سعودی عرب کا نام صحیح نہیں؟

 

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043

 

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سعودی عرب کا قیام انگریزوں کے تعاون سے ہوا تھا، خلافت عثمانیہ کے خلاف مکہ مکرمہ کے والی شریف مکہ حسین بن علی نے علم بغاوت اسی لئے بلند کیا؛ کیونکہ برطانیہ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس بغاوت کے انعام میں اس کو نجد و حجاز کے پورے خطے کا حکمراں بنادے گا؛ لیکن جب ترک فوجیں شکست سے دوچار ہوئیں اور اس غدار لیڈر نے فتح حاصل کی تو انگریزوں نے دریائے اردن کے کنارے ایک پٹی پر اسے بادشاہ بنا دیا، جو مملکت ہاشمی اردن کے نام سے موسوم ہے، ادھر ١٩١٥ء میں کویت کے اندر برطانوی نمائندہ نے شاہ عبدالعزیز سے معاہدہ کیا اور ان کو بھرپور وعدہ کی بنا پر "ستارہ ہند” کے اعزاز سے نوازا گیا، اس معاہدہ کے مطابق نجد، احساء، قطیف اور حبیل وغیرہ پر ملک سعود کی حکمرانی تسلیم کی گئی، اس کے عوض یہ عہد لیا گیا کہ وہ بہر صورت برطانیہ کے وفادار ہوں گے اور اپنے ورثہ میں سے ایسے ہی شخص کا انتخاب کیا کریں گے، جو سلطنت برطانیہ کا ذرا بھی مخالف نہ ہو، اس طرح موجودہ سعودی عرب کے ایک حصہ پر شریف مکہ کی اور دوسرے حصہ پر ملک عبدالعزیز کی حکومت قائم ہونی تھی؛ لیکن ترکوں کی شکست کا مقصد پورا ہونے کے بعد حکومت برطانیہ کی نظر میں شریف مکہ کی کوئی افادیت نہیں رہی؛ اس لئے جب ملک عبدالعزیز نے حجاز پر حملہ کیا تو برطانیہ نے شریف مکہ کی مدد نہیں کی اور گویا بالواسطہ طور پر ملک عبدالعزیز کی حمایت کرتے ہوئے موجودہ پوری سعودی مملکت آل سعود کے زیر اقتدار آگئی، اس مملکت کے قیام میں شیخ محمد بن عبدالوهاب کا بھی رول تھا، جو متبع سنت، خدا ترس اور علم دوست تھے، اس لئے ایک اچھا پہلو یہ رہا کہ حکومت پر دین و ایمان اور قرآن و سنت کی حکمرانی کو اصل مانا گیا، جس کا اثر ابتدائی زمانے میں ضرور دکھا تھا، بالخصوص بعض حکمرانوں نے اس سلسلہ میں پوری جرأت ایمانی کا مظاہرہ کیا تھا، بہرحال حکومت نے بعض چیزوں میں افراط و تفریط اور غلو سے کام لیا، ان میں ایک یہ بھی تھا کہ انہوں نے جزیرہ عرب کا نام بدل دیا، جس سے پوری امت مسلمہ کو خصوصی لگاؤ تھا، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پسند فرمودہ اور نشانی کے مثل تھا؛ لیکن انہوں نے اس جذبہ عشق پر کاری ضرب لگا دی، وہ گویا سلطنت و حکومت کے نشے میں اتنے چور ہوگئے کہ اس مقام کے مرتبہ و عظمت کا بھی خیال نہ رہا، آبائی محبت و سلطنت نے امت مسلمہ کے لطیف احساس اور حقیقی تاریخ کی رعایت کا بھرم نہ رکھا۔
