کیا بنگال کی سرزمین اویسی کےلئےہموار ہے؟

 

 

این جاوید

اسدالدین اویسی کے ہی بقول وہ’’ ہندوستانی میڈیا کی محبوبہ‘‘ ہیں اس لئے سب سے زیادہ ان پر یا ان سے متعلق بات کی جاتی ہے ۔اس میں کسی حد تک سچائی ہے ۔الیکٹرانک میڈیا میں اویسی ہی موضوع بحث ہوتے ہیں ۔میڈیا کس ایجنڈے کے تحت ایسا کررہی ہے وہ کوئی اب خفیہ راز نہیں رہا ہے ۔بہار اسمبلی انتخابات کے بعد آسام اور مغربی بنگال میںہونے والے اسمبلی انتخابات میں اسدالدین اویسی کوا نٹری کو لے کر بحث تیز ہوگئی ہے۔بنگالی میڈیا میں بھی یہ تجزیہ کیا جارہاہے کہ ترنمول کانگریس اور لیفٹ اور کانگریس اتحاد کو اویسی کی آمد سے کیا نقصان ہوگا؟ کیا بی جے پی اویسی کی وجہ سے بنگال میں برسراقتدار آنے کا خواب پورا کرلے گی؟ ۔

آسام میں مسلمانوں کی آبادی کی 30 فیصد کے قریب ہے ۔مگر وہاں پہلے سے بدرالدین اجمل کی قیادت والی’ اے آئی یو ڈی ایف ‘ہے جو مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کی نمائندگی کی دعویدارہے۔اس لئے اویسی کی پارٹی آسام میں انتخاب لڑکر مسلم ووٹروں کی تقسیم کی بدنامی نہیں لینا چاہیں گے۔بنگال میںمسلمانوں کی آبادی 28فیصد ہے ۔بہار سے متصل شمالی دیناج پور،مرشدآباد اور مالدہ میں مسلمانوں کی آبادی 50فیصد سے زاید ہے ۔بنگال میں مسلمانوں کی آبادی میں زبان اور ثقافت کے اعتبار سےیکسانیت اور یکجہتی نہیں ہے ۔ 8-10 فیصد اردو بولنے والوں کی آبادی ہے اور یہ کلکتہ اور اس کے آس پاس کے کچھ شہری علاقے ، آسنول ، سلی گوڑی وغیرہ میںآباد ہیں ۔باقی 90فیصد آبادی بنگلہ اور اس کی ذیلی زبان بولنے والوں پر مشتمل ہے جوریاست بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ۔بائیں محاذ کے دورا قتدار میں بنگلہ بولنے والی مسلم آبادی کا ووٹ سی پی ایم کو جاتا تھا ۔ جبکہ شہری علاقوں میں آباد اردو بولنے والوں کا رجحان کانگریس کی طرف تھا۔تاہم بعد میں مالدہ ، مرشدآباد اور شمالی دیناج پور میں بھی کانگریس نے اپنی پکڑ مضبوط بنالی تھی ۔

ممتا بنرجی کے عروج کے ساتھ یہ تقسیم ختم ہوگئی اورریاست بھر کے مسلمانوںکا رجحان ترنمول کانگریس کی طرف ہوگیا۔گزشتہ سال لوک سبھا انتخابات کے نتائج ظاہر کرتے ہیں ایک دو علاقے چھوڑ کر بیشتر جگہوںپر مسلم ووٹس یک طرفہ ترنمول کانگریس کی طرف چلاگیا ہے اور بی جے پی کے جیتنے کے خوف نے بھی مسلم ووٹ کومتحد کردیا تھا۔پراتیچی انسٹی ٹیوٹ کے صابر احمد کی تحقیق کے مطابق مغربی بنگال کی 294 اسمبلی سیٹوں میں 46 سیٹوںمیں مسلم ووٹ کی شرح 50 فیصد یا اس سے زیادہ ہے۔16سیٹوں پر مسلم ووٹرس کی شرح 40 سے 50 فیصد کے درمیان ہے۔ 33 سیٹوںپرمسلم ووٹ 30 سے40 فیصد کے درمیان ہے۔ 50 سیٹوں پرمسلم ووٹ کی شرح 20سے30فیصد کے درمیان ہے ۔

