ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں مدرسین و ائمہ کی زبوں حالی، لمحہ فکریہ و لائحہ عمل

*از قلم:راشد اسعد ندوی امام و خطیب مسجد عمر فاروق ڈونگری ممبئی
آج فجر کی نماز پڑھا کر مصلے پر ہی بیٹھا تھا مصلے کے قریب ایک نورانی شکل شخص نے پہلی صف میں تلاوت کے لیے قرآن شریف لے کر مجھ سے قدرے قریب بیٹھتے ہوئے اپنائیت بھرے لہجے میں مجھے اس طرح سلام کیا گویا وہ میرے قدیم شناسا ہوں؛ میں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھا دیا اور سوال کیا کہ آپ کون صاحب ہیں؟ کئی دن سے میں یہاں آپ کو دیکھ رہا ہوں
انھوں نے بڑے درد بھرے لہجے میں جواب دیا کہ *میں مفتی ہوں ایک صوبہ کے بڑے مدرسہ میں عليا کی کتابیں پڑھاتا تھا؛ لاک ڈاؤن کی وجہ سے مدرسہ نے ہماری تنخواہوں کا سلسلہ روک دیا ہے اس لیے گھر چلانے کے لیے (یہاں ہماری مسجد سے قریب) ایک برقعہ کی دوکان میں کام پر لگ گیا ہوں*
یہ سنتے ہی میں دم بخود رہ گیا گردش ایام کی فلاکت کا احساس جاگا فورا مفتی صاحب کو اپنے حجرے میں لے گیا اور جام صبوحی یعنی چائے سے ان کی تواضع کی اور ان سے تسلی آمیز گفتگو کی اپنے ملنے کے اوقات بتا کر عرض کیا کہ یہاں آیا کیجئے
گزشتہ دنوں صوبہ گجرات کا سفر کیا ایک مدرسہ میں جانا ہوا جس کی خوش منظر عمارتیں محلوں اور بنگلوں کو شرمندہ کر رہی تھیں وہاں کے ایک استاذ سے معلوم ہوا کہ تنخواہیں تالا بندی کے چلتے نصف کردی گئیں ہیں
میرے ایک دوست ایک عالیشان مسجد میں کئی سالوں سے امامت و خطابت کے فرائض بحسن و خوبی انجام دے رہے تھے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کو وطن بھیج دیا گیا؛ مسجد کے ٹرسٹیز نے مشورہ کیا تھا کہ ابھی تو صرف پانچ لوگوں کو نماز پڑھنے کی اجازت ہے جو مؤذن صاحب بھی پڑھا سکتے ہیں اگر امام صاحب رہیں گے تو ان کو تنخواہ دینا پڑے گی لہذا ان کو گھر بھیج دیا جائے جبکہ مسجد کے اکاؤنٹ میں اتنی رقم ہے کہ دس سال بھی ایسے ہی حالات رہیں تو وہ رقم ختم نہ ہو
یہ تو آنکھوں دیکھے تین متفرق واقعات میں نے نقل کیے ہیں ورنہ ملک کے طول و عرض میں مدارس و مساجد اسی زبوں حالی سے دوچار ہیں اور مدرسین و ائمہ اسی کس مپرسی کا شکار ہیں جسے دیکھ اور سن کر دل درد سے بھر آتا بےساختہ آہ نکل آتی ہے صبر کا دامن چھوٹ جاتا ہے زبان و قلم پر لگی سکوت کی مہر ٹوٹ جاتی ہے اور قصہ درد سنانے پر اپنے آپ کو مجبور محسوس کرتا ہوں
نالے بُلبل کے سُنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نَوا مَیں بھی کوئی گُل ہوں کہ خاموش رہوں
بلا شبہ مدارس و مساجد کا یہ بحران اور ان کے مدرسین و ائمہ کے ساتھ یہ بے اعتنائی ہندوستان جیسے فرقہ وارانہ پس منظر رکھنے والے ملک کے لیے خطرہ کی گھنٹی اور لمحہ فکریہ ہے اور ایک مضبوط لائحہ عمل کا متقاضی ہے
*اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے زندگی کے تمام شعبے زبردست متاثر ہوئے ہیں اور بیشتر اداروں کو مالی بحران سے بھی دوچار ہونا پڑا ہے تاہم اس سے نبرد آزما ہونا اس مسلمان قوم کے لیے کچھ مشکل نہیں جس کے دین و مذہب میں قدم قدم پر مختلف مناسبتوں سے مال خرچ کرنے کی ترغیب و تعلیم دی گئی ہے*.
لہذا ان پیش آمدہ حالات میں عامۃ المسلمین کی ذمہ داری ہے کہ وہ مساجد و مدارس کی طرف خصوصی توجہ دیتے ہوئے اپنے اموال کا خوب دل کھول کر انفاق کریں کہ یہی مساجد ہمارے لیے دینی پاؤر ہاؤس ہیں اور یہی مدارس ہمارے لیے حفاظت دین کے قلعے ہیں.
ارباب مدارس و مساجد کو بھی ان حالات سے سبق لینا چاہیے اور اپنے طرز عمل اور ادارتی نظام میں تبدیلی لانا چاہیے
1 – مساجد و مدارس قوم کی امانت اور وقف کی جگہیں ہیں ان کا ذمہ دار و متولی ایسے لوگوں کو ہی بنانا چاہیے جو امانت دار و خداترس ہونے کے ساتھ اپنے ماتحتوں پر شفقت و مہربانی کا معاملہ کرنے کے خو گر ہوں
2- مساجد و مدارس کے پاس آمدنی کے وسائل چندہ کے علاوہ بھی ہونا چاہیے مثلا دوکانیں ہوں یا مکانات اور فلیٹس ہوں جن کا کرایہ آتا رہے اور اس سے تنخواہوں کا مسئلہ حل ہوتا رہے.
3- لگے ہاتھوں یہ بھی عرض ہے کہ مساجد و مدارس کا ایک مضبوط وفاق ہونا بھی از حد ضروری ہے(یہ ایک تفصیل طلب اور مستقل موضوع ہے) جس کے تحت ناگہانی حالات میں نمازوں کی جماعت اور تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے یا موقوف کرنے کا بھی فیصلہ لیا جا سکے.
Comments are closed.