کیا مطلب ہے ،سب کی آزادی،سب کے وکا س کا؟

عبد الحمید نعمانی
غلامی کے دور میں آزادی کی اہمیت و ضرورت سمجھ میں آتی ہے اور آزادی سب سے اوپر کا موضوع بن جاتی ہے لیکن آزادی میں آزادی کی بات کچھ عجیب سی لگتی ہے ۔ آج کی تاریخ میں اسی عجیب کیفیت سے پورا ملک گزر رہا ہے اور یہ حالت ان عناصر نے بنائی ہے جن کے پروج تحریک آزادی سے عموماً دور تھے ۔ انھوں نے ایک محدود و معدود طبقے کو چھوڑ کر پورے سماج کو اپنے حقوق و آزادی کے تئیں تشویش اور کئی طرح کے سوالات کے بھیانک بھنور میں ڈال دیا ہے ۔
سماجی کارکنوں ، صحافیوں ، کسانوں محنت کشوں ، اقلیتوں ، دلتوں ،آدی واسیوں وغیرہ وغیرہ کے ساتھ جو کچھ ہور ہا ہے؟۔ وہ سب کے سامنے ہے ، ایک مسئلہ حل نہیں ہوپاتا ہے کہ کئی نئے مسائل پید ا ہوجاتے ہیں بلکہ پیدا کر دیے جاتے ہیں ، پوری دنیا سمیت بھارت بھی کورونا کے دور سے گزر رہا ہے ۔ یہ ایک سنگین اور اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ اس کے حل پر سرکار اور عوام دونوں کی پوری توجہ ہونی چاہیے تھی لیکن بد قسمتی سے بنیا وادی ذہنیت کے حامل حکمراں طبقہ مصیبت کو موقع کے طور پر استعمال کر رہا ہے ۔ جس سے کئی طرح کے ایسے مسائل پیدا اور ان میں اضافہ ہورہا ہے جن سے پبلک سروکار والے امور ناقابل توجہ اور غیر ضروری ہو کر رہ گئے ہیں ۔ تازہ تازہ زرعی قوانین اور دیگر طرح کے اقتصادی سماجی اور انسانی سماج کی آزادی سے متعلق جیسے معاملے ہیں ۔ ان کے سلسلے میں صرف جملے بازی خوش نما امید ا فزا باتیں اصل مسائل کے حل کا متبادل نہیں ہوسکتی ہیں جب مسائل حل اور وعدے پورے نہ ہوں تو عوام کا عام طور سے امید و اعتماد متزل اور بسا اوقات ختم ہوجاتا ہے ۔ نوٹ بندی کے ساتھ ہی اقتصادی بحران اور شرح ترقی میں جس طرح کی گراوٹ شروع ہوئی تھی اس میں اب تک کوئی بدلاﺅ نظر نہیں آرہا ہے عوام شدت کے ساتھ محسوس کر رہے ہیں کہ ایک طبقے کے بڑے کاروباریوں کے رحم و کر م اور ان کے مفاد کی قیمت پر پورے ملک کو داﺅ پر لگا دیا گیا ہے ۔ ملک کی اکثریت کی سمجھ میں بڑی تیزی سے بات آنے لگی ہے کہ سب کی آزادی اور سب کا ساتھ ،سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا کیا مطلب ہے ؟۔ پورے ملک کے سب مراد ہیں یا صرف اپنے سب ؟ ۔ تیزی سے بدلتے سماجی ، صنعتی ، سائنسی اور سیاسی ،اقتصادی حالات نے عام انسانوں خصوصاً محنت کشوں ، کامگاروں ، کسانوں ، مزدوروں کے لیے کئی طرح کے مشکل اور زند گی کش مسائل پید اکر دیے ہیں ، عالمی سطح پر حد سے زیادہ سے مشینی کرن اور سائنسی آلات و ذرائع کے استعمال اور اس پر بڑھتے انحصار نے آتم نربھر کی تھیوری کو پوری طرح بے معنی بنا کر رکھ دیا ہے ۔ ٹکنالوجی اور مشینی استعمال سے بے روزگاری کا بحران پیدا ہو گیا ہے، دنیا کو مٹھی میں کر لینے کی للک و نعرے اور رجحان لوگوں کے روزگار کو چھیننے کا کام کر رہا ہے ۔ ورلڈ اکنامک فورم کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آنے والے پانچ برسوں 2025 تک ، مشینوں کی وجہ سے بہت سے انسانوں سے نوکریاں چھن جائیں گی ۔