ایم آئی ایم کی نظر ان 46سیٹوں پرہے جہاں مسلمانوں کی آبادی 50فیصد یا اس سے زیادہ ہے ان میں سے بیشتر سیٹیں بہار اور آسام سے متصل ہیں ۔ بنگال میں مذہب پر مبنی سیاسی جماعت کا رجحان کوئی نیا نہیں ہے ۔ ماضی میں بھی تجربات ہوتے رہے ہیں۔ جن سنگھ کی ابتدا بھی بنگال سے ہی ہوئی تھی۔ہندوستان کی آزادی کے بعد بنگال سے انڈین یونین مسلم لیگ ایک دو سیٹوں پر ابتدائی دور میں کامیابی حاصل کی ہے ۔مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انڈین یونین مسلم لیگ ماضی کا حصہ بن گئیں۔

مگر کیا بہار کی طرح بنگال میں بھی اویسی کی راہ آسان ہوگی؟ تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ مغربی بنگا ل میں اویسی کی جماعت کے پاس کوئی قابل اعتبار مسلم لیڈر نہیںہے۔اس کے پاس کوئی اخترالایمان بھی نہیں ہے جسے انتخابی سیاست کا تجربہ ہواور وہ اپنے طور پر ووٹروں کو مائل بھی کرسکے ۔ ایم آئی ایم کا زیادہ تر انحصار اسدالدین اویسی کے چہرے پر ہے ۔ریاست میں کوئی مضبوط نیٹ ورک بھی نہیں ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ ترنمول کانگریس اس انتخاب کو’’ مقامی بنام باہری ‘‘بنانے کی کوشش کررہی ہے ۔اس نعر ے کے ذریعہ ترنمول کانگریس جہاں بی جے پی پر حملہ آور ہے وہیں وہ اویسی کی پارٹی کو بھی حیدرآبادی کی پارٹی قرار ددے کر باہری بتانے کی کوشش کرے گی ۔کئی ماہ قبل ممتا بنرجی نے ایک تقریب میں کہا تھا کہ میں بنگال میں ہی رہتی ہوں کہ اور سب کے ساتھ کھڑی ہوں ۔کوئی حیدرآباد سے آکر بچانے نہیں آئے گا۔ ایک اور چیز اویسی کے خلاف جاتی ہے کہ ’’اویسی کی جماعت کو اردو بولنے والوں کی جماعت کہی جارہی ہے‘‘۔بنگال میں کسی حدتک لسانی عصبیت ہرجگہ پر موجود ہے ۔ پارٹی کی بیشتر ریاستی اکائی کلکتہ اور اس کے آس پاس کے "غیر بنگالیوں” پر مشتمل ہے۔یہی وجہ ہے کہ ترنمول کانگریس کے سینئر لیڈر سوگت رائے یہ کہتے رہے ہیں کہ اویسی کا اثر اردوآبادی پر ہے۔بنگالی مسلمان ان سےمتاثر نہیں ہونے والے ہیں ۔

بنگال میں مسلمانوں کی سیاست کا ’’فرفرشریف ‘‘ مرکز رہا ہے ۔فرفرہ شریف سے بڑے پیمانے پر بنگالی مسلمان وابستہ ہیں ۔مگر اب فرفرہ شریف کا سیاسی مرکز انتشار کا شکار ہے۔کئے حلقے بن چکے ہیں ۔طہ صدیقی ان میں مشہور نام ہے ۔ترنمول کانگریس اب انہیں اپنے قریب کرنے میں کامیاب ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔مگر حالیہ دنوں میں بنگالی مسلم آبادی میں فرفرشریف کے ’’پیر زادہ عباس صدیقی ‘‘ابھر کر سامنے آئے ہیں اور جنوبی بنگال میں ان کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے ۔چند مہینے قبل ترنمو ل کانگریس کے حامیوں نے ان پر حملہ بھی کیا تھا ۔عباس صدیقی کے سیاسی عزائم ہیں ۔خبر گردش کررہی ہے کہ اویسی کے لوگ ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔اگر ایسا ہوگیا تو ترنمول کانگریس کو شدید نقصان ہوسکتا ہے ۔

