دنیا میں غریبی کی ایک بڑی وجہ

 

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043

یہ دنیا انسانوں کیلئے پیدا کی گئی ہے، وہ اگرچہ آخرت کیلئے پیدا کیا گیا ہے مگر عالم رنگ و بو میں موجود ذرہ ذرہ انہیں کی خدمت اور ضرورت کی تکمیل کیلئے ہے، جس میں کسی کی کوئی تفریق نہیں ہیں، علاقہ، جگہ، ملک و ملے کا کوئی امتیاز نہیں ہے، ہر انسان ان سے استفادہ میں برابر ہیں، کوئی ایسا نہیں جو ان سے اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے حق چھین لے، دنیاوی قوانین میں بھی انسانی حقوق کو سبھوں یکساں مانا ہے، کاغذی طور پر ہی سہی لیکن دنیا میں ہمیشہ برابری کی صدائیں گونجتی رہتی ہیں، قرآن مجید میں بھی یہ باور کرایا گیا ہے کہ: وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللہ رِزْقُہَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَ مُسْتَوْدَعَہَا ؕ کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٌ (ھود:٦) "اور زمین پر جو بھی چلنے والی چیز ہے ، اس کی روزی اﷲ تعالیٰ کے ذمہ ہے، اﷲ اس کے ٹھہرنے کی اور سونپے جانے کی جگہ سے بھی واقف ہیں، تمام باتیں ایک روشن کتاب ( لوحِ محفوظ ) میں موجود ہیں” مگر عجیب بات ہے کہ اللہ رب العزت کے اس وعدہ کے بعد بھی دنیا میں ایک بڑی تعداد بھوک پیاس کی حالت رہنے والوں کی ہے، بلکہ افریقی ممالک کی حالت تو زار و قطار ہے، لاکھوں لوگ ہر سال بھوک کی وجہ سے مر جاتے ہیں، لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟ قرآن مجید میں ایک مقام پر اس کا جواب ملتا ہے، دراصل اللہ تعالی نے جن وسائل کو لوگوں کے درمیان تقسیم کیا ہے اور انہیں حکم دیا کہ اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرو، لوگوں کی ضرورت کا خیال رکھو؛ لیکن پھر بھی انسانوں نے دولت اور وسائل پر قبضہ کرنے کو کافی سمجھا، محض اپنی زندگی کو اہمیت دیتے ہوئے سب کچھ اپنے لئے خاص کرلیا، دیکھئے اللہ تعالی کیسے اسے بیان کیا ہے- وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللہ ۙ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْ یَشَآءُ اللّٰہُ اَطْعَمَہٗۤ ٭ۖ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٌ (یسین:٤٧)- "اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جو کچھ عطا فرمایا ہے ، اس میں سے خرچ کرو تو ایمان نہ لانے والے مسلمانوں سے کہتے ہیں : کیاہم ان لوگوں کو کھلائیں ، جن کو کھلانا اللہ کو منظور ہوتا تو خود ہی کھلا دیتے ؟ تم لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو”- استاد گرامی فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی مدظلہ نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے بڑے بڑی اہم باتیں نقل کی ہیں، آپ فرماتے ہیں:
” اللہ تعالیٰ نے آخرت کا نظام تو اس طورپر رکھا ہے کہ وہاں کوئی شخص دوسرے کا محتاج نہ ہوگا ؛ لیکن دنیا میں ایک شخص کو دوسرے شخص کا محتاج بنایا گیا ہے ، اگر مزدور سرمایہ دار کا محتاج ہے کہ وہ اسے مزدوری کا موقع دے تو سرمایہ دار بھی مزور کا محتاج ہے کہ وہ اس کے مکانات کی تعمیر کرے ، اس کے باغات کو سیراب کرے اور اس کے کھیتوں کو بار آور بنائے ، اگر گاہک کو تاجر کی ضرورت ہے کہ تاجر نہ ہوں تو اس کو آسانی سے مطلوب مال کیسے مل سکے گا ، تو آجر کو بھی گاہک کی ضرورت ہے کہ اگر خریدار نہ ہو تو اس کی تجارت کیوں کر چل سکے گی ، زندگی کے اس کاروبار کے چلانے اور ایک دوسرے کی احتیاج کو باقی رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دولت میں یکسانیت نہیں رکھی ، کسی کو زیادہ دولت سے نوازا گیا اور کسی کو کم ، اس میں یہی حکمت ہے کہ یہ محتاجی ایک دوسرے کی خدمت کا راستہ پیدا کرے گی ؛ البتہ مالداروں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے غریب بھائیوں کی مدد کریں ، اس سے نہ صرف آخرت میں اجر حاصل ہوگا ؛ بلکہ دنیا میں بھی غریبوں میں مالداروں کے خلاف غیظ و غضب کا جذبہ پیدا نہ ہوگا ؛ لیکن جو سرمایہ دار خود غرض ، انسانیت کے جذبہ سے خالی اور خدا کے خوف سے عاری ہوتے ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ ان کا ایک پیسہ بھی ان کے کسی غریب بھائی پر خرچ نہ ہو ، یہاں اللہ تعالیٰ نے اسی رویہ کی مذمت فرمائی ہے ، ایسے لوگ اپنے عمل کے لئے کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کرلیتے ہیں ؛ چنانچہ مکہ کے بعض بخیل سرداروں نے کہا کہ اگر ان غریبوں کو کھلانا ہی مقصود ہوتا تو اللہ خود کھلادیتے ، جب اللہ نے ان کو محتاج رکھا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اللہ کی مرضی ہی یہی ہے کہ وہ بھوکے رہیں ، اس سلسلہ میں مفسرین نے حضرت ابوبکر اور ابوجہل کی باہمی گفتگو بھی نقل کی ہے ، حضرت ابوبکر کی طبیعت میں بڑی فیاضی اور غرباء پر وری تھی ، وہ غریبوں کی بڑی مدد کیا کرتے تھے ، ابوجہل نے ان سے کہا کہ تم کیوں ان کے کھانے پینے کا انتظام کرتے ہو ؟ کیا اللہ ان کو کھانا کھلانے پر قادر نہیں ہیں ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا : کیوں نہیں ؟ ابوجہل نے کہا : کیا وجہ ہے کہ اللہ نے ان کو محتاج رکھا ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا : اللہ نے کچھ کو محتاج بنایا ہے اور کچھ کو دولت مند ، اس میں دونوں کا امتحان مقصود ہے ، محتاجوں کو حکم دیا کہ وہ صبر سے کام لیں اورمالداروں کو حکم دیا کہ وہ اپنے ایسے بھائیوں پر خرچ کیا کریں ، ابوجہل نے کہا : تم بڑی غلطی پر ہو ، گویا تمہارا خیال ہے کہ اللہ ان کو کھلانے پر قادر ہیں اور نہیں کھلاتے ہیں اور تم ان کو کھلاتے ہو ؟ ( تفسیر قرطبی : ۱۵؍۲۶) — بہر حال اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ نے جن لوگوں کو دولت دی ہو ، ان کا انسانی اور دینی فریضہ ہے کہ اپنے غریب بھائیوں کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھائیں ، آج دنیا میں معاشی اعتبار سے جو بگاڑ پیدا ہوگیا ہے اور آجروں اور مزدوروں نیز سرمایہ داروں اور غریبوں کے درمیان جو ٹکراؤ کا ماحول پایا جاتا ہے ، وہ اسی کی طرف سے غفلت کا نتیجہ ہے” ۔ (آسان تفسیر قرآن مجید)

Comments are closed.