حضرت مفتی زر ولی خان رح فی دار رحمان

 

ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی

خادم التدریس

جامعہ نعمانیہ ویکوٹہ آندھرا پردیش

 

گذشتہ شام تقریباً آٹھ سوا آٹھ بجے واٹس ایپ کے گروپوں میں ایک خونچکاں اور درد و کرب سے لبریز خبر پڑھنے کو ملا، پڑھ کر یقین نہیں آ رہا تھا ، دل میں بار بار خیال آرہا تھا کہ اللہ کرے خبر چھوٹی ہو، لیکن ایسا اس وقت ممکن تھا، جب کہ یہ غم انگیز خبر صرف ایک دو گروپ میں ہوتا،یہاں تو ہر گروپ اور بعض احباب نے پرسنل پر بھی ارسال کیا تھا کہ علوم و معارف کے نیر تاباں، سرتاج محدث و مفسر، علامہ کشمیری رحمہ اللہ کے عاشق صادق، بے باک عالم دین حضرت مفتی زر ولی خان رحمہ اللہ (بانی و ناظم وشیخ الحدیث:جامعہ عربیہ احسن العلوم، کراچی، پاکستان) اب اس فانی دنیا میں نہیں رہے بلکہ عالم جاودانی کی طرف ہمیشہ ہمیش کے لئے کوچ کر گئے۔

انا لله وانا اليه راجعون، ان الله ما اخذ وله ما اعطى كل شيء عنده باجل مسمى

حضرت مفتی صاحب قدس سرہٗ اس قحط الرجال دور میں علم و عمل کے بحر بیکراں تھے، باری تعالیٰ عز اسمہ نے حضرت والا کو ان گنت خوبیوں سے نوازا تھا۔

آپ رح وقت کے محدث بھی تھے مفسر بھی، فقیہ بھی اور ولی اللہ بھی تھے، موجودہ دور میں چند ایک ایسے محدث گذرے اور ہیں جو بیک وقت محدث و مفسر اور فقیہ ہیں، اس سلسلۃ الذہب میں ایک نام حضرت مفتی زر ولی خان رحمہ اللہ کا بھی تھا۔

حضرت مفتی صاحب رح کے نام سے آشنائی اس وقت ہوئی جب آپ رح نے تراویح کی اجرت کو جائز قرار دیا، اور آپ کا اپنے مخصوص لب و لہجہ میں معاوضہ علی التراویح کی جواز کا وائس آئیڈیو وائرل ہوا، اور شوشل میڈیا پر خوب گردش میں رہا، اگر چہ بعد میں بعض مفتیان عظام نے اس کی تردید کی اور اس مسئلہ کو آپ رح کاتفرد کہا گیا۔

لیکن حضرت مفتی صاحب رح اپنے نظریہ پر قائم رہے اور بخاری شریف سے دلیل، اسی طرح حرم کعبہ میں موجود ائمہ کرام کو جو تحفے اور ہدایا ملتے ہیں اس کو بھی دلیل میں پیش کرتے تھے۔

آپ رح کئی ایسے معاملے پر کھلے لفظوں میں بولتے تھے جہاں اکثر اہل علم چشم پوشی کی راہ کو اختیار کرتے ہیں جیسے تحریک تبلیغی جماعت، تبلیغی احباب کی غلطیوں پر آزادانہ طور پر نکیر فرمایا کرتے تھے۔

آپ رح کی کئی علمی تصنیفات بھی ہیں دو کتابوں کی مطالعہ کرنے کا شرف حاصل ہے، پہلی کتاب ”احسن الرسا ئل“ (اول) اور دوسری کتاب”احسن البرہان فی اقوال شیخنا مولانا مفتی زرولی خان“(ثانی)

ثانی الذکر میں تقریبا ساٹھ صفحات پر آپ رح کی خود نوشت سوانح بھی ہے، دونوں کتابیں ”پی، ڈی، ایف“میں ہونے کی وجہ سے مکمل تو مطالعہ نہیں کیا البتہ اکثر مقام زیر بصارت رہی۔

ثانی الذکر کتاب کی ابتدا میں آپ رح اور کتاب سے متعلق چند اشعار بھی ہیں:

*شیخ مفتی زرولی صاحب کی بھی کیا شان ہے*

*اک مکمل عالم دین کی یہی پہچان ہے*

*علم کی دریا بہا دیناہے ان کی اک ادا*

*یہ کتابی شکل میں اک خلق پر احسان ہے*

*قافلہ در قافلہ کتنے دلائل اس میں ہیں*

*احسن البرہان آخر احسن البرہان ہے*

آپ رح کی تاریخ ولادت 1953/اور جہانگیرہ، صوابی(پاکستان) جائے ولادت ہے، والد محترم کا نام محمد عاقل اور داد کا نام عمر دین ہے۔ابتدائی تعلیم سے لے کر کافیہ ، شرح وقایہ تک کی کتب وطن میں ہی حاصل کی، اسی کے ساتھ دوسری طرف میٹرک کے سالانہ امتحانات سے بھی فراغت ہوئی،آپ کافیہ کے حافظ تھے،اس کے بعد آپ کراچی کے عظیم دینی درسگاہ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن آئے،اور اس کا محرک علامہ یوسف بنوری رحمہ اللہ بانی جامعہ ہی تھے۔

7/شوال 1973ء کو جامعہ میں درجہ رابعہ میں داخلہ ہوا، اور پھر یہیں درجہ خامسہ تا دورۂ حدیث شریف تک کی تعلیم ہوئی،سن فراغت 1977/ہے اس کے بعد ہی سن 1978/میں

الجامعہ العربیہ احسن العلوم کی بنیاد رکھی گئی، اور اپنی محنت و لگن سے جلد ہی اسے بار آور بنایا 1988/سے دورہ حدیث شریف کا آغاز ہوا، سالانہ تعطیل میں دورۂ تفسیر بھی اسی سال سے باقاعدہ طور پر شروع ہوا جس میں ہر شعبہ سے متعلق افراد شریک ہواکرتے تھے، گویا کہ آپ رح کی ذات سے خلق کثیر مستفیض ہورہی تھیں، جو اب اس عالم میں دائمی طور پرمنقطع ہوگئ ۔

اللہ تعالی آپ کی بال بال مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی ٹھکانہ عطا فرمائے (آمین)

Comments are closed.