مشہور مفکر ڈاکٹر سفر بن عبدالرحمن غانم الحوالی (پ-١٩٥٥ء) باحہ،سعودی عرب نے اپنی انقلابی کتاب "المسلمون والحضارۃ الغربیۃ” (مسلمان اور مغربی تہذیب) میں بہت سے حقائق کا انکشاف کیا ہے، جس کی وجہ سے وہ خود معتوب قرار پائے اور سنت یوسفی کا اعزاز پایا، اس کتاب کا ایک اقتباس استاد گرامی مولانا اعظم صاحب ندوی کے ترجمے کے ساتھ ملاحظہ کیجئے! "ایک مسئلہ نام کا بھی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں کہ ایک قبیلہ کا نام اس کے کسی جد امجد کے نام پر رکھ دیا جائے جیسے بنی ہلال، بنی خالد وغیرہ، سعودی عرب کا موجودہ نام فواد حمزہ نے رکھا جو ددوزی تھا، پھر موت کے وقت گواہی دی کہ میں اہل سنت والجماعت کے عقیدہ پر ہوں جیسا کہ ان کے دوست خیرالدین زرکلی نے "الإعلام” میں ذکر کیا ہے، مسلمانوں نے اپنا نام "محدین” یا "محمڈن” نہیں رکھا، جیسا کہ عیسائیوں نے اپنی نسبت حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف کرتے ہوئے "مسیحی” یا "عیسائی” رکھی ہے، مسلمانوں نے حضرت عمر کے بسائے ہوئے شہروں کو "عمریہ” نہیں کہا، جیسا کہ سابق لوگوں نے” شہرصدام” اور اب "شہرصدر” بغداد کے قریب ایک علاقہ کا نام رکھ لیا ہے، ایسے ہی عزیزیہ، فیصلیہ، ناصریہ،مشعلیہ وغیرہ نام رکھے گئے ہیں، ناموں کا بدلنا دنیا میں عام بات ہے، ایتھوپیا کو پہلے حبشہ کہتے تھے، موریتانیہ کو شنقیط، مصر کو جمہوریہ عربیہ متحدہ کہتے تھے اور اب اس کا نام جمہوریہ مصر عربیہ، تھائی لینڈ کا نام سیام تھا، سری لنکا کا نام سیلان تھا، تنجنیقا کا نام تنزانیہ ہوگیا، اس کی بے شمار مثالیں ہیں، یہاں بھی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، اس کے بعض ارکان اب بھی زندہ ہیں، اس کمیٹی نے سعودی عرب کا نام "المملکۃ الاسلامیہ المتحدہ” تجویز کیا تھا؛ لیکن وہ تجویز ماضی کے دھندلکوں میں چھپ گئی، یہ لفظ سعودیہ کی توہین نہیں؛ لیکن شیخ ابن باز، شیخ ابن عثيمين اور شیخ فوزان بلکہ "اللجنۃ الدائمۃ للافتاء” نے بھی اس کی وضاحت کی ہے کہ ملک کا نام "المملکۃ العربیہ السعودیہ”رکھنا غیر اسلامی عمل تھا. اللجنۃ الدائمۃ للافتاء” کے فتاوی پر اب خال خال عمل. ہورہا ہے، اس کے متعدد فتووں پر عمل ندارد ہے، ان میں ایک فتوی اہل. کفر کے جزیرہ عرب العرب میں داخلہ کے ممنوع ہونے کا بھی ہے، اب کہاں اس عمل ہے، اے آل سعود! اگر تم جلد از جلد توبہ نہیں کرتے تو تمہارے ساتھ بھی وہی ہونے والا ہے جو تم جیسے لوگوں کے ساتھ اللہ کی طرف سے ہوتا رہا ہے، اور اس کا ایک انجام حکومت پر بڑھاپے کا طاری ہونا ہے، جس کے بارے میں ابن خلدون نے لکھا ہے کہ حکومت پر بڑھاپا طاری ہوتا ہے تو وہ زیادہ دن نہیں چلتی، شاہی خانوادہ میں نزاع باہمی اس کا ایک مظہر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ کا حق ہے کہ جس کو بھی اونچا اٹھاتا ہے اسے نیچے بھی گراتا ہے”. (دیکھیے:حرم کا پیر کلیسا سے آشنائی ہے-مرتب: پروفیسر محسن عثمانی ندوی)

 

Comments are closed.