تاہم مسلم اکثریتی علاقہ مرشدآباد، مالدہ ، شمالی دیناج پور اور دیگر اضلاع میں حکومت کے تئیںمسلمانوںمیں ناراضگی بڑھی ہے۔ مسلمانوں کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ ممتا حکومت نے مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی ترقی کےلئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کئے ہیں ۔ کانگریس ۔بایاںمحاذ اتحاد اور اویسی جماعت اس ایشوز کو تیزی سے اٹھارہی ہیں ۔ترنمول کانگریس کے مقامی لیڈروں کی ظلم و زیادتی سے بھی مقامی لوگوں میں ناراضگی ہے۔ایسے میں اویسی کی جماعت کےلئے امکانات تو موجود ہیں ۔ ایسے میں مسلمانوں کے تئیں خوش فہمی ترنمول کانگریس کو بھاڑی بھی پڑسکتی ہے۔

مشہور تجزیہ نگار اور مورخ راہل مکھرجی کہتے ہیں کہ ’ایم آئی ایم ایک شہری جماعت ہے۔بہار سے متصل مالدہ ضلع میں سرجا پوری برادری کی اچھی خاصی آبادی ہے ۔بہار انتخاب میں اِخترالایمان جن کا تعلق سورجا پوری برادرری سے ہے کی وجہ سے سورجا پوری برادری کا یک طرفہ ووٹ ایم آئی ایم کو گیا تھا اور اس کی وجہ سے ہی بہار میں پانچ سیٹوں پر اویسی کو کامیابی ملی تھی۔ بہار کی طرح اگربنگال کی سورجا برادری کا ووٹ ایم آئی ایم کو چلا گیا تو مالدہ ،مرشدآباداور شمالی دیناج پورمیںترنمول کانگریس کو نقصان ہوسکتا ہے ۔شمالی دیناج پورخاص طور پر اسلام پور اور دالکولہ جیسے علاقے بہار سے متصل ہیں ۔ثقافتی اورلسانی اعتبار یکسانیت بھی ہے۔یہ علاقہ کشن گنج سے متصل ہے ۔ کشن گنج ہی ایم آئی ایم کی طاقت کا مرکز ہے ۔کشن کی سیاست کا اثر اس علاقے پر بھی پڑتا ہے ۔اردو یونیورسٹی، تعلیمی مراکز کا قیام اور خودمختار ترقیاتی بورڈ اور ایمس کے برانچ کے قیام کامطالبہ یہاں کی مقامی آبادی کرتی رہی ہے ۔ ممتا حکومت ان سب کو نظر انداز کرتی رہی ہیں ۔مرشد آباد میںمسلم ووٹرس کانگریس اور ترنمول کانگریس کے درمیا ن منقسم ہیں۔ایسے میں اگر مرشدآباد میں ایم آئی ایم کی انٹری ہوتی ہے تو بی جے پی یہاں سے پانچ سے 6اسمبلی حلقوں میں کامیابی حاصل کرلے تو کوئی تعجب نہیں ہوگا ۔

مالدہ ضلع کے شمالی مالدہ لوک سبھا حلقہ جہاں مسلم ووٹروں کی شرح 50فیصد کے قریب ہے مگر ترنمول کانگریس کی موسم نور بے نظیراور کانگریس کے امیدوار عیسی خان چودھری کے درمیان مقابلہ آرائی کا فائدہ حاصل کرتے ہوئے بی جے پی یہاں سے کامیاب ہوگئ۔اسی طرح رائے گنج(شمالی دیناج پور) لوک سبھا حلقہ جہاں مسلم ووٹروں کی شرح49فیصد کے قریب ہے مگر ترنمول کانگریس، سی پی آئی ایم اورکانگریس کے درمیان ووٹوں کی تقسم کا فائدہ بی جے پی کو ہی ملا۔ ممتا حکومت سے مایوسی اور ناراضگی اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اویسی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باوجود بنگال کے مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی کوا حساس ہے کہ 2021کا اسمبلی انتخابات بہت ہی اہم ہے۔بی جے پی پوری قوت کے ساتھ پولرائزیشن کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ایسے میں 10فیصد مسلم ووٹ بھی تقسیم ہوا تواس کا فائدہ بی جے پی کو ہوگا اور بی جے پی آسانی سے بنگال کے اقتدار تک پہنچ جائے گی۔ان حالات میں ایسا لگتا ہے کہ بنگال ابھی ’’مسلم شناخت ‘‘ کی سیاست کےلئے تیار نہیں ہے ۔اویسی کو ابھی انتظار ہی کرنا ہوگا اور یہاں کامیابی حاصل کرنے کےلئے نیٹ ورک مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ کوئی قابل اعتماد چہرہ لانا ہوگا۔

Comments are closed.