نہیں ہو سکتا ۔لیکن اگر باطل اس طریقے سے وقتی طور پر غالب آیا بھی ہے تو یہ اللہ کی طرف سے ہی اسے موقع فراہم کیا کیا ہے تاکہ وہ اپنے بندوں کو آزمائے جیسا کہ انسانی تاریخ میں عاد ثمود نمرود اور فرعون جیسی طاقتور قومیں بھی انسانوں پر مسلط ہو کر خدائی تک کا دعویٰ کر چکی ہیں ۔باطل کی وقتی کامیابی اور ترقی کی مثال دیکر اہل ایمان کو اس خطوط پر چلنے کا مشورہ نہیں دیا جاسکتا ہے جبکہ یہ بات واضح ہے کہ انہوں نے اپنی ترقی کیلئے بے حیائی ا بدعنوانی اور حرام خوری کے ہر فعل کو روا رکھا ہے ۔اقبال نے اسی پس منظر میں یہ بات کہی ہے کہ
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
Comments are closed.