عالمی بینک نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت کو نوجوانوں کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر نئی نوکریوں اور روزگار کے مواقع پید اکرنے ہوں گے ۔ رپورٹ میں ایک قابل توجہ یہ بات بھی ہے کہ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں شرح آبادی میں کمی آنے کے سبب کام کرنے والے افراد کی آبادی کم ہوگئی ہے ایسی حالت میں عالمی معیشت میں بھارت ایک بڑا رول ادا کر سکتا ہے لیکن اس پر توجہ کے بجائے یہاں کا حکمراں طبقہ مختلف قسم کے تماشے اور شوشہ بازی میں مصروف و مشغول ہے ۔ بھارت میں 65فی صد آبادی 35سال سے کم عمر کی ہے ، اس کا نوجوان نسل کو نئی مہارت و تربیت سے لیس کرکے مشینوں کے بڑھتے چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔ بھارت ، دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت اور ہندستانی بازار دنیا کی چوتھا سب سے بڑی مارکیٹ ہے ۔ تیز رفتار ترقی کے لیے نئے مواقع کے تناظر میں بھارت کو پید اوار اور برآمدات کے لیے عالمی مرکز کی شکل میں سامنے لایا جاسکتا ہے ۔ بڑی بڑی عالمی تجارتی کمپنیاں بھارت کی طرف دیکھتی ہیں ۔ ایسے روشن امکانات کو حقیقت کا روپ دینے پر توجہ و توانائی لگانے کے بجائے اقتداری گروہ تہذیبی راشٹر واد کے نام پر ، مورتی ، مندر ، لوجہاد وغیرہ کی گمراہ کن ، استحصالی سیاست میں مصروف ہے اور اس کے لیے ملک کے محنت کش عوام،کسانوں ، مزدوروں ، کامگاروں کا کندھا استعمال کیا جارہا ہے ۔ کچھ بڑے کاروباریوں اور سرمایہ داروں کا جوا ان کے کندھے پر رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے بلکہ کندھے پر جوا رکھ دیا گیا ہے ، دنیا کے مزدور و/ ایک ہوجاﺅ کے نعرے اور محنت کشوں کی توقیر و تفوق کی باتوں سے ان میں کچھ امید پیدا ہوئی تھی لیکن غیر فطری طریقہ کار اور ہندستانی سماج کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بہتر تبدیلی پیدا کر نے میں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔ جس کے نتیجے میں مکروہ سرمایہ دارانہ نظام کا سیاہ سایہ تیزی سے پھیلتا جارہا ہے ،اسی کا نمونہ 20ستمبر 2020ءکو حکومت کی طرف سے وضع کر دہ تین زرعی قوانین ہیں ۔ ان کے بہت سے فوائدبتائے جارہے ہیں ۔ مثلاً یہ کہ کسان براہ راست تاجروں سے اپنی فصلوں کا سودا کر لیں گے ۔ کسانوں کے لیے منڈی کے ساتھ ساتھ دوسری جگہوں پر فصل بیچنے کا متبادل ہوگا۔ سوامی ناتھن کمیشن کی سفارش کے مطابق لاگت کا ڈیڑھ گنا ایم ایس پی دیا جائے گا۔ ان فوائد کے گنوانے کے باوجود کسان سڑکوں پر ہیں ؟ان کو حکومت کے وعدوں پر یقین نہیں ہے ۔ ایسا کیوں ہے؟وجہ بہت صاف ہے کہ اس نے حد سے زیادہ جملے بازی اور پھینکو طریقے سے اپنا اعتماد کھو دیا ہے ۔ سرکار کی سرمایہ دار وں اور بڑے کاروباریوں کی کھلے عام طرف داری ، جھکاﺅ و مفاد میں سرگرم رول کی وجہ سے کسانوں کو خوف ہے کہ اگر یہ زرعی قوانین نافذ ہوگئے تو زراعت پر بھی سرمایہ داری کا عفریت قابض ہوجائے گااور کسان محض مزدور بن کررہ جائیں گے ۔ یہ غلامی کی ایک بد ترین صورت ہے اس سے ہماری غلامی کی راہ ہموار ہوجائے گی ۔ منڈی سے باہر اناج بیجنے کی راہ ہموار ہوتے ہی منڈیاں ختم ہوجائیں گی اس سے بیچولیوں اور ذخیرہ اندوزوں کو فائدہ ہوگا وہ مصنوعی غذا ئی قلت پیدا کر کے بھار ی منافع کمائیں گے ۔ کسانوں کی محنت کا حاصل سرمایہ داروں کی جیب میں چلا جائے گا اور رفتہ رفتہ یہ زراعتی شعبہ و نظام بھی کا رپوریٹ اور کثیر ملکی کمپنیوں کے ہاتھوں میں چلا جائے گا یہ وہ خدشات ہیں جن کو دور کرنے میں حکومت پہلے سے پیدا اور پھیلے شکوک و شبہات کے سبب پوری طرح ناکام ہے ۔ کسانوں کو ایک طرح سے یقین ہے کہ زراعت کی نفع بخش اور کسانوں کی آزادی کے نام پر سرمایہ داروں کی ملی بھگت سے سرکار ان کی غلامی کا جوا ہمارے کندھے پر رکھنے کا پختہ بندو بست کر رہی ہے اور ہمیں کچھ کارپوریٹس کے رحم و کرم پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اس خدشے کو پیدا وار کی مناسب قیمتیں نہ ملنے سے تقویت ملتی ہے بھارت جیسے زراعتی تفوق والے ملک میں زراعت کو ازحد اہمیت حاصل ہے ۔ اسے نظر انداز کر نا کوئی عقلمندی نہیں ہوگی ، یہاں تقریباً 44 فی صد لیبر فورس زراعت سے وابستہ ہے۔
سرکار کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات سے شہریوں کی آزادی متاثر اور وسائل حیات سے منصفانہ طور سے استفادے کی راہ میں رکاوٹیں پید ا ہوتی ہیں ، اگر ایمانداری سے جائزہ و مطالعہ کیاجائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بڑے کاروباریوں اور کچھ سرمایہ داروں کے طبقے کے سوا باقی تمام شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے ،آزادی ، ترقی اور ملک کے وسائل حیات سے استفادے کو لے کر د قتوں میں ہیں، میڈیا کو قابو اورسرکاری مشینری کا استعمال کر کے ان کی آواز کو دبانے میں فی الحال کامیابی مل رہی ہے لیکن یہ زیادہ دنوں تک کسی بھی جمہوری ملک میں چل نہیں سکتا ہے ۔ کپل مشرا، ارنب گو سوامی اور دیگر اختلافی آواز والے سیاسی افراد اور میڈیا والے سرمایہ داروں اور مزدوروں ، کسانوں اور دیگر محنت کشوں کے درمیان موازنہ کیا جاتا ہے تو صاف نظر آتا ہے کہ آزادی اوروکاس (ترقی)سب کے لیے نہیں بلکہ اپنے دائرے کے سب کے لیے آزادی ترقی ہے، ایسی حالت میں کسی بھی ملک کے لیے معتدل و متوازن اور مساوی ترقی و آزادی کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے ۔

Comments are closed.